عجیب لوگ


عصر کی نماز پڑھ کر مستقیم صاحب نے حسب عادت قریبی پارک کا رخ کیا۔ ریٹائرمنٹ کی بعد سے اس وقت کی واک ان کے معمول کا حصہ تھی۔ پارک میں داخل ہوتے ہی وہ ٹھٹک کر رک گئے، ایک عجیب اور نیا منظر ان کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ انہوں نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں، عام طور پر اس وقت وہاں چند ہی لوگ موجود ہوا کرتے تھے لیکن آج وہاں نوجوانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد موجود تھی۔ چند ایک ٹولیوں کے علاوہ زیادہ تر علیحدہ علیحدہ بیٹھے تھے۔ ۔ ۔ لیکن جس چیز نے ان کو ٹھٹک کر رک جانے پر مجبور کیا تھا وہ ان افراد کی حرکات تھیں۔

کوئی خالی خالی نظروں سے اپنے ہاتھوں کو تکے جا رہا تھا تو کسی کی نظر آسمان کی وسعتوں میں گم تھی۔ کچھ ایسے تھے جو بغیر کچھ کہے ایک دوسرے کو تکے جا رہے تھے اور کچھ ایسے بھی تھے جو خود سے باتیں کیے جا رہے تھے۔ ایک طرف موجود ٹولی نہایت اونچی آواز میں کسی بحث میں مصروف تھی۔ ۔ ۔ داخلی دروازے کے قریب ہی درخت کے نیچے رکھے بینچ پہ بیٹھے ایک لڑکے پہ ان کی نظر رک گئی۔ وہ اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھتے، انگلیاں مروڑتے اپنے آپ سے باتیں کرنے میں مصروف تھا۔ وہ اس کو ٹکٹکی باندھے دیکھتے گئے۔ ۔ ۔ آہستہ آہستہ اس کی اضطرابی کیفیت میں شدت آتی جا رہی تھی۔ اب وہ ہاتھوں کو ملتے، سر کو جھٹکتے، دور کسی نادیدہ شہ پر نظریں مرکوز کیے ہوئے تھا، اس کی بڑبڑاہٹ بھی لمحہ بہ لمحہ اونچی ہوتی جا رہی تھی۔

”ہونہہ۔ ۔ ۔ جاہل لوگ۔ ۔ ۔ سمجھتے کیا ہیں اپنے آپ کو۔ ۔ ۔ پتھر کے زمانے میں لے کے جانا چاہتے ہیں ہمیں۔ ۔ ۔ ہونہہ۔ ۔ ۔ خود تو کبھی اس زمانے سے نکلے نہیں، بڑے آئے ہماری آزادی پہ ڈاکا ڈالنے والے۔ ۔ ۔ ہونہہ“

”ارے برخوردار کیا ہوا خیریت تو ہے“ آخر ان سے نہ رہا گیا، وہ اسی لڑکے کے پاس جا پہنچے

”خیر۔ ۔ ۔ خیر کا اب یہاں کیا کام۔ اس جہالت زدہ ماحول میں خیر کی توقع بھی بے وقوفی ہے۔“ وہ اب بھی دور خلا میں نظریں جمائے ہوئے تھا

”ارے بھئی ہوا کیا ہے آخر۔“ وہ اس کے ساتھ ہی بینچ پہ بیٹھ گئے

”ہونا کیا ہے۔ ۔ ۔ دنیا کی کوئی طاقت اب ہمیں برباد ہونے سے نہیں روک سکتی۔ کیا بگاڑا تھا اس بیچاری نے کسی کا۔ ۔ ۔“ اس نے پھر سے سر کو جھٹکا

”ہیں۔ ۔ ۔ کس نے۔ کس کی بات کر رہے ہو۔“ اب معاملے کی تہہ تک جائے بغیر رہنا ان کے لیے ممکن نہیں تھا

”وہی جو ہمارے آگے بڑھنے کی ضامن تھی۔ ۔ ۔ وہی جو ہمارے خیالوں اور خوابوں میں نئی روح پھونکتی تھی۔ ۔ ۔ ہمارے ذہن کو نئی جلا بخشتی۔ پر افسوس اس ظالم اور جابر معاشرے نے اس کو بھی پابند سلاسل کر دیا۔“ جملے کے شروع میں جو ہلکی سی مسکراہٹ اس کے لبوں تک آئی تھی وہ بات کے اختتام تک غائب ہو چکی تھی اور اس کی جگہ نفرت نے لے لی تھی

”بیٹا تمہاری باتیں کچھ پلے نہیں پڑ رہیں۔ تم کہنا کیا چاہتے ہو؟ اور یہ کیا ہو رہا ہے؟“ انہوں نے آس پاس کے منظر پر نظریں دوڑاتے ہوئے کہا

”یہی تو اصل حقیقت ہے کہ اس نئی نسل کی باتیں آپ لوگ سمجھ نہیں پاتے اور ہمیں بھی اسی فرسودہ لاٹھی سی ہانکے چلے جاتے ہیں جو برسوں سے ہماری روایات میں چلتی آ رہی ہے۔“ اس کے لہجے میں حد درجہ تلخی تھی

وہ چند لمحے خاموش ہو گئے اور کچھ سوچنے لگے۔ ان کے ذہن میں صبح ہی کی دیکھی کچھ خبریں اور سوشل میڈیا پوسٹس چلنے لگیں۔ ۔ ۔ انہوں نے ایک بار پھر ارد گرد نظر دوڑائی، ان کی سمجھ میں بہت کچھ آنے لگا

”ارے بیٹا دیکھو اگر مفاد عامہ کے لیے کسی چیز پر پابندی لگ گئی ہے تو یہ تو اچھی بات ہے۔ ۔ ۔ ہے نا“ معاملے کی تہہ تک پہنچ کر اب وہ اسے سمجھانے لگے

”ارے ان کو پابندی کہ علاوہ اور آتا بھی کیا ہے۔ ۔ ۔ کبھی تعلیمی نظام بہتر کرنے پر توجہ دی، کبھی کرپشن، چوری، لوٹ مار، دھوکہ دہی، اور ان جیسی اور بے شمار دیگر برائیوں کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ ۔ ۔ نہیں نا۔ ۔ ۔ جو چیز اتنی نقصان دہ بھی نہیں اس پر پابندی لگا سکتے ہیں بس یہ۔ ۔ ۔“

پاؤں سے زمیں کھودتے اس نے برا سا منہ بنایا

”کیا کہا نقصان دہ نہیں۔ ارے یہ تو بہت سی بیماریوں کی جڑ ہے۔ ۔ ۔ کتنے ہی لوگ اس کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔“ اس کی بات سن کر وہ فوراً بولے

”اگر اس جواز کو درست مان بھی لیا جائے تو ایسے تو پوری دنیا میں کتنے لوگ روز ایکسیڈنٹ میں مر جاتے ہیں، تو کیا پوری ٹرانسپورٹ انڈسٹری کو بند کر دینا چاہیے۔ کتنے ہی لوگ آلودہ فضاء میں سانس لینے کی وجہ سے سانس کی بیماریوں کا شکار ہو کر مر جاتے ہیں تو کیا سانس لینے پر پابندی لگا دینی چاہیے۔ ۔ ۔ ایسا نہیں ہوتا، نہ ایسا کرنا چاہیے۔ اور یہ تو پھر ایک بہت بڑی انڈسٹری ہے۔ ۔ اس سے بے پناہ ریونیو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ۔ ۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں۔ ۔ ۔ نہ وہ خود کوئی نئی صنعت لگا سکتے ہیں اور نہ اس جیسی منافع بخش صنعت کو چلنے دے سکتے ہیں۔“ تیز تیز بولنے سے اس کی سانس پھولنے لگی

”لیکن یہ بھی تو دیکھو کہ ان فوائد سے کہیں زیادہ تو اس کے نقصانات ہیں۔ ۔ ۔“ انہوں نے اسے سمجھانے کی ایک اور کوشش کی

”یورپ، جہاں کی ہم ہر معاملے میں تقلید کرتے ہیں اور ان کی ترقی کو مثال بنا کر پیش کرتے ہیں۔ وہاں تو ایسی کوئی پابندی نہیں۔ ۔ ۔ اب ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ وہ علم و عقل میں ہم سے پیچھے ہوں اور ان کو نقصانات کا نہ پتہ چلا ہو۔ ۔ ۔ یہ بس ہمارے چھوٹے ذہنوں کا فتور ہے کہ ہم نے ہر چیز میں سے کیڑے نکالنے ہیں۔ فوائد اور نقصانات ہر چیز کے ہوتے ہیں، یہ ہم پر ہوتا ہے کہ ہم اس کو کیسے استعمال کرتے ہیں۔ ۔ ۔ سگریٹ کی ڈبی پر انتباہ بمع تصویر کے درج ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی سب کچھ دیکھ اور پڑھ کے بھی استعمال کرنا چاہے تو یہ اس کی مرضی ہے۔ اور ہر ایک کو اس کی زندگی اس کی اپنی مرضی سے گزارنے کی اجازت ہونی چاہیے۔“ وہ ہر سوال کا جواب پتھر سے دے رہا تھا

”ویسے جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کچھ افراد نے عدالت میں شکایت کی تھی کہ لوگوں کی صحت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی وجہ اس پر پابندی لگائی جائے، جس پر عدالت نے قانون کے مطابق متعلقہ شعبے کو ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ معاملے کی تحقیق کر کے فیصلہ کرے، جس پر متعلقہ شعبے نے تمام لوگوں سے ایک مقررہ وقت تک رائے طلب کی تاکہ اس رائے کی روشنی میں کوئی بھی فیصلہ کر سکے۔ اور کوئی بھی حتمی فیصلہ ہونے تک اس پر عارضی طور پر پابندی لگا دی۔ ۔ ۔ تو تم لوگوں کو چاہیے کہ ان کے بیان کیے گئے ذریعے سے اپنی رائے ان تک پہنچاؤ۔ ابھی تو وقت باقی ہے“

ان کی یہ بات سن کر اس نے نظریں ان کے طرف پھیریں۔ اب اس کی برداشت ختم ہو چکی تھی

”ہم خود زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے، کسی کو ہماری راہنمائی کی ضرورت نہیں۔ اب بہت مہربانی ہو گی کہ آپ میری جان چھوڑ دیں۔ جب آپ لوگوں سے ہماری باتیں ہضم ہی نہیں ہوتیں تو ایسی لایعنی بحث کا کوئی فائدہ نہیں۔“ اس نے سرد نظروں سے ان کی آنکھوں میں دیکھ کر انتہائی درشت لہجے میں کہا۔

”ارے مستقیم صاحب۔ آپ یہاں بیٹھے ہیں، میں کب سے آپ کو ڈھونڈ رہا تھا۔“

وہ جو اس لڑکے کو کوئی جواب دینے ہی والے تھے کہ وہاں رفیق صاحب آ گئے، وہ ان کے ساتھ ہی واک کیا کرتے تھے

”کچھ نہیں، میں نے تو ویسے بات کرنے اس برخوردار کہ پاس آ بیٹھا، لیکن یہ تو کچھ سننے کو تیار ہی نہیں۔“
”ارے چھوڑیں اسے، آپ آئیں میرے ساتھ۔“ رفیق صاحب ان کو زبردستی وہاں سے اٹھا کر لے گئے

”نشئی ہیں وہ۔ نشے کی لت لگی ہے انہیں۔ ۔ ۔ جب سے سگریٹ پہ حکومت کی طرف سے پابندی لگی ہے تب سے یہی حال ہے۔ آپ کیوں ان کے منہ لگتے ہیں۔“
رفیق صاحب کی بات سن کر انہوں نے پلٹ کر پارک کی سمت دیکھا۔ وہ ابھی تک اپنے پاؤں سے زمین کھودتا، ہاتھ کے ناخن کترتا، کسی خیال میں ڈوبا آسمان کی سمت دیکھے جا رہا تھا۔

محمد نعمان، اٹک
Latest posts by محمد نعمان، اٹک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments