آگ کے کھیل میں سرکار کی مدد۔ ۔ ۔


گزشتہ دنوں ایک سفر کرنا پڑا کہ جو جنڈ شہر (اٹک) سے خیبر پختونخوا کے شہر کوہاٹ تک کا تھا۔ ان دونوں شہروں کے درمیان لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت ہے جو اس دوران دریائے سندھ کے بے باک بہاؤ سے بھی آپ کو آشنا کرتی ہے۔ اس مقام کو خوشحال گڑھ کہتے ہیں۔ اطراف کی آبادی زیادہ تر دریا کے نظارے سے لطف اٹھانے کے لیے خوشحال گڑھ پہنچ جاتی ہے۔ شاہراہ جو راولپنڈی سے کوہاٹ تک ہے، آج کل زیر مرمت ہے لہذا سفر باعث کوفت ہی رہتا ہے۔ ہمارا سفر بھی چونکہ مجبوراً تھا، اس لیے اختیار کرنا پڑا۔ قابل ذکر اس جنگ کی صورتحال ہے جو کورونا کے نام پہ لڑی جا رہی ہے۔ آئیے جانتے ہیں کہ یہ جنگ خیبرپختونخوا میں کس طرح لڑی جا رہی ہے، جہاں حکمران جماعت کے مسلسل سات سال مکمل ہونے کو ہیں۔

جیسے ہی ہم پنجاب کے حدود سے نکلے تو جو کچھ ہمارے تصور میں تھا حالات اس سے زیادہ بھیانک تھے۔ عموماً جب حکومت کی کارکردگی زیر بحث ہوتی ہے تو تمام دوست احباب جو حکمران پارٹی کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں، وہ ڈٹ کے مقابلہ کرتے ہیں۔ مجھے پسپائی پہ ندامت نہیں ہوتی اور نہ ہی حوصلہ شکنی ہوتی ہے کیونکہ میرے سامنے کی حقیقت مجھے زیادہ قائل کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ دعوے میں اور عمل میں کتنی بڑی خلیج حائل ہے، یہ دیکھنا کوئی مشکل نہیں۔

مسلسل خبروں کے ذریعے وبا سے لڑنے کی حکمت عملی کو کامیاب ظاہر کیا جاتا ہے اور سمارٹ لاک ڈاؤن کے فضائل پہ روشنی ڈالی جاتی ہے۔ مگر جو ہورہا ہے وہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ جنڈ سے کوہاٹ تک ہم نے سینکڑوں لوگوں کو دیکھا ہو گا مگر ماسک میں اور میرے ساتھ ہم سفر دوست نے لگا رہا تھا۔ اس کے علاوہ راستے میں مختلف گاڑیوں کے مسافروں میں اور کوہاٹ کی آبادی میں ہم جیسے خراب دماغ لوگ گنتی کیے جا سکتے تھے۔ ایسے میں آپ سرکار کو ڈھونڈتے ہیں، کہ وہ کہاں ہے اور کس سمت میں ہمیں لے جانا چاہتی ہے۔ اس کی دی گئی ہدایات کے اوپر عمل درآمد کی کوئی ایک گواہی تلاش کرتے ہیں تو آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ عوامی رش جو 7 دنوں میں ہونا تھا اس کو 5 دنوں پہ تقسیم کر دیا گیا ہے۔ یعنی ایک ہفتے میں اگر روز پانچ آدمی باہر آتے ہیں تو اب سات آدمی باہر آئیں گے۔

میرے ساتھ موجود دوست جو اپنے کام کے سلسلے میں اکثر سفر کرتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ اگر ہفتہ اور اتوار کے علاوہ آپ کسی شہر کو جائیں تو اس قدر بھیڑ اور افراتفری ہوتی ہے کہ جیسے لوگ نقل مکانی کر رہے ہوں۔ حیرت یہ ہے کہ روز ٹی وی پہ آ کے ذمہ داران کیسے اپنی صفائیاں پیش کر رہے ہوتے ہیں اور ہم بیٹھ کے سر ہلا رہے ہوتے ہیں۔ اس سفر کے دوران سرکاری چیک پوسٹس بھی ہیں اور وہاں سرکاری اہل کار بھی شاید ہی ماسک میں ہوں کیونکہ جنہوں نے ہم سے پوچھ گچھ کی وہ بغیر ماسک کے تھے۔ حیرانی ہے کہ یہ کیسا عمل درآمد ہو رہا ہے۔ عوام اپنی جہالت کی سزا بھگت رہے ہیں اور حکومت ان کو مکمل سہولت دے رہی ہے۔ دکانیں جو کھلی ہیں وہاں کسی طرح بھی سوشل ڈسٹنس کا کوئی مظاہرہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔

جس طرح بیماری پھیل رہی ہے، اس سے بے احتیاطی مزید بڑھتی جا رہی ہے۔ کوہاٹ سے پہلے جو آبادیاں ہیں وہاں سڑک پہ کام کرنے والے محنت کش بھی، ڈرائیورز مسافر پیدل چلنے والے سب کے سب ہر طرح کی ہدایات سے آزاد ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ سرکار خود عمل کروانے میں ابھی تک تذبذب کا شکار ہے۔ اس دوران ہمیں ایک نجی کلینک میں جانے کا اتفاق ہوا، تو وہاں سب ہدایات پہ خوب اچھی طرح عمل ہو رہا تھا، یعنی چند قدم پہلے خلاف ورزی اور جیسے ہی کلینک کی حدود میں داخل ہوں تو سختی۔

اس سے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ انتظامیہ جتنا سنجیدگی سے کوشش کر رہی ہے یہ اسی کے اثرات ہیں کہ باہر سڑک پہ اور بازاروں میں کہیں بھی نہیں لگتا کہ ہم کسی وبا سے لڑ رہے ہیں۔ بازار میں ایک سرکاری اہل کار ماسک پہنے کھڑا ہے جبکہ سب دکاندار اور گاہک سماجی فاصلے کی خلاف ورزی کر رہے تھے، بغیر ماسک کے وہ ادھر سے ادھر چل پھر رہے تھے۔ آنے والے دنوں میں اس غفلت کی ہم کیا قیمت چکائیں گے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے مگر کیا ذمہ داران اپنے آپ کو اس سب سے بری الزمہ کر پائیں گے کیونکہ ان کے پاس کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے کہ جس پہ کوئی دعویٰ ہو سکے۔

واپسی پہ جنڈ شہر جو پنجاب کی تحصیل ہے وہاں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں تھی۔ بازاروں میں عوام کی آمدورفت تمام لاپرواہیوں کے ساتھ جاری تھی۔ ایک دکاندار جس نے ایک من دودھ بیچا آدھ کلو اور کلو کی تھیلیاں بنا کر، اس دوران جتنے گاہک آئے ان میں صرف ایک نوعمر لڑکے نے ماسک کر رکھا تھا۔ میرے اس بے مقصد سروے نے شاید کسی کو کچھ فائدہ دیا ہو یا نہیں مگر مجھے یہ سمجھنے میں مزید دقت نہیں ہو رہی کہ ہم herd immunity کی طرف بڑھ چکے ہیں۔

ایسی خبریں موجود ہیں کہ کئی افراد جو متاثر ہو رہے ہیں، وہ کسی باقاعدہ ریکارڈ میں اس وقت تک نہیں آتے کہ جب تک وہ شدید بیمار ہو کر ہسپتال نہ پہنچ جائیں۔ ورنہ وہ بیماری سے جنگ اپنے طور پہ لڑتے رہتے ہیں اور کسی ہسپتال کا رخ نہیں کرتے۔ اس طرح بیماری کے پھیلاؤ کی درست سطح کا تعین کرنا ناممکن ہے۔ ہم ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ناقص اعداد و شمار کے نظام کی وجہ سے صحیح تعداد سے لا علم رہیں گے۔ انتظامیہ عمل درآمد کو صرف میڈیا کی حد تک ممکن بنا رہی ہے عملاً ایسے شواہد نہ ہونے کے برابر ہیں کہ جس سے ہمیں یہ لگے ہمارے شہریوں کی زندگی قیمتی ہے اور اسے بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ سمجھ سے بالا تر ہے کہ اتنی بڑی اور پسماندہ آبادی کو محض فلاحی تنظیموں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا گیا یا پھر انہیں خود سے فیصلہ کرنے دیا جا رہا ہے کہ وہ اس سمارٹ لاک ڈاؤن کی مدد سے آگ سے کھیلنے کی روایت کو بحال رکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments