مبارک۔ لکی اور شبھ کے گورکھ دھندے میں الجھے پاکستان ہندوستان کے یوم آزادی


ہندوستان اور پاکستان دونوں کی آزادی کے اعلان۔ چودہ اگست سینتالیس ایک کا چودہ دوسرے کا پندرہ یا دونوں کا پندرہ اگست کو ہوا۔ ۔ ۔ مبارک دن۔ لکی ڈے۔ اور شبھ گھڑی کا گورکھ دھندا۔ جو کبھی آپ کے نظروں سے نہ گزرا ہو گا۔

تیرہ اور چودہ اگست انیس سو سینتالیس کی درمیانی شب۔ لاہور ریڈیو سٹیشن سے آخری مرتبہ۔ ”یہ آل انڈیا ریڈیو کا لاہور سٹیشن ہے“ کا اعلان نشر ہو تاہے۔ مصطفے علی ہمدانی سٹوڈیو نمبر پانچ میں ڈیوٹی سنبھالتا ہے۔ کلاک پر بارہ بجنے سے چند لمحے قبل ”آن ائر“ کو روشن ہوتا دیکھتا ہے۔ بار بجنے کے فوراً بعد اس کی جوش اور جذبات بھری آواز گونجتی ہے۔ ”السلام علیکم۔ یہ پاکستان براڈکاسٹنگ سروس ہے۔ طلوع صبح آزادی“

اور کل تہتر سال بعد ایک عزیز کا سوشل میڈیا پیغام مجھے بتاتا ہے۔ کہ پاکستان تو پندرہ اگست انیس سو سینتالیس کو معرض وجود میں آیا تھا اور اس کا پہلا یوم آزادی بھی پندرہ اگست اڑتالیس کو سرکاری طور پر منایا گیا تھا مگر محض چودہ اگست کو ستائیسویں رمضان المبارک اور لیلۂ القدر کے مبارک دن کی نسبت دینے بعد میں یہ تاریخ بنا دی گئی اور ساتھ ہی نو جولائی اڑتالیس کو جاری شدہ۔ پاکستان پندرہ اگست انیس سو سینتالیس لکھی۔ ٹکٹوں کے فوٹو بطور ثبوت لگے تھے۔

بتایا کہ بھائی میں تو چھ سالہ بچے کی حیثیت سے اس دن اس وقت پاکستانی اور چند دن بعد ہندوستان کے حوالہ کر دی جانے والی مٹی پہ کھڑا پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے والوں میں شامل تھا میں کیسے بھول سکتا ہوں۔

پھر میں سرسری نظر انٹرنیٹ میں جھانکتا کچھ دیر انگلیاں چلاتا ہوں اور میری ہنسی نکلنا شروع ہو جاتی ہے۔ ۔ ۔ اچانک ذہن میں نصرت فتح علی کی قوالی کا مکھڑا۔ ”تم ایک گورکھ دھندا ہو“ ( صرف اس ایک مصرعہ کا تعلق ہے۔ اس کے سیاق و سباق سے الگ کرتے ) ۔ ہنسی بڑھاتا جاتا ہے۔ ۔ ۔ ذرا غور سے۔

پاکستان اور ہندوستان دونوں کی آزادی کا اعلان چودہ اگست کو ہوا تھا۔ چونک گئے۔ مگر یہ حقیقت ہے
پاکستان ہندوستان دونوں کا قیام برطانوی حکومت کی منظوری کی قانونی دستاویز کے مطابق پندرہ اگست کو ہوا تھا۔ ۔ ۔ بالکل سچ ہے
قیام پاکستان کا کا اعلان تیرہ چودہ اگست کی درمیانی شب رات بارہ بجنے کے ساتھ اور ہندوستان کا چودہ پندرہ کی درمیانی شب اسی وقت۔ ۔ ۔ جی یہ بالکل درست۔

پاکستان کا پہلا یوم آزادی پندرہ اگست اڑتالیس۔ ۔ ۔ گزشتہ کل نو جولائی کو عین بہتر سال قبل شائع ہوئے یادگاری ٹکٹ۔ اصلی ہیں۔ ۔ ۔
یہ سارا گورکھ دھندا مبارک دن۔ لکی ڈے۔ اور شبھ گھڑی کا کیا ہوا ہے۔ ۔ ۔
آسان الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔

1۔ برطانوی حکومت برٹش انڈیا کو آزاد کرنے کی اپنی منظور شدہ دستاویز میں۔ اس وقت کے وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی تجویز کردہ تاریخ پندرہ اگست رکھتی ہے۔

2۔ وائسرائے یہ تاریخ اس لئے تجویز کرتا ہے کہ وہ اس کو اپنا۔ لکی ڈے۔ جانتا ہے۔ دوسال قبل اسی تاریخ کو جنگ عظیم دوم میں جاپانی فوج نے اس کے آگے ہتھیار ڈالے تھے۔ اور ساتھ ہی برطانوی تجویز کے مطابق اسی دن اسے دونوں نوزائیدہ ملکوں کے عبوری گورنر جنرل کا عہدہ بھی سنبھالنا ہے۔ اس کا یہ بہت اہم دن ہے۔ کہ اس طرح وہ ایک ہی دن ایک جگہ انتقال اقتدار کی کارروائی بھی کر سکتا ہے اور دونوں ملکوں کا سربراہ بھی بن جاتا ہے۔

3۔ کانگریس اور اس کی مجوزہ حکومت اسے قبول کر لیتی ہے۔ مگر مسلم لیگ اور قائد اعظم کی بصیرت نہ صرف اسے بطور گورنر جنرل قبول کرنے سے انکار کرتی ہے بلکہ انتقال اقتدار کی کارروائی بھی پاکستانی سرزمین پر کراچی میں منعقد کرانے کا فیصلہ کرتی ہے 4۔ ادھر ہندوستان کے نجومی جوتشی۔ زائچہ کنڈلی بنانے والے پندرہ اگست کو نئی حکومت کے لئے منحوس اور نقصان دہ قرار دیتے اسے قبول کرنے انکاری ہیں۔ ( ویسے وہ سیکیولر ملک ہونے کا دعویدار تھا ) دیکھیں ڈیڈ لاک کیسے حل ہوتا ہے۔ ماؤنٹ بیٹن پندرہ پہ بضد ہے۔ ۔ ۔ جوتش کے لئے یہ شبھ گھڑی نہیں۔ ۔ ۔ یہاں ”جلو جل جلال۔ کھوتا کناں تائیں حلال“ کا محاورہ کام آتا ہے۔

جوتشی بتاتے ہیں کہ انگریزی کیلنڈر میں نئے دن کا آغاز نصف شب کے بارہ بجنے کے بعد ہوتا ہے۔ ۔ ۔ جبکہ ہندی قدیم کیلنڈر دن کا آغاز طلوع آفتاب سے کرتا ہے۔ ۔ ۔ لہذا جس وقت انگریزی کیلنڈر کا پندرہ اگست شروع ہو چکا ہوگا اس وقت قدیم ہندی کیلنڈرکے مطابق ابھی پچھلے دن، یعنی چودہ اگست کے چند گھنٹے باقی ہوں گے۔ لہذا تقریب چودہ پندرہ کی درمیانی شب بارہ بجے کے فوراً بعد کر لی جائے تو شبھ گھڑی ہی شمار ہوگی۔ ۔ ۔ چنانچہ یہی وقت طے ہوا۔ ۔ ۔ انگریزوں کا پندرہ اگست۔ ہندوؤں کا ابھی چودہ اگست۔ ۔ ۔ آئی نہ مسکراہٹ چہرے پہ۔ ۔ ۔

5۔ آگے چلئے۔ چونکہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن انڈیا میں انتقال اقتدار کے بعد گورنر جنرل آزاد ہندوستان بن جاتا ہے۔ لہذا وہ تاج برطانیہ کا نمائندہ نہیں رہتا نہ ہی وائسرائے۔ (آزادی کے بعد انڈیا اور پاکستان دونوں کی حیثیت ڈومینین کی تھی، اور دونوں ممالک کے گورنر جنرل برطانیہ کے بادشاہ کے نمائندے تھے، ڈومینین کی یہ حیثیت دونوں ممالک میں دستور کی منظوری کے بعد تبدیل ہوئی۔ مضمون کے آخری میں قائداعظم کے حلف کی عبارت دی گئی ہے جو انہوں نے بطور گورنر جنرل اٹھایا: مدیر)۔ تو پاکستانی حکومت کو انتقال اقتدار نہیں کر سکتا۔ نہ قائد اعظم یا پاکستانی حکومت ہندوستانی گورنر جنرل کے دستخطوں سے اقتدار سنبھال سکتے ہیں۔ نہ ہی اس صورت حال میں وائسرائے پہلے کراچی میں پاکستان بننے کی کارروائی مکمل کر کے ہندوستان کے مقررہ وقت کے مطابق دہلی پہنچ سکتے ہیں۔ ۔ ۔ نواں پواڑہ پے گیا نا۔ ۔ ۔ سمجھ آ گئی نا لکی ڈے اور شبھ دن کی کارروائی۔ ۔ ۔ اب تاریخ بھی پندرہ اگست ہے۔ اور پاکستان کو انتقال اقتدار بھی بطور وائسرائے برطانوی ہند لازم۔ لہذا پاکستان کی کارروائی پہلے کرنے کی منظوری دی گئی اور اس کے لئے چودہ اگست منتخب کیا گیا۔ کہ اس دن قائد اعظم سے حلف۔ وائسرائے کا خطاب اور کاغذات کی تکمیل کے بعد وائسرائے برطانوی ہند رات بارہ سے قبل واپس دہلی پہنچ۔ وہاں انتقال اقتدار اور خود گورنر جنرل بنے کی کارروائی مکمل کر پائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو ہو گیا نا ہندوستان کا بھی اعلان آزادی۔ ہندوؤں کے چودہ اگست کو ہی۔ ۔ ۔ پندرہ اگست کو قائد اعظم نے چیف جسٹس کے سامنے حلف اٹھا کر تاج برطانیہ کی پندرہ اگست کی شرط بھی پوری کر دکھائی۔ ۔ ۔ واللہ اعلم بالصواب

6۔ اب آئیے پاک دن۔ لیلۂ القدر۔ ستائیسویں رمضان کی شب۔ تو صاف ظاہر یہ سارے انتظام رمضان کا چاند دیکھ تو نہیں ہوئے۔ بلکہ جون کے اواخر تک ہی ہو گئے ہوں گے۔ اور اس زمانے میں ملکی سطح پر چاند دیکھنے کا انتظام بھی نہ تھا۔ ریڈیو بھی ملک میں واجب ہی تعداد میں تھے۔ دوسرے شہر تک تو چاند نکلنے یا عید ہونے کی اطلاع ایک دو تین دن بعد پہنچتی۔ لہذا یہ بھی ممکن ہے کہ اگر لاہور میں چودہ اگست ستائیسویں رمضان ہو تو کسی اور شہر یا صوبہ یا مدرسہ کے مطابق یا مشرقی پاکستان میں چھبیسویں یا اٹھائیسویں بھی ہو۔ ۔ ۔ گویا جتنا امکان چودہ کو ستائیسویں رمضان کا ہے اتنا پندرہ کا بھی نکل آنے کا ہے۔ ۔ ۔ فارمولا تو جوتشی والا موجود ہے نا۔

نوٹ۔ یہ تنازعہ تاریخ والا غالباً سب سے پہلے۔ کے کے عزیز نے ”مرڈر آف ہسٹری“ میں اٹھایا اور دو ہزار سولہ میں ایک اور اخباری ادارے نے ہوا دی۔ اور اب شاید پھر ملک میں انتشار پسند قوتیں زور آزما ہیں۔ ۔ ۔ اڑتالیس کے بعد قیام پاکستان کے اعلان والے دن کو یوم آزادی قرار دیا گیا۔ کہ یہ انتظام تمام فریقوں کی باہمی رضامندی سے قرار پایا تھا۔

تو دیکھئے ہندوستان پاکستان دونوں کا اعلان آزادی چودہ اگست کو ہی ہوا۔
پندرہ اگست کی کارروائی بھی پوری ہوئی۔ ۔ ۔
چودہ اور پندرہ اگست والے نسخے بھی قائم
تو چلئے گاتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اک گورکھ دھندا ہے۔ ۔ ۔ یا۔ رل تاں گئے آں پر چس بڑی آئی اے۔ ۔ ۔

اب کھلی چھٹی دے دیں، جس کو جو دن بھائے اس دن منائے۔ ۔ ۔ ہم تو یہ کہہ سکیں گے۔ ۔ ۔ جو کہے بڈھی سو سچ ہے
مگر ہے بس مبارک دن۔ لکی ڈے۔ اور شبھ گھڑی۔ ۔ ۔ کا گورکھ دھندا۔

Oath of Quad-e-Azam as Governor General of Pakistan

Quaid-e-Azam took the oath of office of Governor-General of Pakistan on August 15, 1947, which was administered by Sir Abdul Rashid, Chief Justice of the Lahore High Court. It reads as follows: “I do solemnly affirm true faith and allegiance to the Constitution of Pakistan as by law established and I will be faithful to His Majesty (or her Majesty) his heirs and successors in the Office of the Governor-General of Pakistan.”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments