امید کا فقدان اور ہمارا نوجوان


آج کا نوجوان کیا پرامید ہے یا مایوس۔ کیا اس ملک میں مستقبل کے خواب دیکھنا اور ان کی تعبیر حاصل کرنا ممکن ہے یا نہیں؟ شکوے شکایات اور الزامات تو شام کے بعد جگمگاتی ٹیلی ویژن کی اسکرینوں پر مہنگے اور برانڈڈ سوٹ میں ملبوس اینکر پرسنز کا شعبہ خصوصی ہیں تو ہم شکوے شکایات اور الزامات سے دور رہ کر اپنی بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوال کرنا اور جاننے کی خواہش شاید یہ دو چیزیں ان اہم اقدامات میں شامل کی جاسکتیں ہیں جن کی وجہ سے دنیا میں بہت سی تبدیلیاں آسکیں اور آج ہم انٹرنیٹ کی سہولت کے ذریعے پوری دنیا میں بہت سی چیزوں کو جاننے کا کام کر رہے ہیں۔

امید کسی بھی فرد، خاندان، شہر یا معاشرے کے لیے ایک ایسا اہم موضوع ہے جو اس کی بقا کا فیصلہ کرتا ہے اور اگر بقا کا فیصلہ کرنے والا یہ اہم عنصر اپنی قوت کھونے لگے تو یقیناً پریشان ہونا ایک لازمی سی چیز ہے۔ اج کی دنیا نوجوانوں کی دنیا بن گیٰ ہے کیونکہ دنیا کی مجموعی آبادی میں نوجوان اکثریت میں ہیں مگر اس نوجوان اکثریت کے ساتھ کام کرنے کے طریقے پرانے طرز پر نہیں ہوسکتے۔ نہ صرف دنیا میں نوجوان اکثریت ہے بلکہ انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اس دنیا کو یکسر بدل سا دیا ہے۔

ان تمام امور کو مدنظر رکھ کر دنیا بھر میں مطابقتی پالیسیوں اور حکمت عملیوں کو بحث میں لایا جا رہا ہے تاکہ مستقبل میں انے والے چیلینجنز کا مقابلہ کرنے لیے کارآمد اقدامات اور سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کے لیے قابل عمل قابل عمل منصوبے موجود ہوں۔ اور شاید سب سے بڑی ذمہ داری تو ریاست کی ہی ہے مگر یہ صرف ریاست کام نہیں کیونکہ اس ذمہ داری کا حیطہ عمل بہت وسیع ہے اور اس پر واقعی کام کرنے کے لیے معاشرے کے ہر طبقہ کے اس موضوع پر آگاہ اور حساس ہونا لازم ہے۔

کسی بھی خواب کو تباہ کرنا ہو تو امید کو کمزور کردو اور تصور کرنے کی تخلیقی صلاحیت کو ہر اک طور سے دبا دو۔ جو نوجوان خواب اور امید سے دور، اک مشینی سے بے جان ماحول میں زندہ رہیں گے ان سے کچھ ایسا کرنے کی توقع تو عبث ہوگی جس کا تعلق خواب کی تعبیر اور امید کے حصول سے بنتا ہو۔ ملک کا یا خاندان کا غریب ہونا شاید بنیادی سبب نہیں کہ اگے نہ بڑھا جاسکے مگر امید اور حوصلے کا فقدان وہ سبب ہے جو ترقی اور بہتری کو بس اک دور کا منظر بنا کر رکھ دے گا۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے میں امید اور حوصلے کا فقدان کیسے وجود میں آتا ہے کیونکہ یہ اک دن میں تو نہیں ہو سکتا کہ معاشرے میں خواب دیکھنے کا چلن ختم ہونے لگے اور ایسے خواب جو کہ اجتماعی ترقی اور ملک وقوم کی تقدیر بدلنے کا سبب بن سکیں۔ جبر کا رویہ، بدعنوانی کا فروغ، الجھن پر مبنی اقدامات اور قابلیت کے برعکس ناقابلیت کا رواج اک شہری کی امید کے سلسلے کو کمزور کرنے لگتا ہے اور اپنے اطراف کے بارے میں اس کی ذمہ داری پر نہ صرف وار کرتا ہے بلکہ اک شہری اور معاشرے کے باہمی تعلق کے دھاگوں کو بے رنگ کرنے کے ساتھ ساتھ سوچ و فکر میں بہت ہی بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لانے کی وجہ بن جاتا ہے۔

بات صرف یہاں تک محدود نہیں رہتی بلکہ یہ تو اک نیچے کی جانب جانے والے دھویں کے مرغولے کی مانند تہذیب، معاشرے اور ملک کے وجود کے لیے اندرونی تباہی کی داستان کے پہلے باب کی مانند ہوتی ہے۔ اس بات کو تھوڑا تفصیل سے سمجھنے کے لیے سادہ طور پر کچھ باتوں، اشاریوں، علامتوں، حالات اور وجوہات پر غور کرنا اور ان کی تشکیل، تریتب، وجود اور اثرپذیری کے بارے میں جاننا بہت ضروری عمل ہے۔ کیونکہ کسی بھی عمل کے پیچھے ایک ابتدا سے انتہا تک بہت ساری چیزوں کا اک مربوط سلسلہ اور تاریخ ہوتی ہے۔

جس طرح آثارقدیمہ کے ماہرین قدیم تہذیبوں کے بارے میں جاننے کے لیے مختلف طریقہ کار اور نقطہ نظر کو آزماتے ہیں تاکہ سیارہ زمین پر انسان کی زندگی کے مختلف ادوار، مختلف تہذیبوں کے رسم ورواج، ثقافت، زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کرنے کے طریقے اور تہذیبوں کی تباہی کے پیچھے چھپے اسباب اور واقعات کا ممکنہ طور پر درست سراغ لگایا جاسکے۔ امید کے فقدان کا اک سادہ سبب تو بے یقینی پر مبنی ماحول کا فروغ ہے اور بے یقینی کے فروغ کے لیے بہت سے سرگرم عوامل میں سے ایک بہت سے ٹی وی چینلز کی اسکرینیں ہیں جہاں سے اک خاص انداز میں سجا بنا کر صرف منفی خبروں کو اک خاص انداز کی موسیقی کے ساتھ اور پرزور اور پراثر بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

اک خاص انداز کی موسیقی کا تذکرہ اس لیے کیا کہ آپ مختلف نیوز چینلز کے خبر ناموں یا ہر اک گھنٹے یا آدھے گھنٹے کے بعد انے والے نیوز بلیٹنز کی ابتدا میں پیش کی جانے والی سنسنی خیز یا مخصوص قسم کی موسیقی کو ذرا غور سے سنیں یا خبروں کو ادا کرنے کے مختلف انداز ملا حظہ کیجیے۔ جب چوبیس گھنٹے خبروں کے ذریعے ایک خاص قسم کا نا امیدی کا ماحول پیدا کیا جاتا رہے تو اک عام شہری اور خصوصاً اک نوجوان کی امید کی سطح بلند ہوگی یا پست۔

معاشرے میں روزمرہ کی بنیاد پر موجود اور عوامل بھی اک شہر ی اور خصوصا اک نوجوان کی امید کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں مگر میڈیا، فلم، ڈرامہ ابلاغ کے بہت ہی موثر اور طاقتور ذریعے ہیں اور اسی وجہ سے ان کا حیطہ عمل، اثرپذیری اور پہنچ ملک کے دوردراز گوشے اور تقریباً ہر ایک گھر تک ہے۔ مگر صرف میڈیا (اخبارات اور ٹی وی چینلز) ہی واحد ذمہ دار نہیں، بلکہ اک بہت اہم کردار ہمارے رویے اور سوچ کا بھی ہے جو کہ اک نوجوان کو مطالعہ، سوال، سوچ اور فکر سے دور لے کر جارہی ہے۔

یہ وہی سوچ ہے جو اک نوجوان کو سمجھ کر پڑھنے، مشاہدہ کرنے اور علم کے زندگی میں عملی اطلاق کے بجائے ڈگری کے حصول، امتحانات میں اچھے نتیجے اور اسٹیٹس کے حصول کی ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ میں حصہ لینے پر اکساتی ہے۔ یہ وہی سوچ ہے جو شعر، کہانی، خواب، امید، کتاب، سوچ، نظریے اور تصور کو رد کرتی ہے اور مادیت پر مبنی صرف عملی زندگی کے ایسے تقاضوں پر جو انسان، کردار، خیال، سمجھ اور اجتماعی بہتری کے تصور کو رد کرتے ہوئے صرف ذاتی کامیابی اور اس کامیابی کے لیے ہرممکن طریقہ کار کو آزمانے کی ترغیب دیتی ہے۔

یہ وہی سوچ ہے جو سرمایہ جمع کرنے اور اس سے صرف ذاتی مفاد اور سہولت کے حصول کا سبق دیتی ہے۔ کیا اب بھی ضرورت نہیں کہ اس اہم بات کو زیر غور لایا جائے اور امید کے فقدان کو حقیقی معنوں میں ختم کرنے پر کام کیا جائے تاکہ ہم اپنے شہریوں اور خصوصاً نوجوانوں میں امید کی سطح کو بلند کرکے اجتماعی ترقی اور ایک بہتر معاشرے کے خواب کو ممکن بنا سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments