مان لیں، ستار ایدھی ہم میں سے نہیں تھا


وہ جگہ، جہاں لوگ عمل سے دور، صرف باتوں کے عادی ہوں۔ وہ جگہ، جہاں خود نمائی، روزمرہ زندگی کا چلن ہو۔ وہ جگہ جہاں منافقت پر فخر کیا جاتا ہو۔ وہ جگہ جہاں، چیزوں ہی نہیں، رشتوں میں بھی ملاوٹ کی جاتی ہو۔ وہ جگہ ڈھٹائی سے جھوٹ بولا جاتا ہو۔ وہ جگہ جہاں دوسروں کے مسائل سے لاتعلق رہنے کا رواج ہو۔ وہ جگہ جہاں دکھاوے کی نیکی اور جتانے کے لئے کی گئی، بھلائی کا ڈھول پیٹا جاتا ہو۔ وہ جگہ جہاں والدین کی طرف سے بچوں کو ، حرص و ہوس کی تعلیم دی جاتی ہو۔ وہ جگہ جہاں دیانتداری، حماقت اور چاپلوسی، زمانہ شناسی قرار دی جاتی ہو۔ وہ جگہ جہاں انسانوں سے محبت اور مروت نہ رکھنے کے بہانے ڈھونڈنے جاتے ہوں۔

یہ کیسے یقین کر لیا جائے کہ ایک ایسا شخص بھی آیا تھا۔

وہ جگہ جہاں سارا دن، جھوٹ کو سچ ثابت کیا جاتا ہو۔ وہ جگہ جہاں دوسرے کے حق کو مارنا، بہادری سمجھا جاتا ہو۔ وہ جگہ جہاں ناپ تول میں روز ڈنڈی ماری جاتی ہو۔ وہ جگہ جہاں دھوکہ دہی کو شعار سمجھا جاتا ہو۔ وہ جگہ جہاں آنکھوں میں دھول جھونکنا، مہارت اور ہنر تصور ہوتا ہو۔ وہ جگہ جہاں جعلسازی پر داد دی جاتی ہو۔ وہ جگہ جہاں چوری، مزدوری پر افضل گردانی جاتی ہو۔

یہ کیسے یقین کر لیا جائے کہ ایک ایسا شخص بھی آیا تھا۔

ایک ایسا شخص جو خود سے لا پرواہ اور دوسروں کو آسانیاں پہنچانے کے لئے سرگرداں تھا۔ ایک ایسا شخص جو اپنی بھوک بھول کر ، دوسروں کا پیٹ بھرنے کے خواب دیکھتا تھا۔ ایک ایسا شخص جو اپنی خوشیوں کو تیاگ کر ، اوروں کے لئے مسکراہٹ ڈھونڈتا تھا۔ ایک سا شخص جو اپنا گھر سے زیادہ، دوسروں کی چھتوں کے نیچے سکھ لانے کا تمنائی تھا۔ ایک ایسا شخص جو اپنے بچوں کی بیماریاں بھول کر ، اجنبیوں کے درد کا درماں چاہتا تھا۔ ایک ایسا شخص جو اپنے لباس سے بے خبر، دوسروں کے پوشاک کا متلاشی تھا۔ ایک ایسا شخص جو اپنے حصے کی نیند بھی اوروں کے لئے وقف کر چکا تھا۔

یہ کیسے یقین کر لیا جائے کہ ایک ایسا شخص بھی آیا تھا۔

ایک ایسا شخص جو بے سہارا بچوں کے لئے امید کی کرن تھا۔ ایک ایسا شخص جو ان بچوں کے والدین سے زیادہ ان سے قریب ہو چکا تھا۔ ایک ایسا شخص جس کے ہاتھوں کا لمس، ان بچوں کے پہلی اور آخری خوشی تھی۔ ایک ایسا شخص جس نے خود کو ، بے سہاروں کے لئے، حوصلہ اور ہمت بنا دیا تھا۔

یہ کیسے یقین کر لیا جائے کہ ایک ایسا شخص بھی آیا تھا۔

ایک ایسا شخص جس نے زندگی اور موت سے نبرد آزما ستم رسیدہ وجود کے لئے وہ پناہ ڈھونڈی، جس کے لئے اس بے حس معاشرے میں کوئی سو چنے پے بھی آمادہ نہیں تھا۔ اس با عمل نے، بے اماں ذی روح کے لئے، تاریکی میں نور کا وہ تصور دیا، جو ایک حقیقی انسان دوست، کے سوا کسی کے بس میں نہ تھا۔

یہ کیسے یقین کر لیا جائے کہ ایک ایسا شخص بھی آیا تھا۔

ایک ایسا شخص جس نے اپنی نیک نیتی سے، بڑے بڑے اداروں کو شرمندہ کر دیا۔ ایک ایسا شخص جس نے اپنی مخلصانہ سوچ اور عملی کارروائیوں سے خدمت کا وہ بے مثال راستہ دکھایا، جس کے آگے، الفاظ بے معنی دکھائی دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments