ویلڈن۔ ۔ ۔ گیریزن یونیورسٹی


پچھلے کئی مہینوں سے اس عالمی وبا کورونا کی وجہ سے سب کچھ ٹھپ پڑا ہے، کاروبار زندگی مفلوج ہے، طویل لاک ڈاؤن اور پھر سمارٹ لاک ڈاؤن ہونے کی وجہ سے عوام گھروں تک محدود ہیں، لمبے عرصے تک سڑکیں سنسان، پارکس ویران، گلیاں خالی دیکھنے کو ملیں۔ ملکی معیشت شدید نقصان کی زد میں اور روزگار نہ ہونے کے برابر، اس تمام منظرنامہ میں تعلیم کے شعبہ کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا، چاہے وہ معاشی نقصان ہو یا علمی نقصان، کیونکہ اداروں میں باہمی اجتماعی تعامل کی وجہ سے کیسز بڑھنے کے خطرے کے پیش نظر ان اداروں کو بند کرنا پڑا خواہ وہ سکول ہوں، مدارس ہوں، کالجز یا پھر جامعات ہوں، سب کی بندش کو وقت کی شدید ضرورت سمجھا گیا۔

مذکورہ بالا حالات کو دیکھتے ہوئے اور تعلیمی نقصان سے بچنے کی خاطر جامعات نے ورچوئل لرننگ یا آن لائن ایجوکیشن سسٹم متعارف کروانے کی طرف رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ بچپن سے ہی ہم لوگ سائنس کی ترقی اور ٹیکنالوجی کی افادیت کے بارے میں پڑھتے اور سنتے آئے ہیں مگر کبھی اس طرح سے واسطہ نہیں پڑا تھا جیسے کورونا کی وجہ سے کرنا پڑا، کیونکہ کہتے ہیں ”ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے“ ۔ آن لائن ایجوکیشن ایک طرح سے ہم سب کے لئے ایک خواب یا دیوانے کے خواب سے کم نہ تھا کیونکہ اس کے بارے میں ابھی تک صرف سنتے ہی آئے تھے۔

بروز جمعہ 13 مارچ کی شام وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے اپنے ایک ٹویٹ میں کورونا کے پھیلاؤ کے خطرے کے پیش نظر 5 اپریل تک ملک کے تمام تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا اعلان کیا۔ یہ فیصلہ اسٹوڈنٹ لائف کے ایک پہلو کے مطابق ہم سب کے لئے بلاشبہ خوشی کے موقع کے برابر تھا، مگر ایک ایسی کیفیت جس میں خوشی اور غمی دونوں کا سامنا تھا، اگلے دن صبح سے ہی گھر کی طرف کوچ کرنے کے منصوبے شروع ہوگئے کیونکہ خوف اس بات کا تھا کہ کہیں اچانک لاک ڈاؤن نہ ہو جائے جس کی وجہ سے ہاسٹلز اور ٹرانسپورٹ بند ہوئے تو کہیں کے نہیں رہیں گے۔

ہفتہ 14 مارچ کو لاہور گیریزن یونیورسٹی لاہور جہاں میں بی ایس زولوجی کا طالب علم ہوں، نے ایک نوٹیفیکشن جاری کیا جس میں 5 اپریل تک یونیورسٹی کو بند کرنے کا اعلان شامل تھا اور ساتھ ہی نوٹ میں یہ نوشت تھا کہ اساتذہ اور اسٹوڈنٹس دونوں آن لائن کلاسز کے لئے خود کو تیار رکھیں، اس نوٹ نے بھی خوشی اور پریشانی کے ملے جلے جذبات کا احساس دلایا، خوشی اس وجہ سے کہ چلو وقت ضائع نہیں ہوگا اور تعلیم کا سلسلہ جاری رہے گا، جبکہ پریشانی اس وجہ سے کہ آن لائن کلاسز کے لئے مطلوب ضروریات کہاں سے لانا ہے۔

ٹھیک 16 مارچ بروز سموار کو بلا کسی تعطل کے ہماری یونیورسٹی کے آن لائن کلاسز کا آغاز بذریعہ گوگل کلاس روم ایپ ہوا، جس کے ایک دو ہفتہ بعد زوم میٹنگ ایپ پر لائیو کلاسز کا آغاز کر دیا گیا، اس کے کچھ عرصہ بعد مووڈل کا بھی تعارف کروایا گیا، جبکہ وٹس ایپ پر بھی اپنے اساتذہ کے ساتھ رابطہ کا سلسلہ جاری تھا۔ غرض یونیورسٹی انتظامیہ نے ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کی کوشش کی۔ مووڈل ایپ کے ذریعے سالانہ اکیڈمک کیلنڈر کے عین مطابق مڈ ٹرم امتحانات ہوئے اور جون کے آخر میں الحمدللہ سیمسٹر کے فائنل امتحانات بھی 27 تاریخ کو مقررہ وقت پر آن لائن ہی تکمیل پائے۔ یہاں ایک نقطہ قابل غور ہے کہ گیریزن یونیورسٹی کی یہ کامیابی صرف ایک فرد نہیں بلکہ یونیورسٹی میں موجود ہر فرد کی اجتماعی محنت اور لگن سے ممکن ہو پائی۔

سب سے پہلے تو گیریزن یونیورسٹی کے وائس چانسلر میجر جنرل عبید بن زکریا صاحب (ہلال امتیاز ملیٹری) اور رجسٹرار برگیڈیئر محمود بشیر باجوہ صاحب واقعی داد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس مشکل وقت میں ہتھیار ڈالنے کے بجائے ڈٹ کر لڑنے کا فیصلہ کیا اور اللہ کی نصرت کی بدولت انھیں اپنے مشن میں کامیابی بھی ملی۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں لیا گیا جب مختلف یونیورسٹیاں اس حوالے سے شش و پنج کا شکار تھیں اور ابھی تک شکار ہیں۔ یہ فیصلہ ایک حوالے سے ایک بہت سخت فیصلہ بھی تھا کیونکہ سب کے لئے ورچول لرننگ کا یہ پہلا تجربہ تھا مگر سب نے مل کر اس کو کامیاب بنایا۔

اساتذہ کا درجہ کسی بھی زندہ معاشرے میں سب سے اونچا ہوتا ہے بقول حضرت علی ( رضی اللہ تعالی) ”جس نے مجھے ایک لفظ سکھایا اس نے مجھے اپنا غلام بنایا“ ۔ اساتذہ کسی بھی ادارے کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، ان حالات میں آن لائن کلاسز کو کامیابی سے مکمل کروانے کا میرے مطابق سب سے زیادہ کریڈٹ اساتذہ کو ہی جاتا ہے کیونکہ اساتذہ کو اب پہلے کی نسبت لیکچر کی تیاری میں زیادہ محنت درکار ہوتی تھی، سب سے بڑھ کر 24 / 7 ہمارے سوالات اور مسائل کے حل کے لئے خود کو دستیاب رکھنا اور ہمارے مسائل کو حل کرنا۔ میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ گیریزن یونیورسٹی کے اساتذہ کو میں نے اپنے مضامین میں کمال کے ماہر پایا ہے اور میری خوش قسمتی ہے کہ میں ایسے عظیم ٹیچرز سے تعلیم حاصل کر رہا ہوں۔ اس پر صرف یہی کہوں گا ”سلام یا معماران قوم سلام“ ۔

اسٹوڈنٹس کے بغیر تو کسی بھی تعلیمی ادارے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا، گیریزن یونیورسٹی کی ایک خاصیت ہے کہ یہاں ملک کے ہر صوبے اور تقریباً ہر زبان کے اسٹوڈنٹس پائے جاتے ہیں، اسی وجہ سے مختلف علاقوں سے تعلق ہونے کی وجہ سے طلبہ کو مختلف مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ آغاز میں اسٹوڈنٹس کی طرف سے آن لائن کلاسز کے حوالے سے مزاحمت کا سامنا بھی ہوا کیونکہ شمالی علاقہ جات، گلگت بلتستان، بلوچستان، جنوبی پنجاب، سندھ حتی کہ اندرون پنجاب رہنے والے اسٹوڈنٹس کو بھی انٹرنیٹ اور لائٹ کے ایشوز کا سامنا رہا، کیونکہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں اس حوالے سے بہت سے حل طلب مسائل موجود ہیں اور ان پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ان تمام مسائل کے باجود اسٹوڈنٹس نے اس چینج کو قبول کرتے ہوئے یونیورسٹی کی ہر کال پر لبیک کہتے ہوئے عمل بھی کیا اور تمام مشکلات کے باجود آن لائن کلاسز کی کامیابی میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا، یہاں ایک بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ مذکورہ بالا علاقوں سے تعلق رکھنے والے اسٹوڈنٹس نے انتہائی مشکل حالات اور مصائب سے گزر کر، لاک ڈاؤن کے ہوتے ہوئے تمام احتیاطی تدابیر کو اختیار کرکے پہاڑوں پر جاکر، روزانہ گھروں سے کلومیٹرز دور جاکر انٹرنیٹ کی دستیابی کی کوشش کی اور کلاسز کا انعقاد یقینی بنایا جو کہ ملک کے باقی طلباوطالبات کے لئے بھی مثال ہے۔

آن لائن ایجوکیشن میں چونکہ سارا کام ٹیکنالوجی کے ذریعے ہوتا ہے اس حوالے سے یونیورسٹی کے ٹیکنیکل اسٹاف بھی داد کے مستحق ہے کہ انہوں نے دن رات حتی کہ چھٹیوں کے ایام میں بھی مختلف سافٹ ویئرز پر کام کرکے ہر ممکن تکنیکی سہولت فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ غرض گیریزن یونیورسٹی کا ہر ایک فرد، ہر ایک شعبہ اس کامیابی میں برابر کے شریک ہے، یہی وہ وجہ ہے کہ پہلے ہی دن یونیورسٹی نے ہایئر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے دیے ہوئے معیار پر پورا اترتے ہوئے مکمل تیاری کے عزم کا اظہار کیا تھا۔

آن لائن کلاسز میں البتہ ایک تشنگی ضرور رہی کہ جن مضامین کے ساتھ پریکٹیکل ضروری ہے وہ اس طرح سے ممکن نہیں ہو سکے کیونکہ ایسے مضامین کے لئے لیب کا ہونا ضروری ہے لیب میں تجربوں کو زیرعمل لانے کے لئے مختلف اوزار اور آلات ضروری ہوتے ہیں، جیسے زولوجی کے پریکٹیکل کے لیے ہمیں لیب میں مختلف جانوروں کے جسمانی نظام کا مشاہدہ کرنا ہوتا ہے۔ یونیورسٹی نے اس حوالے سے البتہ ضرور کوشش کی کہ یوٹیوب ویڈیوز، لائیو لیکچرز اور نوٹس کے ذریعے مطلوبہ عوامل سمجھائے جائیں، مگر وہ ایک رئیل لیب والے عمل کے ذریعے فہم کچھ الگ معنی رکھتا ہے، اس کے علاوہ آن لائن سسٹم سے صحیح سے مشابہت نہ رکھنے کی وجہ سے رزلٹ کے اتار چڑھاؤ کا بھی طلبہ نے اندیشہ ظاہر کیا ہے۔

بلاشبہ ایک ایسے وقت میں کہ جب پوری دنیا تعلیم سمیت مختلف مسائل کا شکار ہے ایسے میں گیریزن یونیورسٹی واقعی داد کے مستحق ہے کہ بلا تاخیر اور بلا تعطل آن لائن کلاسز کا انعقاد کرواکر اپنا لوہا منوایا اور اس پر داد نہ دینا نا انصافی کے برابر ہیں، لہذا زبان سے ایک ہی جملہ بار بار ادا ہوتا ہے کہ ”ویلڈن۔ ۔ ۔ گیریزن یونیورسٹی ویلڈن“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments