سلطانہ ڈاکو اور برصغیر کے چند مشہور ’لٹیروں‘ کی داستانِ حیات


بھوپت ڈاکو

بھوپت ڈاکو

پاکستان بننے کے بعد اس خطے میں جن دو ڈاکوﺅں نے بڑی شہرت پائی ان میں بھوپت ڈاکو تھا جس کا تعلق جوناگڑھ سے تھا۔ جوناگڑھ ایک خوشحال ریاست تھی اور اس کی یہی خوش حالی ڈاکوﺅں کو بہت راس آتی تھی۔ قیام پاکستان سے پہلے جوناگڑھ کے جن ڈاکوﺅں نے بڑی شہرت پائی ان میں ہیرا، جھینا اور بھوپت ڈاکو سرفہرست تھے۔

ان ڈاکوﺅں کے لاتعداد واقعات لوک داستانوں جیسی شہرت حاصل کرچکے ہیں۔ بھوپت ڈاکو قیام پاکستان کے بعد پاکستان آ گیا جہاں 1952 میں اسے اس کے تین ساتھیوں سمیت گرفتار کرلیا گیا۔ بھوپت ڈاکو نے بھارت میں سوراشٹر میں لوٹ مار اور قتل و غارتگری کا بازار گرم کر رکھا تھا اور اس کے خلاف دو سو سے زائد قتل اور ڈاکوں کا الزام تھا۔ بھارتی حکومت نے بھوپت کی گرفتاری پر پچاس ہزار روپے انعام دینے کا اعلان بھی کر رکھا تھا۔

دلچسپ بات یہ تھی کہ بھارت میں اتنے زیادہ جرائم میں ملوث ہونے اور اپنی گرفتاری پر اتنے بھاری انعام کے اعلان کے باوجود بھوپت ڈاکو پاکستان میں کسی فوجداری جرم میں ملوث نہیں تھا چنانچہ اسے بلاپرمٹ پاکستان میں داخل ہونے اور بغیر لائسنس ہتھیار رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔

انڈیا کی حکومت کو جب پاکستان میں بھوپت ڈاکو کی گرفتاری کی اطلاع ملی تو اس نے حکومت پاکستان سے درخواست کی کہ بھوپت کو بھارت کے حوالے کردیا جائے مگر اس وقت تک دونوں ممالک کے درمیان جرائم پیشہ افراد کے تبادلے یا بھاگے ہوئے لوگوں کو واپس کرنے سے متعلق کوئی معاہدہ طے نہیں پایا تھا اس لیے بھوپت پاکستان ہی میں رہا۔

یہ معاملہ اتنا اہم سمجھا گیا کہ انڈین وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے پاکستان کے وزیراعظم محمد علی بوگرہ سے اس سلسلے میں ذاتی طور پر درخواست کی۔ محمد علی بوگرہ نے کہا کہ ہم زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتے ہیں کہ بھوپت کو بھارتی سرحد کے پار دھکیل دیں جہاں بھارتی پولیس اسے گرفتار کرلے مگر یہ خبر پریس میں لیک ہوگئی اور پاکستان اپنے اس پیشکش سے دستبردار ہو گیا۔

بھوپت ڈاکو کو محض ایک سال کے بعد رہائی نصیب ہوگئی۔ قید کے دوران اس نے اسلام قبول کرلیا۔ اس کا اسلامی نام امین یوسف رکھا گیا۔ امین یوسف نے رہائی کے بعد ایک مسلمان خاتون حمیدہ بانو سے شادی کرلی جس سے اس کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں پیدا ہوئیں جن کے نام محمد فاروق، محمد رشید، محمد یٰسین، نجمہ، بلقیس، پروین اور بائی ماں ہے۔ امین یوسف کراچی میں دودھ کے کاروبار سے وابستہ رہا۔

اس کی دودھ کی دکان پاکستان چوک پر واقع تھی جہاں راقم کو بھی اس کے ہاتھ کی بنی ہوئی لسی پینے کا کئی مرتبہ اتفاق ہوا۔ امین یوسف حج کی سعادت سے بھی فیض یاب ہوا۔

امین یوسف نے جیل میں اپنی داستان کالو وانک نامی ساتھی کو تحریر کروائی جس کا اردو ترجمہ جعفر منصور نے کیا۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن 1957ءمیں سکھر سے اور 2017 میں کراچی سے شائع ہوا۔ امین یوسف کا انتقال 28 ستمبر 1996 کو کراچی میں ہوا اور وہ کراچی کے ایک قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔


muhammad khan daku
محمد خان ڈاکو کی جوانی کی تصویر

محمد خان ڈاکو

1960 کی دہائی میں پنجاب میں ایک اور ڈاکو نے اساطیری داستان جیسی شہرت حاصل کی جس کا نام محمد خان تھا۔

محمد خان 1927 ءمیں دھرنال کے مقام پر پیدا ہوا تھا۔ وہ بری فوج میں حوالدار تھا مگر جب اس کی برادری کے ایک تنازع میں اس کے بھائی کو قتل کردیا گیا تو اس نے اپنے بھائی کا انتقام لینے کے لئے اپنے مخالفین کا ایک آدمی قتل کردیا اور فرار ہوگیا۔

پولیس نے اسے اشتہاری ملزم قرار دے دیا۔ اس کے فرار کے دوران اس کے مخالفین نے اس کے ایک اور بھائی کو بھی قتل کردیا جس کے بعد محمد خان انتقام کی آگ میں اندھا ہوگیا اور اس نے اپنا باقاعدہ گروہ بناکر مخالفین کو ایک ایک کرکے قتل کرنا اور ڈاکے ڈالنا شروع کردیا۔ اس نے بعض قتل پولیس اور مخالفین کو پہلے سے اطلاع دے کر کئے۔

اس کا اتنا اثر و رسوخ تھا کہ علاقے کے ایس پی سے لے کر معمولی سپاہی تک کوئی اس کی اجازت کے بغیر اس کے گاﺅں میں داخل نہیں ہوسکتا تھا۔ نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان سے اس کے قریبی مراسم تھے اور جب تک وہ مغربی پاکستان کے گورنر رہے کسی کو اس پر ہاتھ ڈالنے کی جرت نہیں ہوئی۔ سنہ 1963 سے 1966 کے دوران وہ اپنی ریاست کا بے تاج بادشاہ تھا۔

سنہ 1965 کے صدارتی انتخابات میں اس نے اپنے علاقے کے تمام بی ڈی ممبران اور چیئرمین کے ووٹ صدر ایوب خان کو دلوائے تھے۔ نواب آف کالا باغ کے عہدہ گورنری کے خاتمے کے بعد وہ گرفتار ہوا۔

12 ستمبر 1968 کو محمد خان ڈھرنال کو چار بار سزائے موت اور 149 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ محمد خان ڈھرنال ہائی کورٹ میں ان سزاﺅں کے خلاف اپیل کی اور اس نے اپنا مقدمہ خود لڑا۔

muhammad khan daku
محمد خان ڈاکو

اس نے جرح سے ثابت کر دیا کہ تفتیشی افسر کو مجھ سے ذاتی عناد ہے اور اس کے سارے الزامات من گھڑت ہیں۔ وہ عدالت سے یہ کہتے ہوئے نکلا کہ میری تقدیر میں جو لکھا ہے وہ ضرور دیکھوں گا لیکن مجھے اطمینان ہے کہ عدالت نے مجھے سنا۔ ہائی کورٹ نے محمد خان کو دو سزائے موت کی سزا سے بری کردیا جبکہ دو میں سزا برقرار رکھی۔

آٹھ جنوری 1976 کو اسے تختہ دار پر لٹکانے کے احکامات جاری ہوئے مگر اس سزا سے صرف پانچ گھنٹے پہلے ہائی کورٹ نے سزائے موت عمل درآمد روکنے کا حکم جاری کر دیا۔

سنہ 1978 میں اس کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کردی گئی اور میں بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں ساٹھ سال سے زائد عمر قیدیوں کی سزا کی معافی کے اعلان کے بعد یہ طلسماتی کردار جیل سے رہا ہوگیا اور 29 ستمبر1995 کو طبعی موت پاکر دنیا سے رخصت ہوا۔ وہ اپنے آبائی گاﺅں ڈھوک مصائب، تحصیل تلہ گنگ ضلع چکوال میں دفن ہے۔

محمد خان کی زندگی میں ہی ہدایت کار کیفی نے اس کی زندگی کے واقعات پر ایک پنجابی فلم محمد خان کے نام سے بنائی جس میں مرکزی کردار سلطان راہی نے ادا کیا تاہم یہ فلم کمزور اسکرپٹ کے باعث مقبولیت حاصل نہ کرسکی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp