شہر بانو اور شہر زاد!


اماں کا ڈنڈا سر پہ تھا اور بیٹی کی دہائیاں!

کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ان دو محبت کرنے والیوں کو کیسے سمجھائیں کہ ہمارے بس میں کچھ نہیں!

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سرمئی شام کا جھٹپٹا رات کی تاریکی میں ضم ہونے کو ہے، تبھی تو کہانیوں کی پٹاری سے کوئی دھیرے دھیرے سر اٹھا رہا ہے۔

وہ سب شامیں یاد آنے لگی ہیں جب ملتان کی فورٹ کالونی میں پانچ چھ سالہ ماہم گلی میں دوستوں سے کھیلنے جاتی اور گھر آتے ہی منہ بسورنے لگتی۔ وجہ جان کر ہم خوب ہنستے اور ادھر ادھر کی کہہ کے بہلا دیتے لیکن اگلے دن پھر وہی رام لیلا !

ایک ہی خواہش،ایک ہی خیال، اور ہر وقت کا سوال،

 “میں اکیلی کیوں ہوں؟ مجھے سائیکل بھی خود ہی چلانا پڑتی ہے، جب گرتی ہوں تو کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔ گھر میں گڑیا سے بھی اکیلی کھیلتی ہوں، میرے اور بہن بھائی کیوں نہیں؟”

ہمسایوں میں جب بھی کسی گھر میں کوئی ننھا فرشتہ آتا، وہ لمحہ ہمارے لئے سوہان روح بن جاتا۔ وہ گھر آکے مچل مچل کے روتی کہ اسے بھی ویسا ہی بے بی چاہیے۔ ہمارا ہسپتال میں کام کرنا ہمارے لئے طعنہ بن جاتا کہ ڈھیروں بچے ہماری وساطت سے دنیا میں تشریف لاتے ہیں آخر ان میں سے کوئی ہم گھر کیوں نہیں لے آتے؟ ہم اس دبدھا میں پڑ جاتے کہ کیسے بہلائیں ننھی پری کو؟ کیسے بتائیں کہ کبھی کبھی کوئی خواہش انتظار کی لمبی قطار میں ایستاده کر دی جاتی ہے۔

اور وہ واقعہ یاد کرکے تو ہنسی چھوٹ جاتی ہے جب ہم فوڈ پوائزننگ کی وجہ سے ہسپتال داخل ہوئے۔ شام ہوتے ہی جب وہ ہمیں دیکھنے کمرے میں داخل ہوئی، ہمیں دیکھنے کی بجائے کونے میں پڑی بے بی کاٹ کی طرف لپکی کہ اماں کے ہسپتال میں ہونے کا سبب ضرور کاٹ میں ہو گا۔ کاٹ خالی دیکھ کر اس کا منہ بسور کے پوچھنا کہ بے بی کہاں ہے، ہمیں اپنی بیماری بھولنے پہ مجبور کر گیا تھا۔

انہی بدلتی رتوں میں کرنا خدا کا کیا ہوا کہ ہم گھومتے گھامتے حیدرآباد جا پہنچے۔ ہم تو حیدر آباد کی ٹھنڈی ہواؤں، ریشم گلی، کیھنجر جھیل اور دریائے سندھ کے مزے لوٹنے کے چکر میں تھے کہ اماں کا حکم ہزار کلومیٹر دور سے یوں پہنچا جیسے کوئی پرندہ کندھے پہ اتر آئے۔ سیہون شریف حاضری کا کہا گیا تھا۔ اب اماں کے حکم سے تو مفر ممکن نہیں تھا سو حامی بھرتے ہی بنی۔ یہ علم نہیں تھا کہ نانی نواسی کا اس سارے قضیے میں کافی گٹھ جوڑ ہے۔ اماں کو جب بھی کسی کام کے سلسلے میں ہم پہ شک ہوتا، کہ ہم آنا کانی سے کام لیں گے فورًا نواسی کے کان میں پھونک دیتیں اور یوں نواسی نانی کے فرمان کی تعمیل میں کمر کس کے، ہمارے سر پہ سوار ہو جاتی۔

ہم سیہون شریف پہنچے، حاضری دی۔ ابھی دم بھی نہ لینے پائے تھے کہ دیکھا ہماری صاحبزادی ہمیں اس کونے میں کھینچے چلی جا رہی تھیں جہاں کچھ دیے روشن تھے اور کچھ آخری دموں پہ تھے۔ نانی کی ہدایات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اس نے ایک دیا اٹھایا، ہماری مدد سے جلایا اور منہ ہی منہ میں بدبدانے لگی،

“کیا کہہ رہی ہو بیٹا” ہم نے پوچھا

“منت مان رہی ہوں اماں، نانی اماں نے کہا تھا ایسا کرنے کو، پھر میرا بہن بھائی آ جائے گا”

ہم یہ سن کے ہک دک رہ گئے، نانی نواسی کی ملی بھگت کافی گہری نکلی تھی۔

نہ جانے ماہم کی آرزو شدید تھی، سیہون شریف کی زیارت رنگ لائی تھی یا کاتب تقدیر نے یوں ہی لکھ رکھا تھا کہ کچھ ہی مدت میں پرندہ آنگن میں اترنے کو پر تولنے لگا۔ آنے والے نو ماہ ایسے ہی تھے جیسے ہوا کرتے ہیں، محبت، امید، آس اور انتظار کے رنگوں سے بھرے۔ ننھے مہمان کے لئے نانی نواسی کی تیاریاں زوروں پہ تھیں۔

گیارہ جولائی کی صبح آن پہنچی۔ ہم آنکھیں موندے ماہم کے انتظار میں تھے کہ آپریشن تھیٹر سے بلاوا کسی بھی گھڑی متوقع تھا اور ہم اس سے ملے بنا جانا نہیں چاہتے تھے۔ ہمیں علم نہیں تھا کہ ماہم پہ شادئ مرگ کی سی کیفیت ہے اور وہ اس دن کو کسی بھی اہم دن کی طرح پرلطف بنانا چاہتی ہے۔ سو صبح صبح غسل کر کے نئے کپڑے پہنے گئے، ساتھ میں ہم رنگ جیولری، اب اس تیاری میں کچھ تو دیر ہونا تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہم ماں بیٹی آپریشن تھیٹر کے دروازے پہ لمحہ بھر کو گلے ملے اور جدا ہوئے، ماں کی آنکھ میں ان کہی اور انہونی کے رنگ تھے اور بیٹی کی آنکھ میں ستارے دمکتے تھے۔

کچھ ہی دیر میں ماہم کی آرزو رنگ لائی اور ننھی شہر بانو اس دنیا میں آن پہنچی۔ تھیٹر کے باہر نانی نواسی گلے مل مل کے کھلکھلاتی تھیں اور اپنے منصوبے کی کامیابی پہ ناز کرتی تھیں۔ وہیں انتظار گاہ میں دونوں نے ہم سے بالا ہی بالا “گھٹی”کی رسم بھی ادا کر لی اور تصویریں بھی کھنچ گئیں۔

اس شور و غوغا میں کسی کو پتہ ہی نہیں چلا کہ آپریشن تھیٹر میں میز پہ لیٹی ماں کی نبض ڈوبتی تھی اور سانس ٹوٹتی تھی۔ پھیپھڑے زندگی کا بوجھ اٹھانے سے انکاری تھے سو وینٹی لیٹر کا ہی آسرا تھا۔

ڈاکٹرز کی ٹیم کے لئے یہ سب اتنا غیر متوقع تھا کہ سب بوکھلائے پھرتے تھے۔ باہر ورثا کو کوئی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ جنت مکانی اماں بتاتی تھیں،

“پہر گزر گیا، سب اندر جانے والے مریض باہر آ گئے لیکن تمہاری کہیں کوئی خبر نہیں تھی۔ ہم بار بار جا کے پوچھتے لیکن کوئی خاطر خواہ جواب نہیں۔ میرا دل ڈوب ڈوب جاتا اور ماہم کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی آنکھوں کی نمی چھپاتی جاتی”۔

ماہم نے جلد ہی بھانپ لیا کہ کہیں کچھ غلط ہے اور اب وہ اپنے ابا کے سر ہوئیں کہ کسی بھی طرح اماں کا پتہ چلائیں۔ اس وقت تک صاحب بھی اپنے جلال میں آ چکے تھے سو سیدھے دروازے پہ جا کے دھاڑے کہ کچھ بتاؤ تو، زندہ ہیں یا چل بسیں؟

یہ چیخ وپکار سن کے طوہا و کروہا آپریشن تھیٹر والوں کو تھوڑا سا در وا کر کے ہمارا دیدار کروانا پڑا جہاں ہم بے شمار نلکیوں اور مشینوں میں جکڑے، دنیا و مافیہا سے بے فکر کسی اور ہی جہاں میں تھے۔

ماہم بے بی تو پا چکی تھی لیکن اب ماں کے بنا ایک پل کو چین نہیں تھا۔ وہ ہمیں دیکھنا چاہتی تھی لیکن آپریشن تھیٹر کا سٹاف بچی کو اجازت دینے سے صاف انکاری۔ وہ بھی گنوں کی پوری تھی کہ ہار ماننے کو تیار نہیں، سو کسی طرح اس دروازے کے پاس جا کے جہاں ہم یہ جنگ لڑ رہے تھے، اوندھا لیٹ کے ایک نظر دیکھ ہی لیا۔ دو آنسو گول مٹول گالوں پہ لڑھک آئے اور سوچا کیا اماں مجھے اور شہر بانو کو چھوڑ کے چلی جائیں گی؟

اب یہ سب کچھ ایک خواب معلوم ہوتا ہے، ایک ایسا خواب جس کی تعبیر میں ہم دو دن ICU کے مہمان بنے اور پھر لوٹ کے بدھو۔۔۔۔

ہر برس گیارہ جولائی کو شہر بانو کی ماں کچھ دیر کے لئے شہرزاد بنتے ہوئے یہ کہانی کہتی ہے، نہ تو سننے والے تھکتے ہیں نہ بیان کرنے والی!

شہر بانو، سالگرہ مبارک!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments