لاک ڈاؤن اور یوتھ کے مسئلے


لاک ڈاؤن، قرنطینہ اور کو وڈ۔ 19 جیسے کئی اور الفاظ شاید ہی ہماری نسل نے کبھی سنے ہوں۔ ان تین الفاظ کے بارے میں میں نے بچوں کو ان کے بڑوں سے پوچھتے سنا اور اسی دوران ان بڑوں کے منہ پر آنے والے سوالیہ نشان جیسے ایک تاثر کو میں نے دیکھا۔ ہوا میں پھیلے ہوئے ایک سنگین ڈر کو میں نے روز اپنے جسم کو چھوتے ہوئے بھی دیکھا۔ بہت سے لوگوں کو ان الفاظ کی حقیقت سے لڑتے ہوئے موت کو چکھتے دیکھا۔ ہاں اگر اپنی پانچ حسیات میں سے ایک حس میں نے استعمال نہ کرنے کی کوشش کی تو وہ تھی سونگھنے کی کیونکہ سونگھنے کے لئے سانس لینا شرط ہے۔ اور جب ماحول میں کووڈ۔ 19 پھیلا ہو تو سانس لینا وبال جان ہے۔

ان حالات نے جہاں بہت سے لوگوں کی لمبی چھٹیوں کی حسرت کو پورا کیا وہیں ان کی اس حسرت کو مکمل طور پر ختم بھی کیا۔ جہاں سوتر منڈی کا شیخ اپنا کاروبار بند کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا، اس کو بھی گھر میں قید کر دیا۔ جو جوان پیزا برگر کھائے بغیر نہیں رہ سکتے تھے کچھ وقت کے لئے ان کو گھر کا کھانا کھانے پر مجبور کر دیا۔ اور ہاں جن کو سالانہ امتحانات سے ڈر لگتا تھا ان کو بغیر امتحانات کے پاس کر دیا۔ جہاں اس وائرس نے بہت سے طبقوں کو نشانہ بنایا وہیں اس نے ایک ایسے طبقے کو بھی ہٹ کیا جس میں مجنوں، آوارہ، شاعر، فلاسفر، پہلوان، غنڈے ہر قسم کے بشر پائے جاتے ہیں جی یہ طبقہ ہے جوان نسل کا، یوتھ کا، آپ کے اور میرے جیسے کئی انسانوں کا۔

میں نے سب سے زیادہ پریشان اس لاک ڈاؤن میں کسی کو دیکھا تو وہ ہم ہی تو تھے، ہم جوان نسل ہی تو تھے۔ میں نے اپنے بہت سے ہم عمروں کو پریشان دیکھا اس بات پر کہ وہ اب میری کبھی نہ ہو والی بھابھی سے نجانے کب تک نہیں ملیں گے۔ میں تو یہ دیکھ کر پریشان تھا کہ میں نے ان لوگوں کو ہاسٹل میں کبھی اپنی ماں سے اتنے اتنے دن دور رہنے پر پریشان ہوتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ عجب پریشانی پال بیٹھے تھے یہ لوگ۔ پھر اگر میں نے کسی کو پریشان دیکھا تو کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن کویہ پریشانی کھائے جا رہی تھی کہ وہ گھر کیسے رہیں گے اتنے دن۔۔۔؟ اور ان ہی حضرات میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن کو دوسرے محلے میں جانے کے لئے بھی ابا سے اجازت نہیں ملتی۔ پھر میں نے سوشل میڈیا پر کچھ جوانوں کو MEMES شیئر کرتے دیکھا۔ دکھنے میں یہ طبقہ مایوسی اور پریشانی سے بہت دور کا طبقہ لگا تھا۔ اتفاقا میں ایک میمر سے ملا اور میں نے اس سے ٹینشن فری رہنے کا راز پوچھ لیاتو جناب کہنے لگے ”اس ہنسی کے پیچھے کا دکھ تم کیا سمجھو“ اور میں تو منہ ہی دیکھتا رہ گیا۔ پھر میں نے کچھ جوانوں کے سٹیٹس میں لفظ انسومنیا دیکھا اور میں یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ کوئی تو ان کو سمجھائے کہ جب سارا دن سو لو گے تو رات کو کیسے نیند آئے گی۔ ۔ ۔ کوئی تو سمجھائے کہ یہ انسومنیا نہیں فارغ پن کی انتہا تھی۔

میں نے کچھ جوانوں کو پریشان اس لئے دیکھا کہ وہ روزگار جن اداروں سے کما رہے تھے وہ ادارے اتنے مستحکم نہیں تھے کہ لاک ڈاؤن میں ان کے گھر کا راشن پانی چلا سکتے۔ اور وہ نوجوان جو اپنی تھوڑی تنخواہ سے گھر کا چولہا فخر سے چلاتے تھے میں نے ان کی آنکھوں میں درد کی لہر دیکھی تھی کہ وہ خود داری کی چلمن کے پار کھڑے ہو کر کیسے کسی سے پیسے مانگ سکتے تھے۔ وہ لوگ ادھار کیسے مانگتے کہ جب لاک ڈاؤن ختم ہوتا تو آمدن تو وہ ہی رہنی تھی جو پہلے تھی جس سے مشکل سے گھر چلتا تھا۔

ادھار کیسے اترتا بعد میں۔ راشن تقسیم کیے گئے مگر میں نے کسی بھی سفید پوش آدمی کو ان قطاروں میں نہیں دیکھا۔ ان قطاروں میں تو وہی لوگ تھے جو سال سال بھر کا راشن رمضان میں ہی ذخیرہ کر لیتے ہیں۔ ان سفید پوش جوانوں کو ہم نے ڈھونڈنا تھا۔ اور پھر اس راشن کے علاوہ بھی تو ضروریات ہیں ایک جوان کی اس کو اپنی ماں کی ادویات لانی ہیں اس کو اپنی بہن کے سسرال عید بھیجنی ہے۔ گھر میں شیمپو صابن ختم ہو رہا ہے اسے وہ بھی تو خرید کر لانا ہے۔ ہاں میں اس سفید پوش جوان کو سب سے زیادہ پریشان دیکھا ہے۔

پھر جوانوں کے اس قبیلے میں، میں نے ایک طبقہ وہ بھی دیکھا جو اپنی تعلیم کا خرچہ خود اٹھاتا تھا۔ کہیں ٹیوشن پڑھا کر کہیں ہوٹلوں میں کام کر کے۔ میں نے اس طبقے کو ان کی اگلی آنے والی فیس کے لئے بھی پریشان دیکھا ہے۔ اس کو رات کے 12 بجے میں نے اس سوچ میں مبتلا دیکھا ہے کہ اگلی فیس کہاں سے آئے گی۔ یوتھ کے اس قبیلے سے تھوڑا سا آگے کھڑا ایک قبیلہ ایسا بھی تھا جس نے نوکری کے حصول کے لئے جانے کہاں کہاں درخواستیں جمع کروائی ہوئی تھیں۔ یوتھ کے اس طبقے کو میں نے معیشت کے حالات خراب ہوتے ہوئے، نوکریاں کم ہوتے ہوئے اور ذہنی ٹینشن کے مرض میں مبتلا ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ یوتھ کے ان طبقوں میں میں نے کچھ عجب جملے بھی سنے کہ

کچھ چاہیے ہوا تو بتانا، مجھے اپنا بھائی ہی سمجھنا،
پریشان نہ ہونا، ہم تمھارے ساتھ ہیں،

اور اسی طرح کے کئی جملے۔ کوئی سفید پوش آدمی ان جملوں پر مدد کے لئے ہاتھ نہیں اٹھاتا، اگر ہم مدد کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان پہلوؤں پر بھی ذرا سوچنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments