’بابا کی وفات کے بعد سالگرہ پر ان کی ای میل دیکھ کر میں پھولے نہ سمائی‘


نتاشہ سلمان کے والد کا انتقال اس برس اپریل میں ہوا تھا اور جب وہ اپنی سالگرہ کا انتظام ان کے بغیر کر رہی تھیں تو اس وقت ان کے انباکس میں ایک ایسا پیغام آیا جو ان کے والد نے انھیں کئی برس پہلے بھیجا تھا لیکن ان کی پہلے کبھی اس پر نظر نہیں پڑی۔

جب انھوں نے اپنی یہ کہانی سوشل میڈیا پر شیئر کی تو اس سے ہزاروں لوگوں کو اپنے بچھڑ جانے والوں سے وابستہ جذباتی کہانیوں کو آپس میں بانٹنے کا موقع ملا۔

لمبے عرصے تک ایک اعصابی بیماری میں مبتلا رہنے کے بعد سلمان وحید کا 24 اپریل کو انتقال ہوا تھا۔ اس بیماری سے آہستہ آہستہ مریض کا دماغ اور اعصاب جواب دینے لگتے ہیں۔

نتاشہ کہتی ہے کہ انھیں امید تھی کہ جون میں ان کی سالگرہ کے موقعے پر ان کے والد خواب میں ’ملنے‘ آئیں گے لیکن جب وہ نہ آئے تو ان کا دل ٹوٹ گیا۔

22 برس کی نتاشا کی سالگرہ کا دن آیا تو وہ کافی بوریت محسوس کر رہی تھی، انھوں نے سوچا کہ چلو اپنی پرانی ای میل کے بھرے ہوئے انباکس کو چیک کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیے

’میرے والد کو مشورہ دیا گیا کہ میں بات نہ مانوں تو مجھے مار دیں‘

وہ باپ جو بچوں کو دولت اسلامیہ سے بچا لایا

ایک مثالی باپ کیسا ہوتا ہے

اانھوں نے اپنے انباکس میں بہت ساری بےکار ای میلز کے درمیان جو اشیا فروخت کرنے والوں نے بھیجی ہوتی ہیں، ایک ایسا پیغام ملا جو ان کے والد نے انھیں بھیجا ہوا تھا۔ وہ اُسے دیگر بے کار ای میلز کے ساتھ ڈیلیٹ کرنے ہی والی تھیں کہ انھیں اچانک ’بابا‘ لکھا نظر آیا۔

اس پیغام میں لکھا تھا ‘سالگرہ مبارک، بیاری نتاشہ، بابا تمھیں ہمیشہ پیار کرتے ہیں۔’

نتاشہ کہتی ہے کہ ‘وہ مجھے میرے پرانے ای میل ایڈریس پر پیغام بھیجتے تھے، یونیورسٹی کے نئی ای میل ایڈریس پر نہیں۔’

سلمان وحید نے سنہ 2017 میں اپنے ای میل پر سالگرہ کی یادہانی کا سسٹم لگایا تھا، یعنی اپنی بیماری کی تشخیص کو دو برس بعد۔ ‘وہ شاید اس وقت اپنی زندگی کی بارے میں سوچ رہے ہوں گے کہ نہ جانے وہ کتنا عرصہ جی سکیں گے۔’

‘اس ای میل نے مجھے بہت خوشی دی۔ میں نے اپنی بہنوں سے کہا کہ وہ بھی اپنی ای میل چیک کریں، انھیں بھی ایسی ای میلز مل رہی تھیں۔ میری دوستوں نہ کہا کہ میرے بابا کی ای میل بہت ہی زبردست تھی اس لیے میں نے اُسے ٹوئٹر پر پوسٹ کیا اور اس پوسٹ پر ردعمل تو بہت ہی پرجوش آیا۔’

نتاشا کی ٹویٹ اور اُس کے ‘بہترین بابا’ کی کہانی کو پونے چار لاکھ لوگوں نے پسند کیا اور گیارہ سو افراد نے اس پر تبصرے کیے اور اس میں بہت ساروں نے اپنی خوشی اور غموں کی کہانیاں شیئر کیں۔

اِن میں سے ایک میکائیلا ڈینیال تھی جس نے اس پوسٹ پر اپنی کہانی پوسٹ کی تھی۔ اس نے لکھا ‘میں تمہاری خوشی محسوس کرسکتی ہوں۔ پچھلے ماہ میری سالگرہ تھی اور میرے والد کا پچھلے برس ستمبر میں انتقال ہوا تھا۔ میری سالگرہ کے موقعہ پر وہ پہلے شخص ہوتے تھے جو مجھے پیار کرتے تھے اور ہمیشہ کہتے تھے: محنت کرو اور مضبوط لڑکی بنو۔’

‘میں انھیں اب بھی یاد کرتی ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ وقت گزر جائے گا۔ مجھے بس یہ افسوس ہوتا ہے کہ جب میری شادی ہوگی یا میرے بچے ہوں گے تو وہ نہیں ہوں گے۔’

اس قسم کے پیغامات کے جواب میں نتاشا نے براہِ راست پیغامات وصول کرنا شروع کردیے اور وہاں پیغامات بھیجنے والوں کو مشورے بھی دینا شروع کر دیے اور ان لوگوں کی دلجوئی بھی کرتی جن کا کوئی قریبی عزیز بچھڑ گیا ہوتا۔

‘دل بڑھانے والی کہانیاں’

نتاشہ نے بتایا کہ ‘میں ان لوگوں کو فوراً جواب دینا چاہتی تھی جن کے والد کا انتقال ہوا ہوتا کیونکہ میں سمجھتی کہ وہ ان تبصروں میں کہیں کھو نہ جائیں۔’

ان کا کہنا تھا کہ ‘لوگوں کی اپنی کہانیاں سن کر مجھے کافی مدد ملی۔ میرے دوست سب سے اچھے ہیں، لیکن میں ان سے بات نہیں کرسکتی ہوں کیونکہ وہ یہ نہیں جانتے ہیں کہ میں کن حالات سے گزر رہی ہوں۔ لوگ اپنے پیغامات میں مجھے بتاتے کہ اس برس ‘فادرز ڈے’ پہلی مرتبہ اپنے ابو کے بغیر تھا۔اور میں انھیں کہہ سکتی تھی کہ می ٹو (یعنی میرے ساتھ بھی یہی صورت حال تھی)’

‘کچھ لوگ کہتے ہیں وقت کے ساتھ زخم بھر جاتے ہیں، لیکن کچھ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوتا ہے اور آپ کو ان زخموں کے ساتھ رہنا سیکھنا ہوتا ہے۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ان کے باپ کا انتقال نہیں ہوا ہے بلکہ ان کا ان سے رابطہ ٹوٹ گیا ہے۔’

انھوں نے بتایا کہ ‘میں نے تو کئی ایک سے یہ بھی کہا کہ اگر ان کے تعلقات اچھے نہیں ہیں تو وہ بھی کچھ دیر میں ٹھیک ہو جائیں گے۔ یہ ساری کہانیاں دل بڑھانے والی ہیں۔’

سلمان وحید کی ای میل سے ایک بازگشت پیدا ہوئی ہے جو اس سے ایک بات کی نشاندہی ہے کہ لوگ مرنے کے بعد بھی ٹھوس طریقے سے محسوس کیے جانے والا تعلق چاہتے ہیں، اور اِن میں ای میل، ٹیسکٹ اور وائس میل بھیجے گئے پیغامات بھی شامل ہیں۔

سٹیفورڈ یونیورسٹی کی المیے سے بحالی کی سائینس کے ماہر جِل فریمپٹن کہتی ہیں کہ ‘موت کا ہرگز یہ مطلب ہے کہ اس کے ساتھ رشتہ بھی ختم ہوجاتا ہے، اس کی نوعیت بدل جاتی ہے۔’

‘ہم بحیثیت انسان ایک ٹھوس رابطہ چاہتے ہیں، جس سے ہم گزرجانے والے شخص کو دیکھ سکیں، سن سکیں یا سونگھ سکیں اور اُس میں تحفظ پا سکیں اور ساتھ ساتھ اس سے اپنا تعلق بنا سکیں۔’

‘اس سے ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ جو شخص انتقال کر چکا ہے وہ ایک مجسم صورت میں ہمارے ساتھ زندہ ہے۔’

شیفیلڈ سے تعلق رکھنے والی جذباتی رویے کے علوم کی ایک ماہرِ نفسیات اینڈریا چیٹن کہتی ہیں کہ ہم ایسی باتیں اس لیے کرتے ہیں تاکہ جو مرگیا ہے اُس سے ‘ہم اپنی محبت کو زندہ رکھ سکیں۔’

‘اِسے رشتے کے تسلسل کو تعلق کہتے ہیں۔ جب کوئی مرجاتا ہے اور وہ اب ٹھوس حالات میں موجود نہیں ہوتا ہے تو اس قسم کے تعلق کا طریقہ اُن سے ایک رشتے کو زندہ رکھتا ہے۔’

‘تین شہزادیاں’

نتاشا کی دو بہنیں، نیّا اور سوہا نے بھیں بیماری کے دوران سکول اور یونیورسٹی سے واپس آ کر اپنے بابا کی ان کی دیکھ بھال کی تھی۔ اس کی بیماری سے پہلے اس کی ٹانگیں مفلوج ہوئی تھیں پھر اس کے بازو۔

نتاشا کہتی ہے کہ ‘اپنے میڈیکل سکول کے بعد میں سب سے پہلے اپنے جوتے اتارتی، اوپر کی منزل پر دوڑتی جاتی اور وہ پوچھتے ہمارا دن کیسے گزرا اور جاننا چاہتے تھے کہ آج ہم نے کیا سیکھا۔’

‘میں انھیں اناٹومی کے بارے میں بتاتی اور پھر میں انھیں مذاق کے طور پر پریشان کرتی۔ جب میں ان کے پاؤں کا مساج کرتی تو انھیں ہر مسل کا نام بتاتی۔’

نتاشا کہتی ہے کہ ان کے والد کا ہر موقعے کی فلمیں بنانا ان کا شوق تھا اور وہ اب اِن پرانی ویڈیوز کو وہ اکثر دیکھتی رہتی ہے۔ وہ کہتی ہے یہ اسے اپنے بابا کی آواز کی یاد دلاتی ہیں جو بیماری کے بڑھنے کے بعد متاثر ہوگئی تھی۔

نتاشہ کہتی ہے کہ ‘یہ اعصابی بیماری ایک بدترین مرض ہے کیونکہ آپ ہر وہ بات کرنے سے محروم ہوتے چلے جاتے ہیں جو آپ کرنا چاہتے ہیں۔’

‘لیکن وہ ہمیں کبھی بھی افسردہ نہیں ہونے دیتے تھے۔ یہاں تک کہ ہم جب ان کی بیماری کے دوران ان کی دیکھ بھال کرتے تھے تو وہ ہمیں اپنی تین شہزادیوں کی طرح پیار کرتے اور ہمیں یہ محسوس ہی نہ ہونے دیتے کہ ہم ان کا خیال رکھ رہے ہیں۔ بلکہ ہمیں تو بس ایسا لگا کہ ہم نے ایک کنبے کی صورت میں ایک اچھا وقت گزارا خاص کر لاک ڈاؤن کے زمانے میں۔’

‘میرے دوست اس بات کو سمجھ نہیں پائے رہے تھے کہ میں ان کی دیکھ بھال کو بوجھ محسوس نہیں کرتی تھی تو میں نے انھیں بتایا کہ اگر آپ اپنے والد کو اتنا ہی پیار کرتی ہیں جتنا میں کرتی تھی تو تب آپ کو یہ دیکھ بھال ایک بوجھ محسوس ہی نہیں ہوگا۔ وہ وقت ہر وقت مسکراتے، ہنستے اور اور مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ وہ اس طرح کے تھے، کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ وہ چاتےہ تھے کہ ہم غمگین نہ ہوں۔’

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32566 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp