مادر ملت یا غدار وطن؟


نو جولائی کو مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا یوم وفات منایا گیا۔ میں نے محسوس کیا کہ پاکستان کے شہریوں نے مادر ملت کو خراج عقیدت پیش کیا۔ مگر میں ایک اضطراب کی حالت میں تھا کہ میں فاطمہ جناح کو کیا مانوں مادر ملت یا ایک سنگین غدار۔ آپ یہ حملہ پڑھ کر چونک گئے ہوں گے اور میرے بارے میں ایک رائے اپنے ذہن میں ضرور قائم کریں گے کہ کس قسم کا شخص ہے یہ۔ مادر ملت کو غدار قرار دے رہا ہے مگر جناب میں یہ اپنے آپ سے تو نہیں کہہ رہا۔ 1964 میں اس ریاست پاکستان نے اس عظیم عورت کو جس نے اپنی زندگی اس ملک و قوم کے حصول کے لئے قربان کردی ان کو غدار کا لقب دیا گیا۔

بات یہ ہے کہ اس وقت ایک آمر ایوب خان برسر اقتدار تھا۔ ایوب خان نے 1956 کے آئین کو پامال کر کے اس وقت کے وزیر اعظم فیروز خان نون کی حکومت کا تختہ الٹا پاکستان کے پہلے صدر اسکندر مرزا کی آشیرباد سے اور مارشل لاء کا نفاذ کیا۔ کچھ دن بعد اسکندر مرزا کو بھی صدر مملکت کے عہدے سے اتار دیا گیا اور وہ لندن چلے گئے۔ 1962 میں نیا آئین تشکیل دیا جاتا ہے اور پاکستان پارلیمانی نظام سے صدارتی نظام اپنا لیتا ہے۔ اس کے تحت اب ایک بنیادی جمہوریت کا نظام نافذ ہوا کہ عوام بی ڈی ممبر منتخب کرے گی۔

الیکٹورل کالج 80000 بی ڈی ممبرز ہوں گے 40000 مشرقی پاکستان کے اور 40000 مغربی پاکستان سے ہوں گے۔ ایوب خان نے 1964 میں 2 جنوری 1965 کو صدارتی انتخاب کا اعلان کیا اور کنونشن مسلم لیگ کے امیدوار ایوب خان تھے۔ ایوب کو اندازہ تھا کہ اپوزیشن جماعتیں الگ لڑیں گی اور وہ با آسانی الیکشن جیت جائیں گے مگر نو جماعتی اپوزیشن اتحاد قائم ہوا اور انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کو اپوزیشن کا مشترکہ امیدوار نامزد کر دیا۔ یہ ایوب خان کے لئے سرپرائز تھا۔ جہاں فاطمہ جناح جلسے کرتی عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ان کا استقبال کرتا اور ان کا خطاب سنتا۔ اس وقت اخبار میں فاطمہ جناح کو خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان پر پختونستان کا الزام اور پشت پناہی کا الزام لگا کر انہیں ملک دشمن اور غدار قرار دیا گیا۔

مگر پھر بھی عوام فاطمہ جناح کے ساتھ تھی اور فاطمہ جناح نے قوم سے وعدہ کیا کہ اگر وہ منتخب ہوئیں تو وہ پارلیمانی نظام دوبارہ بحال کر دیں گی۔ 2 جنوری 1965 کو الیکشن ہوئے اور بدترین دھاندلی سے ایک آمر نے مادر ملت کو شکست دی اور عوام پر مسلط رہا۔ اس کے بعد فاطمہ جناح حکومت کے خلاف کڑی تنقید کرتی رہیں۔ اچانک 9 جولائی 1967 کو فاطمہ جناح اپنی رہائش گاہ میں مردہ پائی گئیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کو زائد زہر دے کر قتل کیا گیا۔

ان کا آخری دیدار بھی نہیں کروایا گیا اور مزار قائد میں جلدی جلدی دفن کر دیا گیا مگر ان کی وفات کے ایک سال بعد عوام سڑکوں پر نکلے اور ایوب خان کو عوامی احتجاج کے آگے جھکنا پڑا۔ اور یوں اقتدار یحیی خان کے حوالے کر کے سبکدوش ہو گئے۔ سوال یہ ہے اس وقت جس طرح مادر ملت کی کردار کشی کی گئی اور ان کو نکاح کرنے کے مشورے دیے جاتے رہے۔ ان کو غدار قرار دیا گیا۔ اب کہاں ہیں وہ عناصر؟ آج بھی عوام مادر ملت کے مزار پر فاتحہ خوانی کرتے ہیں اور کس کس کو معلوم ہے کہ ایوب خان کہاں مدفون ہیں؟ کسی کو پتا ہے کہ وہ راولپنڈی کے فوجی قبرستان میں مدفون ہیں؟ کتنے لوگ ایوب خان کی لحد پر فاتحہ خوانی کرتے ہیں؟

قوم کو مادر ملت کو غدار قرار دینے کا چلن عشروں پہلے شروع ہوا۔ اس ملک میں جو غیر سیاسی قوتوں کے اقتدار سنبھالنے کا مخالف اور جس نے عوامی حاکمیت کی بات کی اس کو غدار قرار دیا جاتا رہا ہے۔ ایک آمر آج بھی محب وطن ہے۔ اب ہمیں اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو حقائق بتانا ہوگا۔ فاطمہ جناح کو صرف قائد اعظم محمد علی جناح کی بہن کی حیثیت سے نہیں ان کی آمریت کے خلاف جد و جہد کے بارے میں بتانا ہوگا۔ سبق ہم نہیں سیکھ رہے مگر بات اب سمجھ لیں یا دیر بعد مگر اب اس ملک میں آئین کی سربلندی اور حقیقی جمہوریت کا نفاذ ناگزیر ہے۔ ہمیں مادر ملت کی حد و جہد کو آگے بڑھانا ہے اور ان کے مشن کو کامیاب بنانا ہے انشاءاللہ! جس دن ہم اس مقصد کے حصول میں کامیاب ہو گئے اس دن بابائے قوم اور مادر ملت بہت خوش ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments