کارکردگی دکھائیں ورنہ گھر جائیں


گزشتہ دنوں وزیراعظم کی زیر صدارت ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں اہم حکومتی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم کافی برہم دکھائی دیے۔ انھوں نے اپنے ایک بیان میں وزراء، مشیران اور بیورو کریٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب زبانی جمع خرچ سے کام نہیں چلے گا، اب کارکردگی دکھانا ہو گی۔ اب کام کریں ورنہ گھر جائیں۔ وزیراعظم کے حالیہ بیان سے بادی النظر میں یوں لگتا ہے کہ جیسے انھیں حکومتی ناقص کارکردگی کا اب ادراک ہوا ہے۔

لیکن ہم اگر ماضی میں نظر دوڑائیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اس سے ملتے جلتے بہت سے بیانات وہ پہلے بھی دے چکے ہیں جن کے خاطرخواہ نتائج تاحال برآمد نہیں ہوئے۔ اب تو یہ محض لفاظی ہی لگتی ہے کیونکہ عوام گزشتہ دو سال سے اسی طرح کے بیانات سنتے آ رہے ہیں۔ حکومت سنبھالتے ہی وزیراعظم صاحب نے کہا کہ اب نوے دن کے اندر اندر ملکی معاملات میں بہتری ہوتی ہوئی نظر آئے گی لیکن بدقسمتی سے ہم دیکھتے ہیں کہ آج حکومت کو دو سال گزرنے کو آئے ہیں۔

یہ حکومت اپنی میعاد کا تقریباً تیسرا حصہ تو پورا کر چکی ہے لیکن ابھی تک ہمیں درست سمت کا تعین ہوتا ہوا بھی نظر نہیں آتا۔ حالیہ حکومت کو تو اپوزیشن کی طرف سے بھی کوئی زیادہ مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ گزشتہ دو سال میں اپوزیشن کی کارکردگی کو سامنے رکھ کر اگر ہم یہ کہیں کہ پی ٹی آئی حکومت کو کمزور ترین اپوزیشن ملی ہے تو بیجا نہ ہو گا۔ لیکن پھر بھی ان دو سالوں میں اب تک جو بھی ہوا وہ وزیراعظم صاحب کے بتائے ہوئے وژن سے بالکل بھی مطابقت نہیں رکھتا۔

گورننس کے مسائل اب بھی جوں کے توں ہیں ان میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ جہاں تک وزراء، مشیروں اور بیورو کریسی کو گھر بھیجنے کے وزیراعظم کے حالیہ بیان کا تعلق ہے تو اس سے قبل بھی وزیر اعظم اپنی کابینہ میں وزراء و مشیران کے قلمدان تبدیل کر چکے ہیں لیکن اس سے بھی محکمہ جات کی کارکردگی میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ اگر بیورو کریسی کی طرف نگاہ دوڑائیں تو اس میں بھی ہر دو تین ماہ بعد ہمیں اکھاڑ بچھاڑ ہوتی ہوئی نظر آتی ہے لیکن اس کے بھی حوصلہ افزا نتائج برآمد نہیں ہوئے۔

بیورو کریسی سے اس طرح دھمکیوں سے کام لینا بہت مشکل ہے۔ بہترین لیڈرشپ کے ساتھ ہی بیوروکریسی سے کام لیا جا سکتا ہے کیونکہ وزراء کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی ہی دراصل مختلف محکموں کو چلا رہی ہوتی ہے۔ لہٰذا اسی بیوروکریسی کے ساتھ اچھی کوآرڈینیشن بنانا ہو گی۔ اسی طرح پنجاب میں اگر دیکھیں تو پولیس آئی جیز کو بھی بار بار تبدیل کیا گیا لیکن ورکنگ ریلیشنن شپ نہ ہونے کی وجہ سے دو سال بعد بھی پولیس کا نظام درست نہیں ہو سکا۔ تھانہ کلچر میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جا سکی۔

پہلے لوگ یہی سمجھتے رہے کہ شاید یہ مشکل حالات پچھلی حکومتوں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے ہیں کہ عوام پچھلے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں اور اس میں کسی حد تک حقیقت بھی ہے۔ لیکن اب حالیہ آٹا، چینی اور پھر پٹرولیم مصنوعات کے بحران نے عوام کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس میں تو گزشتہ حکومتوں کا کوئی قصور نہیں تھا۔ بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ تو حالیہ حکومت کی بیڈ گورننس کا نتیجہ ہے۔

المیہ یہ ہے کہ اب تو سوشل میڈیا پر ایسے ایسے لطائف چل رہے ہیں کہ وزیر اعظم جب بھی کسی چیز کے بحران پر نوٹس لیتے ہیں وہ چیز یا تو بہت مہنگی ہو جاتی ہے یا مارکیٹ سے ہی غائب کر دی جاتی ہے۔ کیا وزیراعظم کے مشیران ان کو یہ نہیں بتا رہے کہ عوام کے بنیادی مسائل تو اب بھی جوں کے توں ہیں بلکہ ان میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جب وہ اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو انھیں زمینی حقائق کا بخوبی علم ہوتا ہے، انھیں عوام کے مسائل کا بخوبی ادراک ہوتا ہے۔ انھیں یہ بھی پتہ ہوتا ہے کہ ایک مزدور دیہاڑی دار کے گھر کا چولہا کیسے چلتا ہے۔ لیکن جب وہی سیاسی جماعت اقتدار میں آ جاتی ہے تو اسے یہ سب کچھ بھول جاتا ہے۔ انھیں بھول جاتا ہے کہ ایک غریب گھرانے میں پیدا ہونے والے بچے کو علاج کیسے مل رہا ہے۔ انھیں بھول جاتا ہے کہ غریب کس طرح سرکاری ہسپتالوں میں خوار ہوتے ہیں۔

اگر ہم پنجاب کی بات کریں تو ہمیں گورننس کے بدترین مسائل کا شکار صوبہ نظر آتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں ہمیں خاطرخواہ کارکردگی نظر نہیں آتی۔ لا اینڈ آرڈر کے لئے پولیس کا محکمہ کلیدی کردار کا حامل ہوتا ہے۔ پنجاب میں پولیس کے سربراہان بار بار بدلے گئے لیکن مسائل جوں کے توں ہیں۔ کیا یہ ناقص کارکردگی بھی گزشتہ حکومتوں کے کھاتے میں ڈالی جا سکتی ہے؟

مندرجہ بالا بحث کا حاصل یہ ہے کہ حکومت کو گورننس کے شدید مسائل درپیش ہیں۔ اگر ہم وزیر اعظم کے حالیہ بیان سے یہ نتیجہ اخذ کریں کہ ان کے لئے کار حکومت چلانا مشکل ہوا پڑا ہے تو یہ بیجا نہ ہو گا۔ محض بیان بازی اور اکھاڑ بچھاڑ سے یہ نظام درست ہونے والا نہیں ہے۔ اب تک کے حکومتی اقدامات سے یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ محض چہروں کے بدلنے سے حکومتی کارکردگی بہتر نہیں بنائی جا سکتی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اداروں کی تشکیل نو اور مکمل اصلاح کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

وزیر اعظم کو ادارہ جاتی اصلاحات کے لئے عملی طور پر کچھ کر کے دکھانا ہو گا۔ قانون کی حکمرانی اور میرٹ کی بالادستی قائم کرنا ضروری ہے۔ تبھی اداروں میں شفافیت آ سکے گی۔ یہ حکومت دو سال گزار چکی ہے۔ تین سال باقی ہیں۔ وقت آہستہ آہستہ ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ اگر اب بھی ہنگامی بنیادوں پر کام نہ کیا گیا تو پانچ سال بعد بھی ہم وہیں کھڑے ہوں گے جہاں آج کھڑے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments