خالق اور تخلیق
انسان بھی عجب ہے اپنی محرومیوں کی داستانیں اپنے دکھوں کے لمبے چوڑے قصے دوسروں کو سنا کر ہمدردی حاصل کرتا ہے۔ جانے وہ ایسا توجہ حاصل کرنے کو کرتا ہے یا اپنے غموں کا اشتہار لگا کر بتاتا ہے کہ دیکھو میں کتنا دکھی ہوں۔ دوسروں کو اپنے دکھ سنا کر پتہ نہیں انسان کی کون سی حس کی تسکین ہوتی ہے لیکن وہ دکھ کہہ کر تھوڑا ریلیکس ہوجاتا ہے۔ عموماً ہر انسان یہی کرتا ہے اور ہر ایک کو یہی لگتا ہے پوری دنیا میں وہی اک مظلوم و محروم ہے وہی دکھی ہے، اکثر لوگ دوسروں پر دھیان ہی نہیں کرتے کہ دوسرا کتنا تکلیف میں ہے دوسرا کس قدر اذیت سہہ رہا ہے اس کو تو بس یہی لگتا ہے کہ اس کے سوا باقی دنیا کا ہر انسان بہت خوش ہے، اکثر لوگوں کو اپنے سوا دوسرے سبھی مکمل اور سکھی لگتے ہیں، دوسروں کے دکھ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں اپنے دکھ کے سامنے بہت چھوٹے لگتے ہیں۔ مجھے بھی یہی لگتا ہے جیسے ساری محرومیاں بس میری ہی جھولی ڈال دی گئی ہیں سارے زمانے میں میرا دکھ ہی بڑا ہے، باقی لوگوں کو دکھ تو ملے ہی نہیں۔
اس سے کرنے کو میرے پاس بڑے شکوے ہیں، بلاناغہ میرے پاس ہر رات شکوں کا ایک انبار ہوتا ہے، سب سے بڑا شکوہ تو یہی ہوتا ہے کہ پوری دنیا میں تجھے غم دینے کو میں ہی ملی تھی، تونے دکھ دینے کو مجھے ہی کیوں چنا، میں اس کے سامنے کتنا ہی رو لوں، گڑگڑالوں وہ ہے کہ اسے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا، ہر رات اس کے سامنے دکھ سناتے گزر جاتی ہے ہر صبح ہونٹوں پہ ہنسی سجا کر متورم آنکھوں کے ساتھ اپنے کام پہ لگنا پڑتا ہے۔ ہر روز شکستہ وجود کو سنبھالنا آسان کام نہیں ہوتا، ایسے میں اس سے شکوہ کرنے کا حق تو بنتا ہی ہے۔
مایوسی کفر ہے کہنے والا آس بھی تو پوری نہیں کرتا، خود کو داتا کہنے والا جھولی بھی تو نہیں بھرتا، اجیب دعوت الداع اذا دعان (دعا قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی ) کہنے والا عطا بھی نہیں کرتا، نحن اقرب الیہ من حبل الورید (دل کی رگ کے قریب ہوں ) بھی کہتا ہے اور سنتا بھی نہیں، ترساتا بھی ہے اور صبر کرنے کا بھی کہے جاتا ہے۔
تجھے کیا پتہ دوسروں کو صبر کا کہنا بہت آسان ہوتا ہے، یقین کرو خود صبرکرنا ایک تکلیف دہ عمل ہے، صبر کرنا اور صبر کرنے کا کہنا دو متضاد کیفیات ہیں کہ آگ کی تپش تو آگ میں جلنے والا ہی جانتا ہے آگ پہ پانی ڈالنے والا کیا جانے جلنے کی تکلیف کیا ہوتی ہے، اور تو جس نے کبھی آگ میں ہاتھ ہی نہیں ڈالا جلنے کی تکلیف کیسے جانے گا۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ تجھ کو ہمیں اپنی طاقت دکھانا مقصود تھی بس، تو انسانوں کو جتانا چاہتا تھا کہ تو قادر ہے تو قوی ہے اور ہم تیرے سامنے کچھ بھی نہیں، توجو چاہے کرے تجھے کون کچھ کہہ سکتا ہے، تو نے اپنے کن فیکون کی قوت مظاہرہ کرنا تھا، بس اسی زعم میں بنادیا تو نے ہم خاک کے پتلوں کو، اب ڈوریاں ہلائے جاتا ہے تماشا دیکھتا جاتا ہے۔ ہر چیز اپنے بس میں رکھ کر ہم پہ خود مختار ہونے کی تہمت ڈال کر بری ہونا چاہتا ہے، ارے کاہے کی خود مختاری سانس تک تو اپنے قبضہ میں رکھی ہے تو نے۔
یار بات تو ایک رکھ اپنی، یہ نہ کہہ کہ ”میرے قبضہ قدرت میں سب کچھ ہے“ ، یا پھر یہ نہ کہہ انسان کو اختیار ہے کہ وہ جس راستے پر چاہے چلے۔ انسان کو اختیار دینے کی بات کرتا ہے تو پھر سارا اختیار دے کر آزاد کر اس کو، یا پھر یہ نہ کہہ ”میں قادر ہوں میری رضا کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا“ ۔ چلو اب یہ نہ کہہ دینا کہ تیری ان ہی باتوں کی وجہ سے میں تیری نہیں سنتا، چل یار میری نہ سن مجھے رہنے دے، دفعان کر مجھے، کہ میرا تو تیرے ساتھ روز کا جھگڑا ہے۔
لیکن تو ان کی تو سن جو تیرے ساتھ جھگڑتے نہیں، منتیں کرتے ہیں ترلے ڈالتے ہیں، سسک سسک کر آہ و زاریاں کرتے ہیں لیکن تو تو ان کی بھی نہیں سنتا، کیوں؟ میں تو جھگڑتی ہوں تجھ سے، روٹھ جاتی ہوں لیکن وہ تو تیرے آگے گریہ زاری کرتے ہیں تجھے مناتے رہتے ہیں اور پھر بھی بے مراد رہتے ہیں۔ پتہ ہے ان بے مراد مایوس لوگوں کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ تجھے بڑا غرور ہے اپنے خدا ہونے کا، تو انسانوں کو تو اپنی انا اپنی ’میں‘ مارنے کو کہتا ہے کبھی خود بھی تو اپنی ’میں‘ سے باہر نکل کر دیکھ۔
اگر کبھی تم بھی اپنی انا اور تکبر کے خول سے نکل کر دیکھے نا تو شاید تجھے مکمل انسانوں کو حسرت سے دیکھتے ادھورے انسان نظر آجائیں، جو اس قابل بھی نہیں کہ میری طرح تجھ سے شکوہ کر سکیں، جن کے ذہنی صلاحیت ہی اتنی نہیں بنائی کہ وہ یہ سوچیں کہ تونے انھیں ایسا کیوں بنایا، جن کی کوئی غلطی نہیں جو بنا جرم کے سزا بھگتنے کو اس دنیا میں تو نے بھیج دیے، کبھی ان مجبور آنکھوں میں جھانک تو تجھے پتہ چلے کہ عالیشان محلوں میں رہنے والوں کو افلاس کے مارے کس حسرت سے دیکھتے ہیں جن کے پاس چھت کے نام پر صرف آسمان ہے، قسمت میں دربدر کی ٹھوکریں لکھی ہیں اور بھوک مٹانے کو لوگوں کی جھڑکیاں ہیں یا پھر گندگی کے ڈھیر سے نکل آنے والا کوئی روٹی کا ٹکرا۔
تو کبھی آسمان کی بلندیوں سے نیچے اتر کر زمین زادوں کو دیکھے تو تجھے احساس ہو کہ یخلق ما یشاء (جیسے چاہے بناتا ہے ) کے احساس میں کچھ کو اپاہج اور کچھ ذہنی معذور پیدا کر کے کیا بنا ڈالا، زندگی کے نام پر تو نے کتنوں کو موت سی اذیت دے رکھی ہے جو ہر لمحہ سسکتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں اور ہر اک پل موت کی دستک سننے کو بیتاب ہوتے ہیں لیکن موت بھی ان کے گھر کی دہلیز پار نہیں کرتی۔
اور پھر ان کا کیا قصور ہو گا جو دوسروں کی خواہش کی بھینٹ چڑھ کر دنیا میں تو آگئے لیکن اپنی خواہشوں کی ناکامی کے ساتھ زندگی گزار کر ادھورے واپس چلے جائیں گے۔ وہ جن کی آنکھوں میں مرد جیسی حاکمیت کے خواب ہیں تو دل میں عورت جیسی نزاکت کے ارمان۔ ادھورے اعضا کے ساتھ ایسے نامکمل انسان بنا دیے ہیں کہ وہ خود کو زندہ کہنے پہ شرمسار ہیں، زندوں میں نہ مردوں میں، عورتوں میں نہ مردوں میں۔ جو کبھی ادھر دھتکارے جاتے ہیں تو کبھی کہیں سے پھٹکارے جاتے ہیں۔
جو بدنصیب اتنے مفلس ہیں کہ انھیں مفلسی بھی ڈھنگ کی نصیب نہ ہو سکی۔ آخر وہ سوچتے تو ہوں گے کہ کاش وہ مفلس و قلاش ہوتے لیکن مکمل تو ہوتے۔ ادھورا بنا کے تو نے آخر ان سے کس بات کا انتقام لیا ہے تو تو خود کو عادل کہتا ہے لیکن اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا کہ تو ادھورے انسان پیدا کر دے جو ساری عمر دوسروں کی ترس بھری نظروں کا سامنا کریں، کوئی رحم کھا کر خیرات کے چند سکے ان کی جھولی میں ڈال دے تو کبھی یہ کسی کے اندر لگی جذبات کی آگ کو ٹھنڈا کر کے اپنے پیٹ کا دوزخ بھریں۔
تیری بنائی اس دنیا میں جہاں لوگ غربت میں گھرے لوگوں کو عزت نہیں دیتے تو اس دنیا میں وہ جو تیسری جنس ہے ان کو انسان کون سمجھے۔ وہ جو خواجہ سرا اور عرف عام میں کھسرے ہیں اور ان کو تو صرف کھسرا ہی سمجھا جاتا ہے شاید انسان سمجھا جانا ان کی قسمت میں لکھا ہی نہیں۔ جو کبھی کسی کاکے کی پیدائش پر بدھائی دینے جاتے ہیں تو کبھی کاکے کے ابا کے بھڑکتے جذبات کو سہارا دینے، کچھ لوگ اپنی خوشی کے موقع پر ان غم زدہ لوگوں کو نچا کر اپنی مسرت کا سامان کرتے ہیں، تو ایسے میں ان کے پیٹ کی آگ بجھانے کا انتظام بھی ہوجاتا ہے۔
کبھی سوچا ہے دوسروں کی خوشیوں میں شامل ہونے والے یہ بد نصیب کیا کبھی زندگی میں خود بھی خوش ہوئے ہوں گے، یہ جو دوسروں کی بلائیں لیتے نہیں تھکتے کیا کبھی کسی نے ان کی بلائیں بھی لی ہوں گی، کیا کبھی ان کی بھی نظر اتاری گئی ہوگی، خالق تو اپنی تخلیق سے عشق کرتا ہے تو پھر تونے زمانے کی ٹھوکروں میں رکھنے کو ایسی تخلیق کاہے کو کردی، ۔ تیرے بنائے یہ انسان ادھورے آتے ہیں اور محرومیاں سمیٹ کے چلے جاتے ہیں۔ تو تو انصاف کرنے والا ہے تو تیری منصفی کہاں ہے کہ سب کے حقوق رکھ دیے سب کے حصے رکھ دیے اور ان کا ذکر تک گوارا نہ کیا۔ ۔ آخر ان کا کیا قصور ہے کہ انھیں ادھورا بنا دیا ہے۔ خود کو احسن الخالقین کہنے والے ان کے نامکمل ہونے کی وجہ تو بتا۔
کوئی ذہنی معذور بنا دیا تو کوئی ایسا اپاہج کہ اپنے منہ پہ بیٹھی مکھیاں تک نہ اڑا سکے، کسی کو ایسا گرہن لگایا کہ ساری عمر اس کی زندگی سے سیاہ داغ نہ جا سکے، کسی کو ایسی عسرت دی کہ عسرت خود رو پڑے، ان بھوکے ننگے قحط زدہ لوگوں کو دیکھ کر تجھے کچھ نہیں ہوتا؟ تیری تقسیم اتنی غیر منصفانہ کیوں؟ کتنوں کو دولت کے ایسے خزانے دے دیے کہ دولت گنتی میں نہ آ سکے اور کچھ ایسے کہ گن گن کر گھڑیاں گزاردیں کہ وہ گھڑی کب آئے گی جب ان کے حلق سے نوالہ اترے گا۔
تو انسانوں کو مساوات کا حکم دیتا ہے اور خود تیری تقسیم اتنی غیر مساوی ہے کہ کوئی سونے چاندی کے برتنوں میں کھاتا ہے اور کسی کو روٹی کے چند نوالوں کے لیے ترساتا ہے کسی کو عالیشان محل عطا کر دیے اور کسی کو سردی گرمی سے بچنے کو چھت بھی نہ دی۔ کچھ غربت کی پستی میں ایسے ڈالے ہیں کہ تیرا ہی طے شدہ حرام (گدھ) ان پر حلال ہو جائے، تو صفائی کو نصف ایمان کہتاہے اور کچھ کے ایمان کی ایسی آزمائش لیتا ہے کہ انھیں زندگی بھر یہ آدھا ایمان نصیب ہی نہیں ہوتا کیا یہ ہے تیری مساوات۔
کبھی انسانوں کی بستی میں اپنا تخت لگا تو تجھے پتہ چلے تیرے بنائے انسان کس قدر تکلیف میں ہیں، کیا یہی ہے تیرا عدل کہ تیری عدالت نے کسی کے گناہ کی سزا میں فرد جرم کسی اور پر لگادی پر عائد کردی۔ جب ہر انسان اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے تو پھر ایک پیدا ہونے والا معصوم بچہ ایسے کون سے گناہ اپنے ساتھ لے آیا کہ ساری عمر سزا میں گزار دے۔ کیا یہ تیرے بنائے انسان نہیں۔ محض دوسروں کو عبرت دلانے کے لیے کہ ان کو دیکھ کر عبرت پکڑیں
مجھے لگتا ہے افکار علوی ٹھیک ہی کہتا ہے کہ
ہم لوگ تیری کن کا بھرم رکھنے آئے ہیں
پروردگار یار ہمار خیال کر
لیکن تو خیال کیوں کرے تو تو اپنے حاکم ہونے کے خمار میں ہے۔ تجھے تو بس خود کو رب منوانا ہے لیکن کیا خود کو منوانے کے لیے تو ان سہاروں کا محتاج ہے؟
بظاہر معصوم نظر آنے والا افکار کتنی عیاری کے ساتھ عام سے لہجے میں بڑی گہری بات کر گیا ہے
پرورگار! صرف بنا دینا کافی نہیں
تخلیق کر کے بھیج تو پھر دیکھ بھال کر
افکار ایک شعر میں جتا کر، شکوہ کر کے جلتا بنا، وہ شکوہ جسے لکھنے کے لیے مجھے ان گنت لفظوں کا سہارا لینا پڑا صفحے کالے کرنے پڑے مجھے پہروں صرف یہ سوچنا پڑا کہ اس شکوے سے پکے مومنین کے جذبات نہ مجروح ہو جائیں یا پھر کوئی دیوانہ خوشی کے شادیانے نہ بجانے لگ جائے یا پھر کوئی خود کو شاہ کا وفادار ثابت کرنے کے لیے فتوؤں کی لٹھ لے کر مجھ پر ٹوٹ نہ پڑے۔ لیکن مجھے کسی کی خوشی یا ناراضی سے واسطہ نہیں، کہ میرا یہ شکوہ تو تیرے ہی بنائے بندوں کے لیے تجھ سے ہے، اپنا کھاتہ تو کھولا ہی نہیں، کیا تو خود سے شکوے کا حق بھی نہیں دے گا۔
- بد کردار عورت - 15/04/2024
- میرا پہلا روزہ - 23/03/2024
- یقین نہیں آتا تو صبر کیسے آئے - 22/02/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).