وارث میر…. ایک سچا صحافی


ایک کوتاہ نظر، کم علم اور کم ظرف سرکاری عہدے دارنے نامور صحافی اور دانشور پروفیسر وارث میر پر غدار وطن ہونے کی تہمت تو لگا دی، شاید وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ چاند کا تھو کا اپنے ہی منہ پر آ کر گرتا ہے اور ہوا بھی ایسا ہی. اس بیان کے ردعمل میں سندھ اور پنجاب کی صوبائی اسمبلیوں نے وارث میر کے حق میں متفقہ قرار دادیں مںظور کرتے ہوئے انہیں ایک محب وطن قرار دے دیا.

سچ تو یہ ہے کہ تاریخ، تہذیب، تمدن، ادب اور دیگر علوم جانے بغیر انسان کا دماغ محض ایک کھوکھلا ڈبہ ہوتا ہے، نہ اس میں روشنی کی کسی کرن کا گذر ہوتا ہے اور نہ کسی نئے اچھوتے خیال کے جنم کا امکان رہتاہے۔ افسوس کہ ہمارے حکمران ٹولے نے ہمیشہ نالائق اور سفارشی افراد کو ہی حکومتوں میں بڑے بڑے عہدے دیے کیونکہ یہ کرائے کے درباری ہاں میں ہاں ملانے اور تالیاں بجانے کا کام بخوبی سر انجام دیتے ہیں۔ ان کا اپنا کوئی نکتہ نظر تو ہوتا نہیں کیونکہ یہ علوم سے نا آشنا اور بے بہرہ ہوتے ہیں۔

2013 میں سابقہ پنجاب حکومت نے لاہور میں ایک انڈر پاس کا نام وارث میر کے نام پر رکھا تھا مگر 2020 میں بزدار حکومت نے بے وجہ اس انڈر پاس سے ان کا نام ہٹا دیا جو کہ ایک گری ہوئی حرکت تھی لیکن شاید حکمرانوں کواس بات کا ادراک نہیں کہ سڑکوں، عمارتوں اور پلوں سے بڑے لوگوں کے نام مٹانے سے تاریخ کھرچی نہیں جاسکتی. وارث میر کا نام پاکستانی تاریخ میں ایک ترقی پسند اور جمہوریت پسند دانشور کے طور پر کندہ ہے اور ایک نگینے کی طرح ہمیشہ چمکتا رہے گا۔

میرے لیے پروفیسر وارث میر یوں محترم ہیں کہ وہ میرے ابا احمد بشیر کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ یہ وہ خاص لوگ تھے جنہیں دنیا کی چاہ نہیں تھی۔ وارث میر اپنے اصولوں کے ساتھ کمٹڈ اور پاکستان کے سچے عاشق تھے، میرے ابا بھی ایک انتہائی مخلص اور نظریاتی طور پر ایماندار آدمی تھے لہٰذا ان کے دوست بھی ان ہی کا عکس تھے۔ یہ دونوں دوست وطن پرست، دیوانے، مستانے اور کسی بھی خوف اور خطرے کو خاطر میں نہ لانے والے نڈر کردار تھے۔ آج کے دور کے صحافیوں میں سودا بازی، مفاہمت، مصالحت، ذاتی تشہیر، جھوٹ اور ریاکاری کا جو چلن ہے ایسا اُس دورکے نظریاتی صحافیوں میں نہیں تھا۔

ہماری صحافت کے حالات تو اتنے ابتر ہو چکے ہیں کہ آج کا میڈیا سکہّ پھینک اور تماشا دیکھ کے مصداق سرکاری درباروں اور امراء کے خلوت کدوں میں عریاں رقص کرنے والی رقاصہ بن چکا ہے۔ پیسے دو اور اپنی مرضی کا تجزیہ اور خبر لو. پلاٹ، مکان، جہاز، فارم ہاؤس، کیش کچھ بھی بطور نذرانہ پیش کرو اور میڈیا کو رام کر لو۔ آج کے زمانے میں رزق حلال کمانا ایک فرسودہ اور مسترد شدہ خیال سمجھا جانے لگا ہے۔ آج احمد بشیر اور وارث میر جیسے کمٹڈ اور نظریاتی دانشور زندہ ہوتے تو بے وقوف سمجھے جاتے کیونکہ یہ لوگ تمام عمر قلم فروشی سے انکاری رہے۔

میرے پاس پروفیسر وارث میر کے حوالے سے زیادہ تر باتیں اور یادیں اپنے ابا کے حوالے سے ہیں. میں نے پہلی مرتبہ ان کو تب دیکھا جب ہم سب خاندان والے 1986 میں ایک جلوس کی شکل میں بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی پر انہیں ویلکم کرنے لاہور کے مال روڈ پر کھڑے ہوئے تھے۔ تب وارث میر بھی وہاں موجود تھے اور ابا کو اس بات کی بہت خوشی تھی کہ وہ پی پی پی کی پذیرائی کرنے آئے ہیں۔ ہم تب پی پی پی کو ایک نجات دہندہ سمجھتے تھے لیکن یہ اور بات کہ ہمارے یہ سپنے ٹوٹ کر بکھر گئے اور روٹی کپڑا اور مکان سمیت بھٹو کا کیا ہوا کوئی بھی وعدہ پورا نہ ہوسکا۔

وارث میر اکثر ابا کے پاس ہمارے گھر آتے تھے۔ ابّا آواز لگاتے، ”چائے بھجواؤ، میرا یار وارث میر آیا ہے۔“ دونوں کی خوب بیٹھک جمتی اور ملکی حالات پر تبصرے ہوتے۔ میں بھی تاریخ کے ان متوالوں کے آس پاس ہی منڈلاتی رہتی کیونکہ مجھے بھی ان کی سیاسی اور علمی بحث میں دلچسپی ہوتی تھی۔
ابا بتاتے تھے کہ وارث میر پہلے نظریاتی طور پر دائیں بازو کے قریب تھے۔ دھیرے دھیرے جب ان پر دائیں بازو خصوصا جماعت اسلامی کی کار گذاریوں کے چھپے ہوئے اسرار کھلنا شروع ہوئے تو وہ رائٹسٹ حلقوں سے بدظن ہو گئے۔ وہ اپنے مذہبی سوالات کا پٹارا اٹھا کر احمد بشیر کے پاس لے آتے اور سوالات کرنے لگتے۔ ابا انہیں مدلل، منطقی، مضبوط جوابات دیتے توان کی تشفی ہو جاتی۔ پھروارث میر کا جماعت اسلامی سے مستقل بیر پڑ گیا۔ وہ جماعت اسلامی اور جمیعت والوں کی پنجاب یونیورسٹی میں دھونس، دھاندلی اور غنڈہ گردی سے نالاں ہو چکے تھے۔ انہوں نے جماعت کی موقع پرستی اور سیاسی عزائم کو اپنی تحریروں سے بے نقاب کرنا شروع کر دیا جبکہ میاں طفیل محمد اس وقت جنرل ضیاء کے پٹھو کا کردار ادا کر رہے تھے۔

جماعت اسلامی ضیاء الحق کی لاڈلی اور بگڑ ی ہوئی بیٹی کی طرح تھی۔ احمد بشیر اور وارث میر دونوں اس کے مکروہ سیاسی کردار کے سخت ناقد تھے۔ وارث میر کے قلم کی کاٹ میں تیزی آئی تو جماعت والوں نے انکے خلاف محاذ کھول دیا اور انہیں تنگ کرنے لگے۔ وارث میر کو اس بات کا بھی بہت رنج تھا کہ جنرل ضیاء الحق ترقی پسند اور لبرل دانشورں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور انہیں پاکستان کی نظریاتی سیم اور تھور قرار دیتے تھے۔ ضیاء کے نزدیک چند گنے چنے درباری لکھنے والے ہی محب وطن تھے جن کا قلم اس کی بجائی ہوئی بین پر تھرکنا جانتا تھا۔

یہ وہ لوگ تھے جو ضیاء الحقی سوچ، دقیانوسی خیالات اور فرسودہ افکار کو بنیاد بنا کر ناول، ٹی وی ڈرامے اور کہانیاں لکھ رہے تھے۔ یہی لوگ حکومتی تمغوں اور مراعات کے قابل قرار پائے۔ انہی درباریوں نے جنرل ضیاء الحق سے فیض پایا اور خاطر خواہ اجر کمایا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments