مندر نہیں سکول اور ہسپتال


مجھے جگہ کا نام ٹھیک سے یاد نہیں لیکن ہم ملتان شہر کی ایک نہایت غریب کچی آبادی میں تھے۔ ہم اس بستی کے بچوں کے لیے کوئی ترقیاتی منصوبہ بنانے کی کوشش میں تھے اور اسی سلسلے میں ہم لڑکیوں اور لڑکوں کے ایک گروپ سے بات چیت کر رہے تھے۔ مقصد ان کے مسائل جاننا تھا۔ اس آبادی میں کافی گھر ہندوؤں کے بھی تھے۔ ان گھروں سے بھی کچھ بچیاں اور بچے اس محفل میں موجود تھے۔ ایک بارہ سالہ بچی، جو ہندو گھر سے تھی، ہمیں اپنے سکول کا حال بتاتے ہوئے رو پڑی۔ وہ کہنے لگی کہ انڈیا کے خلاف پاکستان نے کرکٹ میچ جیتا اور ہم سب خوشی منا رہے تھے تو مسلمان بچوں نے ہمیں کہا کہ تم کیوں خوشی منا رہی ہو۔ تمھارے ہی خلاف تو ہم میچ جیتے ہیں۔

بچی نے یہ بھی بتایا کہ کچھ ٹیچرز اور بہت سے بچے اکثر انہیں کہتے ہیں کہ تم لوگوں نے تو جہنم میں جانا ہے۔ پتھروں کی جتنی زیادہ عبادت کرو گے تمہارے گناہ اتنے ہی بڑھیں گے اور جہنم میں سزا اتنی ہی زیادہ اور سخت ہو گی۔ تمہارا مذہب غلط ہے اس لیے مسلمان ہو جاؤ۔

یہ باتیں ہم سب کے لیے نئی نہیں تھیں۔ اور مجھے یقین ہے کہ یہ باتیں آپ کے لیے بھی نئی نہیں ہیں۔ یہ نہ صرف ہمارے ایمان کا ایک اہم جزو ہے بلکہ ہماری تعلیم اور تربیت کا حصہ بھی ہے۔ ہماری مذہبی اقلیتیں ہر وقت یہ تفریق برداشت کرتی ہیں۔ ہم سب یہ جانتے ہیں۔ موجودہ حکومت سمیت کسی بھی حکومت نے اس بات کی کبھی پرواہ نہیں کی کہ مذہبی اقلیتوں پر کیا بیت رہی ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان ہندوؤں کے لیے نہیں بنا تھا بلکہ ان سے دور رہنے کے لیے بنا تھا۔ تقسیم ہند کے وقت جس طرح کے دلائل اور نعرے استعمال کیے گئے تھے ان کے نتیجے میں فرقہ وارانہ تناؤ بڑھنا قدرتی بات تھی۔ اس لیے آج کی صورت حال کو ایک سے زیادہ لوگوں نے آج سے ستر سال قبل ہی دیکھ لیا تھا۔ تقریباً سارا حکمران طبقہ متعصب ہے۔

اگر کچھ لوگ تھوڑے کم متعصب ہیں تو وہ پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ میں پائے جاتے ہیں۔ لیکن وہ بھی مذہب کی بنیاد پر تفریق کے مسئلے کو سلجھانے میں، کچھ خاص وجوہات کی بنا پر ہی سہی، کوئی پائیدار کام نہیں کر سکے۔

یہ مندر تعمیر کرنے سے بھی ہندو برادری کے حالات پر کسی قسم کی کوئی بہتری نہیں ہونے والی۔ ہم اکثریت انہیں پھر بھی کوستے رہیں گے۔ وہ بلاسفیمی سمیت ہمارے مختلف امتیازی قوانین سے یونہی خوف زدہ رہیں گے۔ اگر کبھی بھی کہیں بھی کوئی افواہ نکلی تو ان کے چھوٹے موٹے مندر، گھر اور بستیاں ہمارے نشانے پر ہوں گی اور انتظامیہ نے اگر توڑ پھوڑ میں حصہ نہ بھی لیا تو پاس کھڑے ہو کر تماشا دیکھے گی۔ ہم یونہی کم عمر ہندو لڑکیوں کو مسلمان بنا کر ان سے شادیاں رچائیں گے اور ثواب کمائیں گے اور یہ سہولت صرف لڑکیوں ہی تک محدود رہے گی ہندو لڑکے مسلمان ہو کر بھی کنوارے رہیں ہمیں ان کی کوئی فکر نہیں ہو گی۔

ہندو نوجوانوں کو ہم شک کی نگاہ سے دیکھنا جاری رکھیں گے کہ وہ انڈیا کے ایجنٹ بن کر ملکی سلامتی کے لیے خطرہ ہو سکتے ہیں۔ ان سارے حالات کے باوجود اگر کبھی کوئی غیر مسلم وردی میں بھی دشمن کی گولی کا نشانہ بن گیا تو ہم اسے شہید کہنے سے گھبرائیں گے۔ یہ سب سات دہائیوں سے ہو رہا ہے اور آگے بھی جاری رہے گا۔ یہ مندر بن جانے سے ہندو برادری کے لوگوں کی زندگی میں کوئی بہتری نہیں آنے والی۔

تو پھر پچھلی حکومت نے زمین کیوں الاٹ کی تھی اور موجودہ حکومت مندر بنانے کی کوشش کیوں کر رہی ہے۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ یہ مندر کیوں بنایا جا رہا ہے۔ مذہبی اقلیتوں کے بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے ہمارا ریکارڈ بہت خراب ہے۔ یہ بات پہلے بھی ڈھکی چھپی نہیں تھی اور اب سوشل میڈیا کے دور میں تو اور بھی کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ کرتار پور راہداری کھول کر اور یہ مندر بنا کر ہم دنیا پر اپنا امپریشن بہتر کرنا چاہتے ہیں۔ اس امیج بلڈنگ کی ضرورت تو ہمیشہ سے تھی لیکن اب اس کے نتائج پہلے سے بہتر آنے کی امید بڑھ گئی ہے۔ کیونکہ مودی ایک مذہبی جنونی ہے اور انڈیا کا ضیا الحق ثابت ہو رہا ہے۔

مودی دور میں انڈین اقلیتیں خصوصاً مسلمان بہت تفریق کا شکار ہیں۔ یہ بات بھی دنیا سے چھپی نہیں ہے۔ انڈیا کا سیکولر ازم مودی کے ہاتھوں خطرے میں ہے تو ہم نے سوچا کہ ماحول اچھا ہے ہم مودی دور میں اپنا سکور تھوڑا بہتر کر سکتے ہیں۔ تو یہ مندر اس لیے بن رہا ہے۔ ہندو برادری کی فلاح اس کا مقصد ہی نہیں ہے۔

میں مندر سمیت کسی بھی عقیدے کی عبادت گاہ کو سرکاری خزانے سے بنانے کا مخالف ہوں۔ تمام عقائد کے لوگوں کو اپنے عبادت گاہیں خود بنانا چاہیے۔ اس سے تو انہیں ثواب ملتا ہے اس لیے انہیں اس ثواب سے محروم نہ کریں۔ حکومت کو چاہیے کہ کسی بھی عبادت گاہ کے لیے زمیں مفت دے نہ کوئی اور سہولت۔ ہر چیز مارکیٹ پرائس پر انہیں ملنا چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ عبادت گاہوں اور قبرستانوں کی بجائے سکولوں اور ہسپتالوں پر توجہ دے۔ اس دنیا کے انسانی حقوق ریاستوں کی ذمہ داری ہیں۔ اگلا جہان لوگوں کی اپنی ذمہ داری ہے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments