یہ عمران خان کا ساتھ دینے کا وقت ہے


لارڈز لندن ہے۔ ۔ ۔ اس اگست 2020 میں اس بات کو پورے دس سال ہو جائیں گے، ہو سکے تو اس بدنامی کی سالگرہ منالیں اور اس وقت کے صدر پاکستان آصف زرداری کے وژن کے مطابق، ”مل کے کھاؤ اور مٹی پاؤ“ پالیسی پر قائم رہنے کا تجدید عہد بھی کر لیں۔ جب، ”نیوز آف دی ورلڈ“ کے انڈر کور رپورٹر نے بکی مظہر مجید کو میچ فکسنگ کرتے ہوئے ویڈیو ٹیپ کر لیا تھا، اس میچ فکسنگ سیکنڈل میں ہمارے تین نوجوان کر کٹرز جن میں کپتان سلمان بٹ، فاسٹ باؤلر محمد آصف اور محمد عامر شامل تھے۔

آئی سی سی نے تو ان کے کھیلنے پر پابندی لگائی ہی لگائی، سکاٹ لینڈ یارڈ (لندن پولیس) نے انہیں جیل میں بھی ڈالا اور قوم کے ان سپوتوں کو عدالت سے سزائیں بھی ہو ئیں۔ تو یہ تھا وہ کام جسے گھر کے اندر ٹھیک نہ کیا گیا تو گھر سے باہر ذلت اور بدنامی کا باعث بنا۔ یہ تینوں، جو اپنے ٹیلنٹ کی وجہ سے ملک کا فخر بن سکتے تھے، ایک انٹرنیشنل جواری کے ہتھے چڑھ کر، عالمی سطح پر ملک کا وقار خراب کرنے کا باعث بنے۔ آج، جب لو گ کہہ رہے ہیں کہ پی آئی اے کے جعلی ڈگری ہولڈرز پائلٹس کو منظر عام پر نہیں لانا چاہیے تھا، تو درست کہتے ہیں کیونکہ جب تک ”گورا“ نہ ہمیں پکڑے ہمیں قرار نہیں آتا۔ اپنی حکومت وقت کی نیت اور قابلیت پر تو بھروسا نہیں ہے۔ بھروسا کیسے ہو؟ پروپگنڈا کر نے والے سب کے سب ’ایمانداری ”سے الرجک جو ہیں۔

پاکستان سے، میرے دیور نے بتایا؛کہ آج صبح گوالا دودھ دینے آیا تو وہ بھی عمران خان کو گالیاں دے رہا تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ اب دودھ میں ملاوٹ کی چیکنگ بہت سخت ہو گی اور اس وجہ سے ہمیں دودھ مہنگا ملے گا اور مہنگا بیچنا پڑے گا۔ ۔ ۔ یعنی پانی اور دوسرے لوازمات کے بغیر (جو صحت کو تباہ کر رہے تھے ) دودھ سستا نہیں رہے گا۔ تو ہو گیا نا عمران خان گالیوں کا مستحق؟ اس گوالے کی گالیوں سے باقی سب متاثر ین کی گالیوں کی ”وجوہات“ کا اندازہ بھی لگا لیں۔ یہ، گالیاں دینے والے تو ہو گئے نظام کے سدھر جانے کے براہ راست متاثرین، پھر ہو یہ رہا ہے کہ یہ متاثرین اپنے زور بازو سے، دہن شیریں سے ایسا ایسا زہر اگلتے ہیں اور اس قدر تسلسل سے اگلتے ہیں کہ سیکنڈ ہینڈ متاثرین (سیکنڈ ہینڈ سموکرز کی طرح، جو خود سگریٹ نہیں پیتے مگر جو پیتا ہے، اس کے ساتھ بیٹھ کر اپنے پھیپھڑوں میں پینے والے سے زیادہ زہر اتارتے ہیں ) روز روز کی گل فشانیوں سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہو جاتے ہیں اور بغیر سوچے سمجھے ان گالیوں میں حصہ ڈالنے لگ جا تے ہیں۔

ایک وقت تھا یہ فیشن بن گیا تھا کہ عمران خان کو سپورٹ کر نا ہے اور انقلاب لا کے چھوڑنا ہے۔ تب قدرت نے مجھے خان صاحب سے انقلاب کے بارے میں سوال پوچھنے کا موقع دیا۔ سوال کے جواب میں خان صاحب نے تمسخرانہ انداز میں مجھے دیکھا کوئی الٹا سیدھا جواب دیا اور قہقہہ لگایا، اور کہا آپ کی طرح ہم بھی انقلاب کے طالبعلم ہیں۔ مجھ پرسوالات کی تعداد کی پابندی تھی، اور ان کے گرد ایسا ہجوم تھا، جو ان کی بات پر ہنستا اور ان کی بات پر خاموش ہو جاتا تھا، اسی ماحول میں میرا انقلاب کا تصور ان سب کی ہنسی میں دھواں بن کر اڑ گیا مگر مجھے ان کے جوابات سے سمجھ آ گئی کہ خان صاحب پاکستان کے کرپشن، بدنظمی، اقربا پروری، خاندانی بادشاہت کے بوسیدہ نظام میں کس حد تک تبدیلی لا سکتے ہیں، مجھے ان کے وژن سے کچھ ایسی امیدیں نہ رہیں، مگر ان کے حوصلے، ان کی ایمانداری، خلوص، سادگی اور ترقی کرتے پاکستان کے خواب دیکھنے سے مجھے کوئی اختلاف نہ تب تھا نہ اب ہے۔

مگر ایک دو سوالوں (وہ بھی پریس کانفرس کے شور شرابے والے ماحول میں ) میں ہی مجھ پر ان کی تبدیلی (اس وقت تک خان صاحب اسے انقلاب کہا کرتے تھے ) کی حددو آشکار ہو گئی تھیں۔ حیرت اس وقت ہو ئی جب وہ تمام منجھے ہوئے، قابل اور تجربہ کار صحافی، جنہیں یقیناً مجھ سے کہیں زیادہ خان صاحب سے بات کرنے اور انہیں جاننے کا موقع ملتا ہو گا۔ الیکشن سے پہلے لوگوں کو ایسے ایسے خواب دکھانے لگے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ہی خان صاحب کے ہاتھوں ملک کی غربت دور ہو گئی، کر پشن اپنی موت آپ مر گئی، اقربا پروری کہیں قبر میں جا سوئی اور مساوات اور انصاف کا بول بالا ہو گیا۔

خان صاحب اور ان کے سیاسی حواری اگر یہ سب کرتے تھے تو یہ خان صاحب کا پہلا سیاسی سبق تھا جس میں سیاسی نعرے کچھ اور ہو تے ہیں اور زمینی حقائق کچھ اور۔ خان صاحب پاکستانی سیاست کے رنگ میں رنگے جا رہے تھے۔ مگر پھر جن کالم نگاروں اور تبصرہ نگاروں نے پاکستان کو پرستان بنا دیا تھا، خان صاحب کی کامیابی کے پہلے، دوسرے مہینے میں ہی آنکھیں ماتھے پر رکھنا شروع کر دیں اور ”جہنم زمین پر“ کا شور مچانے لگے۔

ہر ایک مشکل پر مخالفین تو شور مچاتے ہی مچاتے کہ ”ہن دسو مزا آیا؟“ تبدیلی کا کیڑا نکلا، جیسے تبدیلی کی خواہش کوئی گناہ ہو جس کا ارتکاب سب خواب دیکھنے والے کر چکے ہیں، سونے پر سہاگہ یہ دانشور بھی اسی آواز میں آواز ملانے لگے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ فیشن بن گیا کہ ”ہم خان صاحب کے ساتھ تھے مگر اب نہیں،“ خان نے مایوس کیا ”وغیرہ وغیرہ۔

بہت کم لوگ تھے، جو پہلے بھی خان صاحب کی بے جا ”واہ واہ“ کرنے والے ہجوم کا حصہ نہیں بنے تھے اور اب بھی ان کے خلاف اس ”آہ آہ کا“ حصہ نہیں بن رہے ہیں۔ یہ حقیقت پسند لوگ ہیں جنہیں خان صاحب کے جیتنے کی خوشی صرف اس لئے تھی کہ وہ پاکستان کے گلے سڑے نظام میں پھول اگانے کی آخری امید کی علامت بن چکے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ کھلی آنکھوں میں خواب نہیں حقیقت بھی رکھی ہو ئی تھی، ان کے دل میں ہارنے کا خوف بھی تھا، کہ جس نے بھی پاکستان کے کسی ایک ادارے میں بھی کام کیا ہو، وہ جانتا ہے کہ، رشوت، نا اہلیت، سفارش اور کرپشن کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ ایک چھوٹے سے ادارے کو ٹھیک کرنے کے لئے ایک انسان کو اپنی جان پرکھیلنا پڑتا ہے اور پھر بھی وہ اس گندی عمارت کی ایک بھی اینٹ اپنی جگہ سے نہیں سرکا سکتا۔

میکسم گورگی نے ماں میں لکھا ہے کہ ایک ہی حالت میں رہنے والے لوگوں کے لئے تبدیلی موت ہو تی ہے۔ یاد رکھئے یہ وہی موت ہے جو سب گلے سڑے نظام سے مستفید ہو نے والوں اور اب ”متاثرین عمران“ کو پڑ رہی ہے جسے یہ آگے عام لوگوں میں ایک بہت منظم طریقے سے منتقل کر رہے ہیں۔

”گوالے کی گالیوں“ کو لے کر تھوڑا آگے چلتے ہیں، صحافیوں اور میڈیا گروپس کی آہ و زاریاں بھی سمجھ میں آتی ہیں مگر آج کچھ اداروں میں بھی جھانک لیتے ہیں۔

ای سی سی کے واقفان حال بتاتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، یہاں ہم سٹیٹ اونڈ انٹرپرائزز کی بات کریں تو معلوم ہو گا کہ ایک سال میں ان کو کتنے پیسے حکومت دیتی ہے اور پھر بھی یہ ادارے بے تحاشا خسارے میں ہیں۔ 2017۔ 18 میں مختلف کمرشل سرکاری اداروں کو 143 ارب روپے سبسڈی کی مدمیں دیے گئے، اس کے علاوہ ان اداروں کو 204 ارب روپے کا نقد ترقیاتی قرضہ دیا گیا، پھر انہیں 27 ارب کی براہ راست مالی مدد دی گئی، اس کے علاوہ ان اداروں کو حکومت پاکستان کی جانب سے قرضوں وغیرہ کے حصول کے لئے 318 روپے کی گارنٹیاں بھی دی گئیں لیکن اس کے باوجود، ان اداروں نے کل ملا کر 265 ارب روپے کا حتمی نقصان دکھایا۔

ایک واقعہ سن لیں اور خود اندازہ لگا لیں ان سفید ہاتھیوں میں سے ایک ٹی آئی پی بھی ہے، جو 2008 سے بند پڑی ہے۔ پچھلے سال فیصلہ کیا گیا تھا کہ ایسے تمام اداروں کی، جو تقریباً 85 ہیں، ان میں سے 35 کی نج کاری کر دی جائے گی اس سے حکومتی خزانے پر بوجھ کم ہو گا۔

ٹی آئی پی، ہری پو ر کے ان ملازمین نے جو گھر بیٹھے آرام سے تنخوائیں اڑا رہے تھے، اس فیصلے کی خبر سن کر واویلا مچایا اور عمر ایوب صاحب جو اس وقت حکومتی وزیر بھی ہیں کے پاس جا پہنچے، اور اسی وجہ سے وزیر صاحب نے ای سی کی میٹنگ میں ٹی آئیپی کو نج کاری والی فہرست سے نکالنے کی سفارش کی اور کہا کہ وہ دو مہینے کے اندر ایسا پلان لائیں گے کہ ادارہ اپنے پاؤں پر خود کھڑا ہو جائے گا اور حکومت پر بوجھ نہیں رہے گا۔

جب ان کا لایا ہواپلان زیر بحث آیا تو اس پہاڑ میں سے جو چوہا نکلا وہ یہ تھا کہ ایک ارب ٹی آئی پی کے اکاؤنٹ میں ہیں اور ڈیڑھ ارب حکومت دے تو اس ادارے کو پھر سے کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ صاحب جو اس میٹنگ کی صدارت کر رہے تھے انہوں نے یہ بے کارتجویز مسترد کردی کیونکہ اس سے بوجھ پھر حکومتی خزانے پر ہی پڑ رہا تھا۔ عمر ایوب صاحب نے کہا؛ اس کا ہمیں سیاسی طور پر نقصان ہو گا، اس علاقے سے پی ٹی آئی پھر کبھی الیکشن نہیں جیت سکے گی۔ ”

شیخ صاحب نے کہا ہمیں سیاسی نہیں ملکی مفاد دیکھا چاہیے۔ ۔ ۔ ”

اس سے اندازہ ہوا کہ اس حکومت میں فیصلے سیاسی اور ذاتی مفادات کو دیکھ کر نہیں، ملکی مفاد کو دیکھ کر کیے جا رہے ہیں۔

یہ تو قصہ ہو گیا اس میٹنگ کا اسی طرح کا ایک اور ہاتھی۔ سٹیل مل ہے جو 2015 سے بند پڑی ہے اورجس کے ملازمین کو ابھی تک تنخوائیں چار ارب سے زائد دی جا رہی ہیں۔ ، اس بند کاروبار کے بجلی، گیس اور پانی کے بل اٹھا کر دکھا لیں، اربوں کا کھیل ہے۔ ۔ ۔

ان ایس او ایز کے نقصانات، پاکستان کے دفاعی بجٹ سے کہیں زیادہ ہو گئے ہیں۔

وزیر اعظم ہاؤس، فنانس منسٹری اورڈویلپمنٹ منسٹری اس طرح کے بڑے بڑے ہاؤسز اور ان کے ملازمین کے اخراجات، جن کو سال کے آخیر تک 12، 12 بونس بھی مل جایا کرتے تھے، اوراب ان کی تنخوائیں تک نہیں بڑھ رہی ہیں۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق عمران حکومت میں کرپشن کی شرح شریف حکومت سے 98 %کم ہو گئی ہے۔

اس دفعہ بجٹ میں 2900 ارب صرف قرضوں پر سود (اصل نہیں ) کی مد میں رکھا گیا ہے۔ یہ قرضے یقیناً پچھلی حکومتوں نے لے کر ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا رکھی تھیں۔ ۔ ۔

جیسے نہرو اور پاٹیل نے قائد اعظم کو کٹا پھٹا پاکستان دے کر کہا تھا کہ یہ کچھ مہینے بھی نہیں چل سکے گا اور واپس ہم سے ہی آن ملو گے۔ یہی حال کچھ اس پاکستان کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ شاہی خاندان والوں نے ببانگ دہل کہا تھا، خان کو ملک ایسی حالت میں دے رہے ہیں کہ

کہ یہ تین سال بھی نہیں نکال پائے گا۔ ۔ ۔ اف! یہ اعتماد اور یہ مکاریاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ پارلیمانی لولی لنگڑی جمہوریت، کرپٹ نظام شاہی، طاقتور فوج، عجیب و غریب عدلیہ، خاندانی اقربا پروری، غریب اور ان پڑھ عوام کے سمندر میں ”ملاح“ کو ہاتھ باندھ کر پھینک دیا گیاہے وہ اگر ان بندھے ہاتھوں سے چپو تھامتا بھی ہے تو چپو بھی ٹوٹا ہوا ہے اور ہواؤں کا رخ بھی مخالف سمت میں ہے۔ ایسے میں وہ چار قدم بھی منزل کی طرف لے جائے تو سواریوں کے لئے غنیمت ہے ورنہ ان کی کشتی تو نہ جانے کب سے ڈوبنے کے لئے تیار شد کر دی گئی ہے۔

اگر خان صاحب ہار گئے تو سمجھئے اس نظام کو اور ان شاہی خاندانوں کو کبھی بھی کوئی بھی مائی کا لال ڈنٹ نہیں ڈال سکتا۔ ۔ ۔

ہر بات پر خان صاحب کو گالیاں، طعنے اور ان کا مذاق اڑانے کی بجائے ان کا ساتھ دیں زیادہ سے زیادہ آپ کو ”یوتھیا“ کہہ کر آپ کی تضحیک کی جائے گی۔ تو آپ کو کون سا ”پٹواری“ کہنا نہیں آتا۔

یقین رکھیں! تاریخ ثابت کرے گی کہ ایک یو تھیا ایک پٹواری سے کہیں بہتر تھا کہ جس تبدیلی کے کیڑے نے اسے چین سے سونے نہیں دیا اور اس کی آنکھوں میں خواب جگائے رکھے وہ اس دیمک سے ہزار درجہ بہتر ہے جو خاموشی سے نسلوں کو کھا جاتی ہے اور قوموں کو مٹا دیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments