یہ انتظار کا موسم


دیکھیں جی سب کچھ آپ کے وجود سے جڑا ہوا ہے، کم از کم آپ کے شعور کی حد تک، مذہب سے لے کر کے سیاست تک۔ اگر آپ ہیں ہی نہیں، یعنی آپ کا اس کرہ ارض پر کبھی وجود ہی نہیں رہا تب تو بات ہی کرنے کی ضرورت نہیں، کون سا مذہب اور کون سی سیاست سب ”بلیک ہول“ ہے اور اگر آپ اس ارض پہ وارد ہوئے اور معدوم ہو گئے تب مذہب سے متعلق کچھ عرصے تک زندہ رہنے کے لیے آپ کا کم از کم غامدی ہونا لازم ہوگا اور سیاست میں زندہ رہنے کے لیے کم از کم ذوالفقار علی بھٹو۔

غامدی ہوتے ہوئے بھی آپ چاہے اس جہان سے گزر کیوں نہ جائیں کچھ لوگوں کی نظروں میں گمراہ، فتنہ و مرتد قرار رہیں گے اور بھٹو کی حیثیت سے پھانسی پا جانے کے باوجود غدار، ملک توڑنے والا اور قاتل رہیں گے۔ مطلب یہ کہ آپ وجود پا کے لاوجود ہو جائیں اور غامدی یا بھٹو نہ ہوں جو آپ میں سے کوئی بھی نہیں ہے تو آپ کے لیے مذہب اور سیاست بے معنی ہو جائیں گے کیونکہ آپ ہیں ہی نہیں۔ رہا جہان دگر تو اس کا تعلق عقیدے سے ہے، وہاں بتانے والوں کے مطابق سیاست ہوگی ہی نہیں لیکن جان جانے والے جانتے ہیں کہ وہاں مراتب ہوں گے ، برابری، مساوات مفقود۔

خیر اس جہان کی اس جہان والا جانے اور اس جہان جانے والے قیامت کا انتظار کریں جو زمینی اعتبار سے بظاہر کوئی اربوں برس دور لگتی ہے، شاید جہاں دگر میں یہ اربوں برس ثانیوں کی حیثیت رکھتے ہوں یا اس کے برعکس قرنوں کی مگر چونکہ ہم سب اب تک الحمدللہ حیات ہیں اس لیے ہمارے لیے مذہب اور سیاست دونوں اہم ہیں۔ ان دونوں کے حق میں یا مخالف ہونا اپنا اپنا پیمانہ اور اپنے اپنے شعور کی سطح پر مبنی ہے۔

یہ طے ہے کہ اس وقت ہماری دنیا ابتلاء کا شکار ہے۔ ایک وبا نے سب کچھ یعنی معاشرت، معیشت کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے اور ان دونوں کے تلپٹ ہونے سے دنیا میں سیاست بھی متاثر ہوئی ہے، جس کے اثرات وقت گزرنے کے ساتھ عیاں اور واضح ہوں گے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مذہب اور سیاست کو نہ ماننے والوں کی طرح ایسے بہت سے لوگ ہیں جو اس وبا کو وبا ماننے سے انکاری ہیں اور کچھ تو اس کے وجود سے ہی منکر ہیں جبکہ ایک کروڑ سے زائد لوگ متاثر ہو چکے ہیں۔ یہ گنتی ان لوگوں کی ہے جن کی علامات ظاہر ہونے یا علامات والے مریض کے نزدیک ہونے کے سبب ٹیسٹ کیے گئے ہیں۔ جن کے ٹیسٹ نہیں ہوئے ان کی تعداد گننا بہت دشوار ہے۔

ان ایک کروڑ سے زائد لوگوں میں سے بھی ساڑھے پانچ لاکھ کے قریب افراد دوسرے جہاں چلے گئے ہیں اور تا حال چون ہزار سے زائد نازک حالت میں انتہائی نگہداشت میں ہیں یا وینٹی لیٹرز اور ECMO یعنی ایکسٹرا کارپوریئل ممبرین آکسیجینیشن پر جس میں ایک جانب سے جسم کا سارا خون نکلتا ہے، فلٹر ہوتا ہے اور پھر آکسیجن ملا کر دوسری جانب سے جسم میں داخل کیا جاتا ہے۔

اس وقت پاکستان میں ایسی سہولت شاید ایک مریض کو میسر ہے جو نشتر میڈیکل کالج یونیورسٹی ملتان کے وائس چانسلر ہیں، جن کا دل اور پھیپھڑے متاثر ہوئے ہیں۔ افسوسناک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسی تشویشناک صورت حالات سے دو چار ہونے سے صرف ایک ہفتے پہلے انہوں نے نجی ہسپتال کے ایک کمرے سے وڈیو جاری کی تھی جس میں کہہ رہے تھے، میں بالکل ٹھیک ہوں۔ میں آئسولیشن میں ہوں۔ یہاں دیکھیں میرے پاس کوئی آکسیجن نہیں۔ میں چائے پی رہا ہوں اور انشاءاللہ اگلے ہفتے آپ کے ساتھ ہوں گا۔

چنانچہ نظام تو سارے درہم برہم ہیں۔ مجھ جیسے بہت سے لوگ، چاہے پاکستان میں اپنے گھروں میں ہی سہی مگر وبا کے سبب پروازیں نہ ہونے کی وجہ سے بحالت مجبوری رہ رہے ہیں اور دوسرے ملکوں میں موجود اپنے اپنے کنبے سے ملنے کو مضطرب۔ اضطراب اور انتظار تبھی ہے کہ ہم تاحال موجود ہیں۔

تاحال موجود تو ملک پاکستان کے متنازعہ وزیراعظم عمران خان بھی ہیں جو اگرچہ اپنے طور پر مائنس ون کا شوشہ چھوڑ چکے ہیں لیکن درحقیقت یہ وبا جہاں پاکستان کے پانچ ہزار کنبوں میں مرنے والوں کے سوگ کے سبب قیامت صغری بپا کر چکی ہے وہاں عمران خان کے لیے نعمت ثابت ہوئی کہ حزب اختلاف کے رہنما یا نیب کے قید گھروں میں رہے یا بعد میں اجتماعی قرنطینہ کے سبب اپنے گھروں تک محدود ہو گئے۔ زیادہ سے زیادہ پریس کانفرنس کر لیتے ہیں لیکن مہنگائی اور بڑھتی ہوئی دیگر مشکلات کے نام پر اپنے حامیوں کو سڑکوں پر لانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔

اس وبا کے جلد تمام ہونے کی کوئی نشانی ظاہر نہیں ہو پا رہی اوپر سے ہمارے لوگ حفظان صحت اور وبا سے احتیاط کے اصولوں سے ناشناس اور گریزاں۔ پھر عید قربان بھی آنے والی ہے جب اکٹھ بھی ہوتے ہیں اور آلائشیں بھی بکھرتی ہیں۔ لوگوں کو چاہے غامدی جیسے عالم جتنا کیوں نہ سمجھا لیں کہ اس برس کٹھن حالات کے دور میں قربانی کی خاطر جانور خریدنے کے لیے رقوم ضرورت مندوں کو دے دیں تو اللہ شاید جانور قربان کرنے سے ملنے والی جزا سے بڑھ کر اجر دے مگر لوگ بالکل بھی کان نہیں دھریں گے ویسے ہی جیسے انہوں نے سماجی دوری قائم کیے جانے سے متعلق ڈاکٹروں اور حکومت کی ہدایات پر کان نہیں دھرے۔

عمران خان صاحب نے پہلے وبا کا پیک مئی میں بتایا تھا، پھر جون میں اور بالآخر جولائی کا آخر اور اگست کا آغاز مگر اب ان سے پہلے عالمی ادارہ صحت نے کہہ دیا کہ ابھی وبا کی معراج نہیں ہوئی کیونکہ امریکہ، برازیل اور ہندوستان میں مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ تو کہیں مجھ جیسے باہر سے آئے افراد اور ملک میں موجود حزب اختلاف کے رہنماؤں کے ساتھ عمران خان کی حکومت سے تنگ آئے لوگوں کو بھی مزید انتظار نہ کرنا پڑ جائے اور عمران خان ”مرزا یار“ کی طرح سونی گلیوں میں دندناتے پھریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments