جج کی برطرفی سے نظام عدل کی ساکھ بحال ہوگی؟


کیا احتساب عدالت کے جج کی برطرفی نظام عدل کی ساکھ بحال کر سکتی ہے؟ کسی بھی ریاست کا نظم و ضبط برقرار رکھنے میں انصاف کی بلا امتیاز فراہمی کا بہت بڑا کردار ہے۔ کیونکہ کوئی بھی ریاست مستحکم نہیں رہ سکتی جب تک وہاں نظام عدل فعال نہ ہو۔ عدل و انصاف سماج اور معاشرے کا بھی جزو لاینفک ہے۔ اسی طرح نظام عدل کی شفافیت، فعالیت اور غیر جانبداری تمام طبقات کے لئے شکوک سے بالاتر رہنا نہایت ضروری ہے۔ نظام عدل اس وقت ہی فعال ہو سکتا ہے جب تک معاشرے کے تمام افراد کا اس پر یقین یکساں قائم ہو اور اس کی غیر جانبداری کسی بھی شک و شبہے سے بالاتر ہو۔

نظام عدل کی جانبداری کی صورت طاقت کا توازن بری طرح متاثر ہو سکتا ہے اور ایسے معاشروں میں استحکام کی کوئی ضمانت نہیں رہتی۔ جن ریاستوں اور معاشروں میں نظام عدل کمزور یا غیر فعال ہو وہاں لوگ اپنے باہمی اختلافات کو زور بازو سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس کے سبب انارکی پھیلنا شروع ہوتی ہے، اور اس انارکی کا اختتام ریاستی و معاشرتی نظام کا شیرازہ بکھرنے پر ہوا کرتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے عدلیہ کا کام صرف واقعاتی اور مقبول انصاف فراہم کرنا ہی نہیں بلکہ بر وقت، نظریاتی اور عقلی پیمانے پر پورا اترنے والا انصاف فراہم کرنا عدلیہ کی اصل ذمہ داری ہے۔

نہایت معذرت سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری سیاسی تاریخ کے اکثر کیسز میں ٹرائل سے قبل ہی ایک مائنڈ سیٹ بنا دیا گیا بعدازاں عدالتوں سے فیصلے بھی اسی کے تحت سامنے آئے۔ اس کی تازہ مثال کے طور پر نواز شریف کے کیسز دیکھے جا سکتے ہیں گزشتہ عرصے میں جب بھی ان کے مقدمات کے فیصلے آئے، ان فیصلوں کی صحت پر بہت سے تحفظات تھے۔ نواز شریف کو سنائی گئی سزا کی وجہ، مقدمے کی بنیاد سے یکسر مختلف تھی۔ شاید یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ بھی تھا، جس میں سزا سنانے کے بعد جرم کے ثبوت ڈھونڈنے کا آغاز ہوا۔

سپریم کورٹ نے نا اہلی کا فیصلہ کرتے وقت ایک ٹرائل کورٹ تشکیل دینے کا حکم دیا تھا جس نے جے آئی ٹی کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی حقیقت کا پتہ لگانا تھا۔ نا اہلی کے فیصلے کے وقت تک ملنے والی تفصیل کے مطابق جو سوالات اٹھائیس جولائی کو تشنہ تھے وہ پھر بھی جوں کے توں رہے۔ مثلاً یہ معلوم ہونے کے بعد بھی کہ لندن میں موجود گمنامی فلیٹس نواز شریف کے بچوں کی ملکیت ہیں، نیب یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا، کہ اس جائیداد سے براہ راست نواز شریف کا کیا تعلق ہے۔

اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ان فلیٹس کی خریداری کے وقت میاں صاحب کے بچے کم عمر تھے، تو پھر بھی محض اس دلیل کو جواز ٹھہرانے کے علاوہ اس بات کا کیا ثبوت تھا کہ ان کی خریداری کے لیے پیسے میاں صاحب نے ہی غیر قانونی آمدن سے بھیجے۔ جبکہ شریف فیملی کا موقف ہے کہ بچے اپنے دادا کے زیر کفالت تھے، تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہیں اس خریداری کے لیے سرمایہ اپنے دادا سے ملا ہو۔ مریم نواز اور حسین نواز کی ٹرسٹ ڈیڈ کے بارے میں درج ہے کہ انہوں نے عدالت کے روبرو جھوٹے کاغذات جمع کرائے۔ یہ الزام اگر درست ہے تو بھی مذکورہ ٹرسٹ ڈیڈ بہن اور بھائی کے درمیان تھی، لہذا اس کی کوئی وضاحت نہیں ہو پائی کہ مریم نواز نے اس عمل سے اپنے والد کو کس طرح تقویت پہنچائی؟

مفروضوں پر کھڑے مقدمے اور استغاثہ کی جانب سے پیش کیے جانے والے ناکافی شواہد کے باوجود نیب عدالت نے سخت ترین سزا سنا کر میاں صاحب، ان کی بیٹی اور داماد کو زنداں بھیجنے کا حکم دے دیا تھا۔ کچھ وقت بعد لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے ضمانت منظور ہونے پر ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کیس میں ان تمام کی رہائی ہو گئی۔ تاہم چوبیس دسمبر دو ہزار اٹھارہ کو نیب عدالت کے جج ارشد ملک نے العزیزیہ ریفرنس میں سات سال قید کی سزا سنا کر ایک بار پھر جیل بھیج دیا۔

پھر ان کی ضمانت کس طرح ہوئی اور کس طرح وہ باہر گئے یہی احتساب کے عمل کی شفافیت عیاں کرنے کو کافی ہے تاہم اس کہانی کو کسی اور وقت کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ اسی دوران مریم نواز سزا سنانے والے جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو سامنے لے کر آ گئیں۔ جس میں جج صاحب اعتراف کر رہے تھے کہ نواز شریف کے خلاف کرپشن کے کوئی ثبوت نہیں ملے لیکن وہ دباؤ کے تحت نواز شریف کو سزا سنانے پر مجبور ہوئے۔ گزشتہ سال لاہور میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے ہمراہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے مریم نواز نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ ویڈیو نواز شریف کے ایک چاہنے والے نے بنائی ہے جس نے جج ارشد ملک سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ جس میں جج صاحب نے اپنے ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہو کر یہ لفظ کہے۔

جس کے بعد ارشد ملک نے ایک بیان حلفی جمع کرایا جس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ نواز شریف کے بیٹے حسین نواز سے ملے اور حسین نواز نے انہیں تعاون کے بدلے 50 کروڑ دینے خاندان کو بیرون ملک منتقل کرانے اور کاروبار کی پیشکش کی۔ جج ارشد ملک نے نواز شریف سے جاتی عمرہ میں ملاقات اور ن لیگ کے کارکن ناصر بٹ سے مسجد نبوی کے باہر ملاقات کا اعتراف بھی کیا۔ اب لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم انتظامی کمیٹی نے مذکورہ جج کو مس کنڈکٹ کی بنیاد پر برطرف کرنے کا فیصلہ سنایا ہے۔

سوال لیکن یہ ہے کہ کیا محض جج کی برطرفی کافی ہے اور اس فیصلے سے عدلیہ کی ساکھ بحال ہو سکتی ہے؟ بد قسمتی سے ہمارے ہاں ہر چند سال بعد احتساب کے نام پر ڈرامہ لگتا ہے لیکن آج تک اس کا نتیجہ نہ نکلنے کی وجہ اسی قسم کی حرکات ہیں۔ پانامہ کیس کی ابتدا سے لے کر اب تک کالم نگار نے احتساب کی حالیہ مہم کے خلاف دسیوں کالم لکھے، مقصد نواز شریف کی حمایت نہیں بلکہ اس غیر آئینی و غیر قانونی عمل کی مذمت تھی جو احتساب کے نام پر جاری ہے۔

اب ن لیگ مطالبہ کر رہی ہے کہ احتساب کے عمل اور نظام انصاف کی ساکھ کی بحالی کے لیے عدالت کے جج کی برطرفی کے بعد اخلاقی طور پر العزیزیہ کیس کی ازسر نو سماعت ہونی چاہیے لیکن میرے خیال میں یہ کافی نہیں اس کے ساتھ ساتھ مذکورہ جج نے خود پر دباؤ ڈالنے والی شخصیت کے طور پر جس سابق چیف جسٹس کا نام لیا ان کے خلاف بھی کارروائی ہونا ضروری ہے۔ دوسری طرف مخالفین کہتے ہیں اگر العزیزیہ کیس کی دوبارہ سماعت ہوئی تو فلیگ شپ انوسٹمنٹ کیس بھی دوبارہ کھلنا چاہیے اس بارے میں قانونی گنجائش کیا ہے یہ بیان کرنا ماہرین کا کام ہے۔ تاہم فہم عام یہی کہتی ہے کہ اس مطالبے کو پورا کرنے میں بھی مضائقہ نہیں بشرطیکہ ازسرنو ٹرائل مکمل ہونے تک ملزمان کا میڈیا ٹرائل بند اور پہلے والی سزائیں کالعدم قرار دے دی جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments