ام رباب چانڈیو کیس: ایک اور ڈیل کی تیاریاں؟


وقت کے ساتھ جہاں دنیا کی ہر چیز تغیر اور ارتقا کے سفر سے ہوتی ہوئی بدلی ہے وہیں آج کے جدید دور میں انصاف کے حصول کے طریقوں میں بھی جدت آئی ہے۔ جیسا کہ پہلے کسی دور دراز علاقے میں کسی مزارعے پر اس کا مالک ظلم کرتا یا کسی غریب کی زمین پر کوئی جاگیردار قبضہ جماتا کوئی مرد کسی عورت کو پیٹتا تو بات اس علاقے تک محدود رہتی، علاقے کی پنچایت لگتی اور معاملہ سلجھا دیا جاتا۔ یا یوں کہیے کہ معاملہ دبا دیا جاتا۔ مگر جب سے دنیا گلوبل ویلج بنی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے بعد سوشل میڈیا گھر گھر پہنچا تب سے موبائل کی اسکرین چھوٹی ہو یا بڑی بندہ پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ اس تک دنیا بھر کے کونے کونے سے ایسے معاملات تک رسائی نہایت ہی آسانی سے ہوجاتی ہے۔

سات سمندر پار یورپ کے کسی ملک کے کسی چھوٹے سے قصبے میں کوئی کسی کا قتل کرتا ہے تو دنیا بھر میں اس کے چرچے ہوتے ہیں، سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ لگا کر ٹرینڈ چلتے ہیں، پوسٹیں لگتی ہیں لوگ اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا صحیح معنوں میں لوگوں کی آواز بنتا جس نے بغیر کسی رنگ نسل حسب نسب کی تمیز کیے ہر شخص کو اپنی بات کہنے کا موقع دیا۔

سوشل میڈیا کے یہ ہیش ٹیگ کسی سیاسی پارٹی کو جتا سکتے ہیں پچھاڑ سکتے ہیں کسی مظلوم کو انصاف دلا سکتے ہیں کسی ظالم کو کیفر کردار تک پہنچا سکتے ہیں لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کچھ ہیش ٹیگ دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ان کا استعمال کرنے والے اپنے مفاد سمیٹ کر نکل جاتے ہیں اور پیچھے سوشل میڈیا پر ایموشنل فولز صارفین کسی نئے ہیش ٹیگ کے ساتھ کسی نئے شاطر ڈرامے باز مظلوم کے مفاد کو حاصل کروانے میں اس کی مدد کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ ہیش ٹیگ کے ساتھ پوسٹ لگانا چلتے ٹرینڈز کا حصہ بننا سوشل میڈیا پر کول سمجھا جاتا ہے لیکن کبھی ان ہیش ٹیگز کے پیچھے چھپے ان عناصر کے سچ کا پتہ لگانے کی زحمت کرنا گوارا نہیں کی جاتی۔

ریمنڈ ڈیوس سے لے کر شاہ رخ جتوئی تک یہ سب وہ لوگ تھے جن کے خلاف سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ چلے کہ ان قاتلوں کو ان کے انجام تک پہنچایا جائے لیکن ہوا کیا ریمنڈ ڈیوس کو پاکستانی جہاز میں بیٹھا کر بحفاظت امریکہ روانہ کر دیا گیا اور شاہ رخ جتوئی کا کیس سوشل میڈیا پر اور عدالت کے باہر لڑا گیا۔ مقتولین کے ورثا کے انصاف کے لئے اٹھے ہاتھوں کو روپوں کے بھار سے بیٹھا دیا گیا اور شاہ رخ جتوئی عدالت کے باہر وکٹری کا نشان بناتے ملک سے باہر نکل گیا۔ حال ہی میں ایکٹر عظمیٰ خان کے نام کے ساتھ چلنے والے ہیش ٹیگ کا انجام ہمارے سامنے ہے کہ کیسے فیس بک اور ٹویٹر پر لوگوں نے اس کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اٹھائی مگر ملک ریاض اینڈ ڈاٹر نے جال عظمی خان پر پھینک کر اس چڑیا کو قابو کر کے سارا معاملہ ہی ختم کروا دیا اور پیچھے وہی انصاف کے لئے بنائے ہیش ٹیگ منہ چڑھاتے رہ گئے۔

ایک ایسا ہی ہیش ٹیگ سندھ سے تعلق رکھنے والی لڑکی ام رباب کی حمایت میں ہے جس کے خاندان کے تین مرد خاندانی دشمنی میں قتل کر دیے گئے جس کے بعد ام رباب نے ان کے انصاف کے لئے سوشل میڈیا کا سہارا لیا اور وہی ہوا وہاں بیٹھے ایموشنل فولز نے بغیر اس کیس کی حقیقت جانے ام رباب کے یک طرفہ موقف کی حمایت کر دی۔ ام رباب نے الزام لگایا کہ یہ قتل چانڈیو قبیلے کے سردار خان چانڈیو  نے کروائے جو کہ چانڈیو قبیلے کے سردار اور پیپلز پارٹی کی طرف سے رکن اسمبلی بھی ہیں۔

اب اس بات میں سچائی کیا ہے کوئی جاننا نہیں چاہتا ہر کوئی اس ہیش ٹیگ کے زیر اثر ام رباب کی حمایت میں ہے چونکہ وہ عورت ہے اور اس کے آنسو کسی بھی حقیقت سے کہیں زیادہ سچے ہیں کیونکہ وہ عورت ہے تو یقیناً اس کے ساتھ ظلم ہوا ہوگا۔ اس کے ننگے پیر کسی بھی ٹھوس ثبوت سے کم نہیں یہ سوشل میڈیا پر بیٹھے ویلے لوگ جنہیں بس کچھ پوسٹ کرنا ہوتا ہے جنہیں اپنے لائکس اور کمنٹس بڑھانے ہوتے ہیں یہ ہر ہیش ٹیگ میں کودتے ہیں بغیر معاملے کی نوعیت جانے۔

سوشل میڈیا مظلوم کو حق دلانے کا ایک بڑا ذریعہ بن کر ابھرا ہے لیکن سوشل میڈیا کا یہ پہلو نہایت ہی زہریلا ہے کہ کوئی بھی شخص کسی دوسرے شخص کے خلاف پروپیگنڈا کر کے چند پیجز اور درجن پوسٹ اس کے خلاف کرتا ہے اور سوشل میڈیا صارفین کی ایک بڑی تعداد کو اپنے جھوٹے موقف پر راضی کر سکتا ہے اور پھر اس پروپیگنڈا کی ایک چین چلتی ہے لوگ جڑتے ہیں اور حقائق پس پشت ڈال کے ایک شخص کے جھوٹے اور فیک ہیش ٹیگ کا حصہ بن جاتے ہیں۔

ابھی حال ہی میں پشاور سے سوشل میڈیا پر ایسی ہی ایک فیک خبر چلی تھی جو سوشل میڈیا ٹرینڈ بن گئی۔ بی بی سی کے مطابق ”سوشل میڈیا اور واٹس ایپ سمیت دیگر پلیٹ فارمز پر گردش کرنے والی پوسٹ میں اس بچی اور دو نوجوانوں کی تصاویر شیئر کی گئیں اور الزام لگایا گیا کہ ان دو فراد نے اس بچی کا ریپ کر کے اسے قتل کر دیا۔ پوسٹ میں کہا گیا کہ ’یہ ظلم کی انتہا ہے‘ اور ساتھ ہی ان نوجوانوں کی گرفتاری کے لیے تعاون کی اپیل کی گئی۔ پوسٹ کے ساتھ ایک موبائل نمبر بھی دیا گیا ہے۔ تاہم مچنی تھانے کی تفتیشی افسر امداد خان نے بی بی سی کو بتایا کہ بچی بالکل صحیح سلامت ہے اور بدھ کی رات تھانے بھی آئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے خاندان کی شکایت پر ٹیلی گراف ایکٹ اور چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔ بچی کے والد نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں اس مہم کے حوالے سے اطلاع بدھ کی شام کو ملی جب انھیں کسی نے فون کر کے بتایا کہ سوشل میڈیا پر اس طرح خبر چل رہی ہے۔ جب انھوں نے گھر فون کیا تو معلوم ہوا کے سب ٹھیک ہے اور ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ ان کے مطابق جن لڑکوں کی تصویریں ملزم کہہ کر شیئر کی جا رہی ہیں ان میں سے ایک رشتے میں ان کا بھانجا ہے۔ خاندان سے بات چیت کے دوران بچے کو روتے ہوئے سنا جا سکتا تھا اور وہ یہ کہہ رہا تھا کہ اسے نہیں معلوم اس کے اکاؤنٹ سے تصاویر لے کر یہ پوسٹ کس نے شیئر کی۔ خاندان کے مطابق اس پورے واقعے سے ان کو سخت ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔“

مختلف مفادات کے حصول کے لیے بنائی جانے والی ان سوشل میڈیا مہمات کا ایک خاص رنگ ہوتا ہے۔ پہلے معاملے کو سوشل میڈیا تک لانا، منظم کمپین وجود میں آنا اور زیادہ سے زیادہ ہمدردیاں اکٹھی کرنا اور پھر ان ہمدردیوں کا فائدہ اٹھانا۔ جتنی زیادہ ہمدردیاں ہوں گی زیادہ فائدہ ہو گا۔ میرا تاثر یہ ہے کہ ام رباب کا کیس بھی ٹھیک اسی فارمولے پر چل رہا ہے۔ کیس لمبا کھنچ رہا ہے درجنوں کے حساب سے ام رباب کی حمایت میں پیجز بن رہے ٹاک شوز میں ام رباب کو بلایا جاتا تو کبھی عدالت میں پیشی کے بعد ام رباب کی پریس کانفرنسیں جس میں ہر بار ام رباب کا نیا اور انوکھا انداز۔ ان سب سے اس کیس کی ہائپ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

سوشل اور روایتی میڈیا پر چلائی جانے والی پراپیگنڈا مہم سے عدالتی فیصلے پر اثر انداز ہونے کی کوشش ایک غلط رجحان ہے۔ اب یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ ایسے دیگر کیسوں کی طرح روایتی انداز میں ایک ڈیل کی کوشش کی جانے لگی ہے لیکن سردار خان چانڈیو کی طرف سے ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا ہے۔

کیا پھر سے ایک بار ڈیل کر کے معصوم لوگوں کی جذباتیت سے بھاو بڑھایا جائے گا؟ خصوصاً اب جبکہ سپریم کورٹ سے ام رباب کی درخواست کے خلاف فیصلہ آ چکا ہے اور کیس اینٹی ٹیررازم کورٹس کی بجائے واپس سیشن کورٹ دادو جا چکا ہے۔ ام رباب کے ساتھ موجود طاقتوں کو بھی علم ہے کہ کیس میں زیادہ جان نہیں۔ لہذا وہ بھی اب متوقع ڈیل کی طرف ہی دیکھ رہے ہوں گے۔ دوسری طرف سردار چانڈیو برادرز کی جانب سے مکمل خاموشی ہے۔ کیا یہ خاموشی کسی طوفاں کا پیش خیمہ ہے؟ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments