داستان گوئی خیال یا حقیقت


داستان گوئی ادب کی ایک ایسی صنف ہے جو اردو ادب میں رفتہ رفتہ ختم ہوتی جا رہی ہے یا یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ناپید ہو چکی ہے وجہ یہ بتائٰ جاتی ہے کہ چوں کہ یہ دور حقیقت پسندی کا دور ہے لہذا اایسی چیزیں بے کا ر تضیح اوقات ہیں یعنی ٹیکنالوجی کے اس دور میں ایسی باتیں مضحکہ خیز لگتی ہیں آئیے دیکھتے ہیں کہ داستان گوئی ہے کیا۔

داستان گوئی دراصل قدیم ہندوستانی فن ہے۔ ہندوستان کی سر زمین جن، بھوتوں بدروحوں اور دیو مالائی فرضی قصوں کی سر زمین ہے داستان گوئی کی بڑی تعداددراصل اس دور کی ہے جب لوگ لمبی راتوں میں کوئی مصروفیت نہ ہونے کی وجہ سے دلچسپی کے لیے داستانیں سنا کرتے تھے جن میں واقعہ در واقعہ موجود ہوتا اور داستان گو واقعات کی کڑی سے کڑی ایسی مربوط رکھتا کہ سننے والا اس کے فرضی ہونے پر جھوٹ کا گمان بھی نہیں رکھ سکتا اور ور بھوت پریتوں کی

طلسماتی ہوش ربا دنیامیں خیالوں کے ذریعے پہنچ جاتا لیکن طلسم داستان کے اختتام پر ہہی ٹوٹتا۔ داستان گوئی کی تفریح کو قلم کی زد میں لاکر داستان نگاری کی بنیاد ڈالی گئی۔ ان تصوراتی کہانیوں میں الف لیلی کو لے لیجیے اس میں مختلف عنوانات پر کہانیاں لکھی گئیں جس میں جادوئی قالین یعنی اڑنے والے قالین کا تصور پیش کیا گیاجس پر بیٹھ کر شہزادہ کوہ قاف میں سیر کرتا۔ شراب کے پیالے میں بادشاہ کا اپنی ساری سلطلنت کو دیکھ لینا اور اس طرح کی بہت دیومالائی داستانیں کہا جاتا ہے کہ جن بدولت جدید ایجادات جیسے اڑنے والے قالین نے جہاز یا ہیلی کاپٹر بنائے گئے اور اورایران کے بادشاہ کے شراب کے پیالا ٹیلی ویژن کی ایجاد کو سبب بنا۔ ایسی بہت سی تصوراتی چیزیں جو داستان گوئی میں بتائی گئیں انھیں دور جدید کی ایجاد ات کہا جاسکتا ہے۔

اس لیے صرف یہ کہہ کر داستان گوئی کو نظر انداز کرنا کہ یہ صرف افسانوی باتیں ہیں اور حقیقت سے کوئی تعلق نہیں یقیناً تنگ نظری ہی سمجھا جائے گا کسی بھی شے کا وجود میں آنے سے پہلے اس کا خیال ہی جنم لیتا ہے تب ہی وہ شے تخلیق کی جاتی ہے اس سے قطع نظر اگر داستان گوئی کی اہمیت کو اس لحاظ سے دیکھا جائے کی جس کے ذریعے لوگوں کی نفسیاتی الجھنیں سلجھائی جاسکتیں بلکہ یہ کہنا بہ جاہوگا کہ مادیت پرستی کی اس دنیا میں جہاں طبقاتی کشمکش غریب طبقے کو نشترچبھو رہی ہے اور وہ راتوں رات امیر بننے کے خواب دیکھ رہی ہے تو اگر کوئی شخص دولت مند ہونا چاہے تو حقیقت کی دنیا میں تو یہ ممکن نہیں لیکن داستان کو پڑھنے سے اس کی خواہشات کی تسکین اس طرح ہو سکتی ہے کہ اس صنف میں ماورائی دنیا میں زندگی کی کایا یوں پلٹتی دکھائی جاتی ہے۔

اور جہاں مسائل کا، مصیبتوں کا چھٹکارا ممکن نہ ہو وہاں تعویز وں اور جنوں پریوں سے مدد لی جاتی ہے داستان نگاری میں ڈرامائی رنگ بد درجہ اتم موجود ہوتا ہے۔ جس میں تجسس کی فضا قائم رہتی ہے اور داستان کے فرضی کرداروں پرحقیقی کردارو ں سے سبقت لے جاتی ہے کہ یہ کردار ہمیں اپنے اطراف میں دکھائی دینے لگتے ہیں۔

پچھلی صدی میں داستان نگاری کا فن ایسے عروج پر نظر آتا ہے کہ جسے پڑھ کر قاری مہر بہ لب ہوجاتا ہوگا۔ اس زمانے میں جو داستانیں، اس زمانے میں منظر عام آئیں ان میں خواجہ سگ پرست، شہزاد جان عالم کی سواری، حمام بارد گرد وغیرہ شامل ہیں۔ بلا شبہ تمام داستانیں انسان کو زمانے کے پیچ وخم اور مصیبت واکرام میں پھنسے ہوئے لوگوں کے لئے نصیحت ہیں۔

حمام باد گرد کی خبر لانے لانے کا۔ منیر شامی اور حسن بانو کے بیاہے جانے کا اور حاتم کے اپنے گھر آنے کا

جب حاتم شہر سے نکلا، جنگل کی راہ لی۔ چند روز کے بعد ایک شہر کے قریب جا پہنچا۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایک کنویں کے گرد بہت سے زن و مرد جمع ہیں۔ اس نے پوچھا کہ ”ایسا ہجوم اور ایسی دھوم کیوں کر رکھی ہے“ ۔

کسی نے کہا ”اے عزیز! یہاں کے حاکم کا بیٹا اس کنویں پر دیوانہ ہو کر بیٹھ رہا تھا۔ آج تیسرا دن ہے کہ اس نے آپ کو اس میں گرا دیا۔ ہرچند ہم اس میں کانٹے اور رسیاں ڈال ڈال کر ڈھونڈتے ہیں پر اس کی لاش نہیں ملتی۔ معلوم نہیں کہ اس میں کیا بلا تھی۔ جو اسے تحت الثریٰ میں لے گئی، یا پانی ہی میں پڑا ہو۔ پر کوئی اپنی جان کے خطرے اترتا بھی نہیں کہ مبادا اس میں اژدہا ہو اور نگل جائے۔

یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ اس کے ماں باپ گریبان پھاڑے سر پر خاک ڈالے، وہاں آ پہنچے اور کنویں پر بیٹھ کر ایسے درد سے روئے کہ پرندے ہوا کے بھی فریاد کرنے لگے بلکہ پتھروں کے جگر بھی پانی پانی ہو کر بہہ گئے۔

یہ حالت دیکھ کر حاتم کا بھی دل بھر آیا۔ آبدیدہ ہو کر دلاسا دینے لگا کہ ”خواہش الٰہی سے چارہ نہیں، صابر و شاکر رہا چاہیے“ ۔

وہ بولے کہ ”اے جوان! تو سچ کہتا ہے لیکن جو اس کی لاش بھی ہاتھ آئے تو دفن کر کے اس کی قبر ہی سے اپنے دل بیتاب کو تھوڑی بہت تسلی دے دیں اور صبر کریں کیوں کہ موئے ہوئے کی اتنی ہی نشانی بہت ہے۔ چنانچہ ہر ایک کی منت کرتے ہیں بلکہ ہزاروں روپے دینے کو موجود ہیں لیکن کوئی ہمارے حال تباہ پر رحم نہیں کر کرتا اور نہیں اترتا۔ آج یہ ارادہ ہے کہ آپ کو اس کنویں میں ڈالیں اور اس کی لاش تلاش کر کے نکالیں۔ دوسرے کو کیا پروا ہے جو پرائے واسطے اپنی جان کھوئے“ ۔

یہ سن کر حاتم بولا ”خاطر جمع رکھو میں اپنے سر کو خدا کی راہ میں ہتھیلی پر دھرے پھرتا تا ہوں۔ یہی آرزو ہے کہ میری جان کسی کے کام آئے، عنداللہ اس کنویں میں جا کر تمھارے بیٹے کی لاش ڈھونڈے لاتا ہوں، تم میرے آنے تک یہیں منتظر رہنا“ ۔

انہوں نے کہا ”اے جوان! جانے کا کیا ذکر ہے ہم اپنی بود و باش یہیں کریں گے“ ۔

حاتم بولا ”ایک مہینے تک میری راہ دیکھنا، اگر آیا تو بہتر نہیں تو اپنے کاروبار میں م مشغول ہو جانا“ ۔

اتنی بات کہہ کر وہ کنویں یں کود پڑا، کئی غوطے کھائے۔ یکایک پاؤں تہہ کو جا لگے۔ آنکھیں کھول دیں نہ کنواں ہی نظر آیا، نہ پانی، مگر ایک میدان وسیع روشن دکھائی دیا۔ آگے چلا، پھر ایک باغ پاکیزہ، پر فضا دروازہ کھلا ہوا نظر آیا، بے تامل اس کے اندر چلا گیا۔ ہر قسم کے پھول پھلے ہوئے اور درخت خوبصورت میووں سے لدے ہوئے دیکھے اور وہ باغ خوشبو سے ایسا مہک رہا تھا کہ اس کا بھی دماغ معطر ہو گیا۔ اس کے جی میں آیا کہ دیکھوں ایسی خوشبو کن پھولوں کی ہے۔ اس امتحان کے لیے ہر ایک تختے کی طرف آتا جاتا تھا کہ ایک جماعت پری زادوں کی کسی جگہ بیٹھی ہوئی دکھائی دی اور ایک تخت مرصع پر ایک جوان خوش رو بھی بیٹھا نظر آیا۔ تب حاتم تھوڑی دور بڑھ کر گنجان درختوں میں چھپ رہا اور تماشا دیکھنے لگا۔

اتنے میں پریوں کی نظر اس پر جا پڑی، یکایک چیخیں مارنے لگیں کہ ”ہے ہے یہ آدم زاد نا محرم کہاں سے آیا“ ، پھر جا کر اپنے سردار سے عرض کی کہ ”ایک شخص آدم کی قوم سے فلانے درختوں میں چھپا کھڑا ہے“ ۔

یہ سنتے ہی پری زاد نے اس جوان سے کہا کہ ”تمہارا بھائی بند ایک اور بھی یہاں آ پہنچا اگر کہو تو تمہارے پاس لے آئیں، مہمانداری کی شرط بجا لائیں“ ۔

وہ بولا ”بہت اچھا مجھے بھی اپنے ہم جنس کا کمال اشتیاق تھا الحمدللہ خدا نے بھیج دیا“ ۔
اس پری نے اپنی ایک دو مصاحبوں سے کہا کہ ”جا کر تم اس کو باآئین شائستہ لے آؤ“ ۔

وہ جا کر اسی طرح سے لے آئیں۔ جب تخت کے قریب پہنچا پری زاد اور وہ جوان اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے پاس بٹھا لیا۔ مہمانداری کی رسمیں بجا لائے۔ احوال پوچھنے لگے کہ ”تم کون ہو، کیا نام ہے، کہاں سے آئے ہو“ ۔

حاتم بولا ”میں یمن کا رہنے والا ہوں شاہ آباد سے آتا ہوں حمام بادگرد کو جاتا ہوں، میرا نام حاتم ہے۔ اتفاقاً اس کنویں پر نکلا تھا بہت سے لوگوں کو روتے ہوئے دیکھا۔ خصوصاً اے نوجوان! تیرے ماں باپ کی حالت سے میری حالت تغیر ہو گئی۔ بے اختیار ان کے پاس جا کر پوچھا کہ تم اس طرح کیوں بلبلا رہے ہو کہ سننے والوں کی چھاتیاں پھٹی جاتی ہیں“ ۔

وہ آہ بھر کر بولے کہ ”اس کنویں میں ہمارا یوسف ثانی گم ہو گیا ہے اس سے ہمارے جی ڈووبے جاتے ہیں۔ کوئی ایسا نہیں ہے جو خدا کے واسطے اس میں جا کر اس کی لاش نکال لائے“ ۔

”جب میں نے یہ کلمہ سنا بے اختیار آپ کو اس کنویں میں گرا دیا اور یہاں تک آ پہنچا۔ اب میں نہیں جانتا کہ ان کا بیٹا تو ہی ہے یا کوئی اور، پر ایک آدمی کو دیکھتا ہوں“ ۔

یہ سن کر اس جوان نے کہا کہ ”اے بھائی! وہ شخص جو یعقوب صفت اپنی بیوی سمیت وہاں تھا میں اسی کا بیٹا ہوں۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ میں اس کنویں پر آ نکلا کہ یہ رشک زلیخا مجھے نظر آ گئی۔ فوراً اس کے ایک جلوے پر بے داموں بک گیا اور اس کی چاہ سے باؤلا بن گیا۔ وہاں بیٹھ رہا۔ یہ برق وش بھی ہر روز اپنی جھلک دکھا کر چلی جاتی تھی لیکن مجھے اس دیکھا بھالی سے تسلی نہ ہوتی تھی۔ آخر اس کے سلسلۂ محبت کی کشش نے کھینچ کر مجھ کو اس چاہ عمیق میں گرا دیا۔ پھر باد صبا کی طرح اس گل خوبی کی جستجو میں گرتا پڑتا اس باغ میں پہنچا۔ بارے اس نے میری خستہ حالی دیکھ کر نہایت مہربانی فرمائی اور مجھ تشنۂ آب وصال کو پانے جام وصل سے سیراب کیا۔ اب یہ آرام گزرتی ہے۔ ہر ایک رات عیش و آرام سے کٹتی ہے“ ۔

لیکن کیا موجودہ دور کا قاری اس سائنسی ایجاد کے اس دور میں داستانوں کی طرف راغب ہو سکتا ہے آج کل کے قاری کے پاس تو ایسی طویل داستانوں کو پڑھنے کے لیے وقت ہی نہیں وہ جدید ٹیکنالوجی کا عادی ہے جب کہ اس ٹیکنالوجی کو بنانے والے کے ہاں سائنس فکشن پر مبنی ناول اور مختصر کہانیاں تخلیق پا بھی رہی ہیں تو اس کا دائرہ انگریزی ادب تک محدود ہے جس کی مثال مشہور ناول ہیری پوٹر ہے جس میں داستان کی طرح واقعہ در واقعہ سموننے کی کوشش بڑی کامیابی سے کی گئی ہے۔ لیکن ہم اہل مشرق سے اردو ادب میں اس سلسلے میں کوئی کام نہیں ہورہا اور نہ ہی اس ضمن میں کوئی امید رکھی جا سکتی ہے اس لیے کہ انگریزی ادب پڑھنے والے خال خال ہیں جو اس قسم کی کہانیاں بہ طور اسٹیٹس پڑھتے ہیں، اور اردو زبان کی ترقی تو ہمارے ملک میں ویسے بھی نہیں اورادب تو پہلے ہی داؤ پر لگا ہوا ہے۔

اگر ان باتوں کو نظر انداز بھی کر دیا جائے اور صرف اس لحاظ سے داستان گوئی کی ضرورت پر غور کریں کہ حقیقت پسندی سے ہمارے رویے اور سوچ پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ کیا ہم واقعی ایسے حقیقت پسند بن گئے ہیں کہ ہم نے معاشرے میں توازن قائم کر لیا ہے۔ یعنی لوگوں کے ساتھ اچھا برتاؤ اور ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنا شروع کر دیا ہے۔ اپنی ذات سے نکل کر سوچنے لگے ہیں تو جواب نفی میں آئے گا بلکہ اگر دیکھا جائے تواس حقیقت پسندی نے جتنا بے حس اور ظالم بنایا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی وہ احساسات جن کی بنا پر دردمندی قائم تھی وہ بھی حقیقت پسندی کے چکر میں چھن گئے ہیں۔ اس لیے ان داستانوں کی صنف کو زندہ رکھنے کی سعی بھی کی جائے تو عبث ہے۔ اس لیے داستان نگاری مرجانے کے قریب ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments