ایک گھریلو سا خراج عقیدت اور ایک گھریلو سی نصیحت


لائلپور سے ایک بزرگ ریٹائرڈ سکول ٹیچر حلیمہ صاحبہ کی ای میل آئی کہ ”آپ سماجی اور خاندانی رویوں پر زیادہ بات کیا کریں کہ آپ جیسی، انسان پرست اور وسیع سوچ کی ہمارے معاشرے کو ضرورت ہے، اور معاشرے کی بنیاد تب ہی اچھی پڑے گی جب اچھے خاندان بنیں گے۔ ۔ ۔“

میں کچھ اور لکھ رہی تھی، ان کا حکم سر آنکھوں پر رکھا (ایک ان کی بزرگی، دوسرا میری جنم بھومی کا حوالہ اور ”کچھ اور“ کے ساتھ وہ سب بھی لکھنے کی کوشش کی جن کی ان خاتون نے فرمائش کی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پہلے ”کچھ اور“ پڑھ لیں!

آپ کی ہر غلطی کو، ہر بدتمیزی کو معاف کر دے اور آپ سے بے لوث محبت کرے، اتنی کرے کہ آپ پریشان ہو جائیں اور پھر حیران بھی ہوں کہ وہ بدلے میں آپ سے اتنی محبت مانگتا بھی نہیں اور بس آپ سے مستقل مزاجی سے ایک جیسا پیار کیے جاتا ہو، جس کی محبت میں کوئی مقابلے بازی نہ ہو، کوئی طعنہ نہ ہو، کوئی ناپ تول نہ ہو، نہ کوئی امید بندھی ہو۔ ایسی بے غرض محبت کی بات ہو تو لوگوں کے ذہن میں ماں یا باپ کا تصور آتا ہے، وہ تو ہوتے ہی ایسے ہیں مگر میری خوش قسمتی کا ڈبل دھمال ہے کہ مجھے ہم سفر بھی ایسا ملا۔ شادی کی سالگرہ کا روایتی تحفہ تو سب ہی دیتے ہیں ایک لکھاری کو تو کچھ لکھ کر ہی پیش کرنا چاہیے اسی لئے یہ چند لائنیں جو ہماری زندگیوں اور محبتوں کا احاطہ تو نہیں کر سکتیں مگر پھر بھی کچھ نہ کہنے سے کچھ کہہ دینا ہی بہتر ہے کہ وقت گزر جانے پر انسان پچھتاتا ہے کہ کاش میں نے جو کہنا تھا کہہ دیا ہو تا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خیر۔ ۔ ۔ بات ہو رہی تھی زندگی کی نعمتوں کی۔ ۔ ۔

میں جب نعمتوں پرشکریہ کہنے کو اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہو تی ہوں تو ایک بہت بڑا احساس تشکر یہ ہوتا ہے کہ اللہ نے مجھے ایسا ہم سفر دیا جس کا ظرف اعلی، اور دل میری محبت سے سرشارہے، جس نے مجھے بدلنے کی کوشش نہیں کی، جس نے مجھے ہنستا دیکھ کر مجھ سے شادی کا فیصلہ کیا تھا تو کبھی ”ارادی“ طور پر مجھ سے یہ ہنسی چھیننے کی کوشش نہیں کی، اپنی زبان سے کبھی دکھ نہیں دیا، ہاں یہ ضرور ہے کہ ہر انسان اپنی زندگی کے دکھ اور خوشیاں لکھوا کر آتا ہے۔ حالات کی وجہ سے جو ستم ہم پر ٹوٹے وہ کسی اور انسان کی کہانی سے نرالی کہانی نہیں ہے۔ ہر انسان کے پاس ایک کہانی ہو تی ہے جس میں اس کے حصے کی تمام مشکلات، غم اور آلائشیں شامل ہو تی ہیں۔ انہیں بھی کاٹنا تب ہی ممکن ہو تا ہے جب آپ کے جیون ساتھی کا سلوک آپ سے مہربانی اور انڈرسٹینڈنگ کا ہو۔

شادی کی سالگرہ پر، چونکہ، مجھے ایسی روایتیں، جو دوسروں کو الجھن میں ڈالیں، بری لگتی ہیں اسی لئے شاید مجھے شادی کی سالگرہ پر لوگوں کا ہجوم بے معنی لگتا ہے کہ یہ میاں بیوی کی ذاتی غلطی ہوتی ہے انہیں تنہائی میں ہی بھگتنی چاہیے، کیک کاٹنا ہے تو بالکل اپنے اندر کے اصلی جذبات کے ساتھ، ورنہ منہ موڑے سوئے رہیں، کم از کم رشتوں اور جذبوں کی خالصیت کا تو اندازہ رہے گا۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ شادی کی ہر سالگرہ پر، میاں بیوی آپس میں تجد ید عہد کریں، کیا کھویا کیا پایا کی کہانی ایک دوسرے کو پیش کریں، کیا کرنا ہے اور آپس میں کن رویوں پر غور کر نا ہے اور کیسے اس رشتے کو اور بہتر بنانا ہے، اس پر تبادلہ خیال کریں مگر ہو تا یہ ہے کہ لوگوں کے ہجوم کو اکٹھا کر کے میاں بیوی اپنے رشتے کی گہرائی میں اترنے کی بجائے، چہروں پرمصنوعی ہنسی سجائے، سج سنور کر مہمانوں کی خاطر مدارت اور تصویری سیشین میں الجھے رہتے ہیں اور یہ نایاب لمحات بھی گزر جاتے ہیں اور ”رشتہ“ ویسے کا ویسا دیوار پر کیسی ڈیکوریشن کی طرح چپکا رہ جا تا ہے۔

شادی کے بندھن میں بندھے سال پر سال گزرتے جاتے ہیں اور ہم یہ محسوس بھی نہیں کرتے کہ وہ دو افراد جن کی زندگی کا سفر اس رات سے شروع ہوا تھا جب وہ مہمانوں کے جانے اور کمرے میں تنہا ہو نے کا شدت سے انتظار کر رہے تھے اب ایک ایسے جوڑے میں بدل چکے ہیں جو کمرے کی تنہائی سے گھبرا کر اپنے ارد گردمہمانوں کا ہجوم اکٹھا کر رہا ہے، اپنی خوشی ایک دوسرے کے چہروں پر نہیں دیکھ رہے بلکہ ان مہمانوں کو نمائشی چیزوں سے دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کالم لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ میں جو بات سالوں سے سوچ رہی ہوں اور اس پر عمل کر کے اپنے رشتے کے کئی اتار چڑھاؤ سہہ بھی گئی ہوں اور اپنی خامیوں کجیوں کو جانا بھی ہے ٹھیک بھی کرنے کی کوشش کی اور شادی جیسے مشکل بندھن کو نبھانے، اور ہم سفر کی تمام غلطیوں کو درگزر کر کے اس کے اندر کی خوبصورتی کو پہچاننے کے قابل ہو ئی ہوں تو ایسا کر کے ہو سکتا ہے بہت سے اور لوگوں کا بھلا ہو جائے، مگر آزمائش شرط ہے۔ روز روز نہیں تو کم از کم اپنی شادی کی سالگرہ پر ایک دوسرے سے تجدید عہدکر کے دیکھیں کہ پڑے پڑے یا نمائش میں کھو کر رشتہ اپنا اصل رنگ تو نہیں کھو چکا؟

صلہ رحمی، انڈرسٹنڈنگ اور دوسروں کو جینے کا ویسے ہی حق دینا جیسا آپ اپنے لئے چاہتے ہیں، یہ، صرف میاں بیوی نہیں ہر رشتے میں درکار ہے۔ شادی کے بعد صرف میاں بیوی کا رشتہ ہی نہیں ہو تا، لڑکی کا اپنے گھر والوں سے اور لڑکے کا اپنے گھر والوں سے رشتہ بھی بدل جا تا ہے۔ اچھے گھرانے وہی ہوتے ہیں جو سب کو اپنے اپنے حصے کی اپنی اپنی فکری اور شخصی آزادی کے ساتھ جینے کا حق دیں۔ خوشی کا تعلق دل سے ہے اور فی زمانہ ہمارے دل مرتے جا رہے ہیں اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی زندگیوں پر فو کس کرنے کی بجائے دوسروں کی زندگیوں میں مداخلت کرنے اور ان پر تنقید کرنے پر گزار دیتے ہیں۔

انسان، اس وقت تک آزاد نہیں ہو تا جب تک اس کو انفرادی طور پر سوچنے کا حق نہیں دیا جاتا۔ خلیل جبران نے کہا تھا انسان، اپنے بچوں کو دنیا میں لانے کا ذریعہ ضرور ہو تا ہے لیکن ان کو بال و پر دے کر آزاد ی کی فضا میں چھوڑنا ہی حکمت ہے۔ مطلب ان کو اپنے فیصلے کرنے اور سوچنے کی آزادی ہو نی چاہیے۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہو تا ہے کہ آنے والی مشکلات کے ذمہ دار، بھی وہ خود ہو نگے، اور آنے والی برکتوں کا ریوارڈ بھی وہ خود لیں گے۔ قید میں بند پرندے بھی پھڑپھراتے رہتے ہیں، انسانوں کی سوچ کو اپنی مرضی کے تابع کر نے کی کوشش ان کے اندر عمر بھر کی پھڑپھراہٹ چھوڑ دیتی ہے۔ ہر رشتے میں۔ آسانی دینے کی کوشش کریں۔ انا کو محبت کے خول میں لپیٹ کر دوسروں کی زندگی تنگ کرنے سے اور رشتوں کی بلیک ملینگ کر کے، آپ دلوں کو سخت اور محبتوں سے خالی کر دیتے ہیں۔

ہر بات انا کا مسئلہ نہیں ہو تی، ہر رات اندھیری نہیں ہو تی اور ہر صبح بھی روشن نہیں ہو تی۔ ۔ ۔ یعنی اس دنیا میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ انسانوں کو مارجن دیں، جینے دیں۔ دوسروں کو جینے دیں گے تو اپنی زندگی بھی حسین ہو جائے گی کہ باہر روشنی پھیلانے سے اندر کی روشنی بڑھتی ہے۔ معاشروں میں سائنس کی ضرورت اٹل سہی مگر ادب اور آرٹ کو بھی مقام دیں تاکہ انسان دوسرے انسان کو سمجھنے کے لئے اپنی آنکھیں اور دل کھول لے۔ ۔ ۔ یہ انسان کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ آپ کا بیٹا، بیٹی، بیوی، شوہر، دوست، بھائی، بہن۔ کوئی بھی۔ ۔ ۔

کرونا کے اس سٹریس فل ماحول میں جب ہر انسان بے یقینی اور بے چینی کا شکار ہو رہا ہے۔ ہم سب کا اجتماعی فرض ہے کہ دوسروں کے ذہنی سکون اور اطمینان کا خیال رکھیں۔ آج کل ہر گھر کی نفسیات کی بدل گئی ہے۔ کسی گھر میں بچے، مضبوط ہیں اور بڑوں کو بھی حوصلہ دے رہے ہیں، کسی گھر میں بوڑھے، کرونا کی تنہائی سے تنگ آرہے ہیں اور کسی گھر میں وہ گھبرائے ہو ئے بچوں کا سہارا بن رہے ہیں۔ ہر گھر دوسرے گھر سے مختلف ہو گیا ہے۔ اس لئے رشتوں کو، عام حالات سے بھی زیادہ، تحمل اور بردباری سے نبھانے کی ضرورت ہے۔ یہ مشکل وقت، آج سے پہلے، اس دنیا پر کبھی نہیں آیا، ہمارے بچوں کو اس لاپروائی والی عمر میں اس آسیب سے گزرنا پڑ رہا ہے، ہم نے تو اپنی زندگیوں کا یہ خوبصورت بچپن اور جوانی والا دور خوبصورتی سے گزار لیا ہے مگرہمارے بچے ”اس عمر“ کے کھلنڈرے پن اور لاپروائی سے محروم ہو رہے ہیں، اس وقت انہیں ہماری سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ۔ ۔ بچوں کی ذہنی اور نفسیاتی الجھنوں پر گہری نظر رکھیں۔ یہ وقت تو گزر جائے گا مگر اس دنیا کو بدل کے جائے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس بدلتی دنیا میں ہمارے بچوں نے جینا ہے، اس کے لئے ان کا ذہنی اور جسمانی طور پر صحت

مند رہنا بہت ضروری ہے۔ اس مشکل دور میں فاصلے نہیں فیصلے انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب اور دور لے کر جائیں گے۔ آنکھیں کھلی اور دل کشادہ کر لیں۔ محبتیں بانٹیں۔ سختیاں یا آزمائشیں نہیں۔ رشتوں کو آزمانے کا پھر وقت ملے گا۔ ابھی رشتوں کو نبھانے کا وقت ہے۔ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ مگر آج کے فیصلے کل کے فاصلوں کو کم کریں گے۔ ورنہ کرونا ختم بھی ہو گیا تو پھیلے ہو ئے فیصلوں کو پھلانگنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ ۔ ۔ اس مشکل گھڑی میں اللہ سب کو آسانیاں بانٹنے کی توفیق دے۔ آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments