وسیم اکرم پلس کا ان سوئنگ یارکر


شاباش بزدار صاحب شاباش۔ ۔ ۔ ہمارے بزدار صاحب نے ثابت کر دیا کہ وہ کپتان کا غلط انتخاب نہیں ہیں۔ سوئنگ شوئنگ کرنا جانتے ہیں، گلیاں اڑا سکتے ہیں۔ 35 سال کی تحقیقاتی صحافت کرنے والے تو نری جھک مارتے رہے ہیں۔ انہیں تونسہ شریف کے اس شریف النفس وزیراعلیٰ کی صلاحیتوں کا کیا پتہ؟ ان کی ذہانت، فطانت غیر مسلمہ سہی لیکن ہے تو سہی۔ پنجاب کے پسماندہ علاقہ سے کسی کا سیاست میں ماسٹر کرنا خالہ جی کے گھر کا باڑا نہیں کہ ہر ایرا غیرا نتھو خیرا پھلانگ کر اندر آ جائے۔ قانون کی ڈگری بھی جناب کی الماری میں دھری ہے۔ اچھا کیا وکالت کے بجائے سیاست کو چنا ورنہ کورٹ کچہری میں ناحق بولنا پڑتا اور ہمارے سردار وزیراعلیٰ زیادہ بولنے کے قائل نہیں وہ عمل کے قائل ہیں لیکن مسئلہ یہ بھی ہے وہ اس پر عمل بھی تو نہیں کرتے۔ ایسے میں انہیں انٹرویو کے لئے سوالات بھجوانا کتنی بری بات ہے۔ کامران خان نے ایسا کر کے نہ صرف تونسہ کے عوام کی توہین کی انہیں حقیر اور نالائق سمجھا بلکہ عمران خان صاحب نے جس نگینہ خاص کا انتخاب کیا اس پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کر دیا۔

صحافت کے خان صاحب سے غلطی یہ ہوئی کہ ایک تو وہ سیاست کے خان صاحب سے ملاقات کر بیٹھے تھے ان کی محبت میں جب بزدار جی کا فرمائشی انٹرویو کرنے کی حامی بھری تو انٹرویو کی رات انہیں کوئلہ کے دہکتے بستر پر لیٹنا پڑ گیا۔ ہوا یوں کہ انٹرویو سے چند گھنٹے پہلے پنجاب کے بڑے گھر سے فون آیا کہ کیوں نہ گھر بیٹھے بیٹھے انٹرویو دے دیا جائے جس پر معذرت کر دی گئی۔ پھر فرمائشی پروگرام شروع ہو گیا کہ خان صاحب کن موضوعات پر سوال کریں گے، سوالات کیا ہیں، سوالات بھیجیں۔ اچھا اب ان سوالوں کی ترتیب بھی بتا دیں کون سا سوال پہلے کون سا دوسرا اور کون سا تیسرا ہو گا۔ کامران خان صاحب اور ان کی ٹیم اکاموڈیٹ کرتی رہی لیکن عین جب پروگرام کی ریکارڈنگ شروع ہونا تھی بزدار صاحب چھو منتر ہو گئے۔

اس صورتحال میں صحافتی خان کی حالت اس دولہا کی سی ہو گئی جس کی دلہن عین نکاح کے وقت بھاگ جاتی ہے لیکن وہ صحافی ہی کیا جو ہار تسلیم کرے۔ خان صاحب نے پروگرام کر کے دکھایا ساتھ میں ٹویٹر پر وہ سب بھی دکھا دیا جسے تعلیمی دنیا میں پرچہ آؤٹ کرنا کہتے ہیں لیکن نقل کی دنیا میں اسے نقل کی اخلاقیات کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔

اگر بزدار صاحب کو سوالات پسند نہیں آئے تو اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پرچہ آؤٹ آف کورس ہو۔ اب یہ سوالات رکھنے کی بھلا کیا ضرورت تھی کہ آپ کی اور شہباز شریف کے طرز حکمرانی میں بنیادی فرق کیا ہے؟ عمران خان کا آپ پر اتنا زیادہ اعتماد اور اعتبار کی وجہ کیا ہے؟ وہ کون سے پراجیکٹس ہیں جس پر آپ کی حکومت کو فخر ہو؟ اچھا گر سوالات بھیج بھی دیے تو جوابات بھی بھیج دیتے باقی یہ ان کا اپنا کمال فن تھا کہ وہ اسے نواز شریف صاحب کے پرچی کے اسٹائل میں بوٹی بنا کر پڑھتے یا ارشاد بھٹی صاحب کی طرح نوٹ سے دیکھ کر دل کا غبار نکالتے۔ باقی پرامپٹر تو تھا ہی لیکن وہ صوبائی خزانہ سے اس کی ادائیگی کیوں کرتے؟ آخر کفایت شعاری بھی تو کسی چڑیا کا نام ہے۔

فرض کریں اگر بزدار صاحب دنیا کامران خان کے ساتھ پروگرام میں جلوہ گر ہو جاتے تو وہ کیا کیا جلوہ بکھیرتے۔ ایک عالم اس خاموش عالم کی گفتگو سے فیض پاتا لیکن بقول غالب

تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا

بزدار صاحب بظاہر بھولے لگتے ہیں لیکن ہم تو اسے بھولوں کی بھول سمجھتے ہیں اور ویسے بھی جو بزدار صاحب کو بھولا سمجھتے ہیں وہ اصل میں خود اس بھولی بھالی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو خلوص دل اور خلوص جان سے یہ سمجھتے ہیں کہ بچے بزرگوں کی دعا سے پیدا ہوتے ہیں۔ بزدار صاحب کو دیکھ کر کسی کو اداکار ننھا یاد آئے تو اس میں بزدار صاحب کا کیا قصور۔ البتہ ننھا کو دیکھ کر بزدار صاحب یاد نہیں آتے کیونکہ اول الذکر زمین سے چھ فٹ نیچے اور ثانی الذکر چھ فٹ اوپر ہیں۔

بزدار صاحب کے متعلق دشمن بے پر کی اڑاتے ہیں کہ وہ چلہ کاٹنے کا نتیجہ ہیں۔ ایک شخصیت نے ہمارے سیاسی خان کو مشورہ دیا کہ عین کو عام کرو۔ خان صاحب کے نام کا پہلا حرف چونکہ عین سے شروع ہوتا ہے اس لئے انہوں نے خاص و عام کے لئے خود کو وزیراعظم بنالیا۔ عارف علوی کو صدر بنا دیا، عمران اسماعیل کو گورنر سندھ اور عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ پنجاب۔ اب اس سے زیادہ ”عین عبادت“ بھلا کیا ہو سکتی ہے۔

بزدار صاحب سے جڑے کچھ رنگین قول سوشل میڈیا پر گردش کرتے رہتے ہیں، مثلاً یہ اگر پانی سے بجلی بننے لگی تو ہم پئیں گے کیا؟ یہ کہ انہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ایف سولہ کے کاک پٹ میں چنگ چی ڈرائیور کو بٹھا دیا گیا ہو۔ ہمارے ایک بزرگ دانشور نے یہاں تک کہہ دیا کہ جناب کبھی مستعفیٰ نہیں ہوں گے، ہوں گے تو صرف گرفتار ہوں گے۔ اب یہ سب کیا کرنے کی باتیں ہیں آخر وہ ہمارے آئینی وزیراعلیٰ ہیں اور آئین سے ایسا مذاق۔ ۔ ۔ چھی چھی چھی

دکھ اس بات کا بھی ہے کہ بزدار صاحب کی صلاحیتوں کو پہچانا نہیں گیا۔ اصل میں دنیا اور دنیا دار بزدار شناس نہیں ہے۔ ان کے متعلق طرح طرح کی افواہیں گردش کرتی ہیں لیکن ان کے ستارے پھر بھی گردش میں نہیں آتے حالانکہ پاکستانی افواہیں تو مشہور ہی اس وجہ سے ہیں کہ یہ عموماً سچ ثابت ہوتی ہیں اور یہ وقت دیکھنے کے لئے پی ٹی آئی میں کافی لوگ بیٹھے ہیں کہ کب بزدار جائے اور کب وہ آئیں لیکن خاطر جمع رکھیں بزدار کا کلہ مضبوط ہے اب تو وہ اہل صحافت کو بھی مات دینے لگے ہیں تحقیقاتی صحافت کے منجھے بلے بازوں کی گلیاں اڑا رہے ہیں ایسے تو انہیں خان صاحب نے وسیم اکرم پلس نہیں کہا تھا۔

شہزاد اقبال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شہزاد اقبال

شہزاد اقبا ل دشتِ صحافت کے پرانے مسافر ہیں۔ وہ صحافت اور سیاست کی گھڑیاں اٹھائے دو دہائیوں سے حالت سفر میں ہیں۔ ان دنوں 92 نیوز چینل میں ان کا پڑاؤ ہے۔

shahzad-iqbal has 38 posts and counting.See all posts by shahzad-iqbal

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments