ایدھی صاحب کا تذکرہ۔ قلب بہ قلب، دہن بہ دہن


چار برس قبل، 8 جولائی 2016 ء کو 88 برس کی عمر میں ہم سے بچھڑنے والے عبدالستار ایدھی صاحب کے طبعی طور پر ہم سے جدا ہونے کا دکھ فقط اس قوم ہی کا نہیں، بلکہ پوری انسانیت کا دکھ بن کر سامنے آیا تھا، جس کا اظہار پوری دنیا نے بھرپور انداز میں کیا اور یہ اظہار جاری ہے اور جاری رہے گا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ایدھی صاحب کی زندگی، عمل سے تعبیر تھی۔ 8 جولائی 2020 ء کو ایدھی صاحب کی چوتھی برسی کے موقع پر اپنے ریڈیو پروگرام میں، میں نے خصوصی طور پر ایدھی صاحب کی شخصیت اور خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا اور اپنا پورا پروگرام اسی حوالے سے ترتیب دیا، جس میں ہزاروں سننے والوں کی جانب سے ان کے لیے محبت کا والہانہ اظہار کیا گیا، جس کی ایک جھلک آپ کے ساتھ بھی بانٹنا چاہتا ہوں۔

ویسے تو ہر دل میں ایدھی صاحب جیسی شخصیت کے لیے محبت اور عقیدت کا ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہے، لیکن جس بیپناہ عقیدت کا اظہار، ”یوم ایدھی“ پر میں نے اپنے سامعین کے کلمات کے توسط سے ان کے پیغامات میں محسوس کیا، اس کو کہیں نہ کہیں قلمبند کر کے ان کی دیرپائی کو یقینی بنانے کا دل چاہا، لہذا ان بے شمار پیغامات میں سے چند یہاں درج کر کے ریکارڈ کا حصہ بنانا چاہتا ہوں، کہ اس قوم کا ایک عام فرد ایدھی صاحب سے کس طرح غیر مشروط عقیدت رکھتا ہے۔

عام لوگوں کے ان مختصر لیکن انتہائی اہم پیغامات کو اپنی نوشت کے ذریعے آپ تک پہنچانے کا مقصد، ان گنت لوگوں کے ایدھی صاحب کے بارے میں احساسات اور جذبات کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ صرف بڑے لوگوں کے رسمی بیانات ہی اخبارات کی زینت کیوں بنیں! ؟ ایدھی صاحب جیسے صوفی منش، انسان دوست درویش کے جانے پر عام لوگ آج تک کتنے دکھی ہیں، یہ بھی تاریخ کا حصہ بننا چاہیے۔

میری ایک سامعہ، ڈاکٹر زینت اسد کے مطابق ایدھی صاحب، ایک جنت سے نکل کر دوسری جنت میں چلے گئے ہیں۔ وہ ہمیشہ ہمارے دلوں اور ذہنوں میں رہیں گے۔ وہ ایک سچے انسان پرست تھے۔ کراچی کے منیر صاحب ایدھی صاحب کو سلام پیش کرتے ہیں تو بدین کے ڈی۔ ایم۔ مہاراج یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ پاک ہمارے ہر گھر میں ایدھی صاحب جیسا ایک انسان پیدا کردے، تاکہ غربت و افلاس کے ساتھ ساتھ اس ملک سے کرپشن کا بھی خاتمہ ہو جائے۔ منگھوپیر کراچی کے عبدالشکور صاحب، ایدھی صاحب کی قبر کے منور ہونے کی دعا کرتے ہیں، تو حیدرآباد کی ڈاکٹر ثمینہ تبسم کہتی ہیں کہ سب لوگ عبدالستار ایدھی نہیں بن سکتے۔

یہ اللہ کی دین ہے۔ اگر ہر کوئی ایدھی بن جائے، تو یہ دنیا بلاشبہ جنت بن جائے۔ انہوں نے یہ بھی دعا کی کہ اللہ کرے ہم ایدھی صاحب کے نقش قدم پر چلیں۔ ماڑی پور کراچی میں رہنے والی نوجوان طالبہ عائشہ غلام احمد جس کا نی کہتی ہیں کہ ایدھی صاحب ایک شخص نہیں بلکہ پوری انسانیت تھے، جن کے بچھڑنے سے پوری انسانیت یتیم ہو گئی ہے۔ یتیم لوگ، جن کی کفالت انہوں نے کی، وہ دوبارہ یتیم ہو گئے ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی وہ ہمارے درمیان دکھ، درد اور نیک کاموں کے حوالوں کے ذریعے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

فیڈرل بی ایریا کراچی کے وسیم میمن، ایدھی صاحب کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ایک درخت سے بے شمار شاخیں نکلی ہیں۔ آج ملک بھر میں سماجی خدمت کے جتنے بھی کام ہو رہے ہیں، وہ سب ایدھی صاحب ہی کے کام کی تقلید ہیں۔ ماڑی پور کراچی کے ڈاکٹر فقیر محمد کہتے ہیں کہ لاوارثوں کا وارث، بے سہاروں کا سہارا بچھڑ گیا، جس کا نام رہتی دنیا تک لوگوں کے دلوں میں یاد اور زندہ رہے گا۔ ابراہیم حیدری کراچی کی مکین، نسیمہ ایوب کے مطابق ایدھی صاحب، انسانیت کے خادم اور ’بابائے خدمت‘ تھے، جو یقیناً جنت کے حقدار ہیں۔

کوئٹہ کی مہیکان رند نے اپنے رنج کا اظہار کیا تو عاشی کوہاٹی نے ان ’حامل ایثار و قربانی‘ کو عقیدت بھرا سلام پیش کیا۔ کراچی کی قمر جہاں نے ان کو پاکستان کا مضبوط ستون قرار دیا اور ان کے بلند درجات کی دعا کی، تو مدھو گوٹھ کراچی سے چھٹا بلوچ نے ایدھی صاحب کو پاکستان سمیت دنیا کا اثاثہ قرار دیا۔ پاکپتن کے شفقت جوئیا نے ایدھی صاحب کو خراج عقیدت پیش کیا تو حیدرآباد کے طفیل احمد گھلو نے ایدھی صاحب کے لیے بابا بلھے شاہؒ کی یہ سطر نذر کی:

”وے بلھیا! اساں مرنا ناہیں، گور گیا کوئی ہور“
(ترجمہ: ”ہم نے نہیں مرنا۔ جو ہمارے روپ میں قبر میں مدفون ہوا، وہ ہم نہیں، کوئی اور ہے۔“ )
کراچی کی وقارالنساء فاروقی ”شاہین“ نے ایدھی صاحب کو یہ شعر نذر کیا:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

حیدرآباد کے منصور زید نے ایدھی صاحب کے بچھڑنے کو اس ملک کے باپ کے بچھڑ جانے سے تشبیہ دی، تو کراچی کی ناجیہ خان نے کہا کہ ہمارا فخر ہم سے جدا ہو گیا۔ نارتھ ناظم آباد کراچی سے ارشاد تبسم نے ایدھی صاحب کو سلام پیش کیا، تو میرپور خاص کے قریب گوٹھ میر شیر محمد خان تالپور سے میر الہیار خان تالپور نے اس بات کا اظہار کیا کہ ایدھی صاحب جیسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ کراچی سے انیس قاضی نے ان کی روح کی مغفرت کی دعا کی تو مٹھی (تھرپارکر) سے اندر لعل لالوانی نے ایدھی صاحب کے بچھڑنے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔

کورنگی کراچی سے افتخار محمود قمر نے ایدھی صاحب کو اچھائی کا دوسرا نام کہا اور کہا کہ ان کا نام کبھی مٹ نہیں سکتا۔ گلستان جوہر کراچی سے عروسہ طیب نے ایدھی صاحب کو عظیم شخصیت قرار دیتے ہوئے ان کے بچھڑنے کو قوم کی یتیمی سے تعبیر کیا۔ کراچی سے سلیمان بلوچ نے ایدھی صاحب کی وفات کو قومی المیہ قرار دیا، جبکہ لطیف آباد حیدرآباد کے رہنے والے شاہد انصاری نے کہا کہ ایدھی صاحب کا نعم البدل ہرگز نہیں مل سکتا، پھر بھی قوم کو دیگر ایدھی بنانے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے۔ عبدالکریم گوپانگ اور احمد گوپانگ نے اس عظیم شخصیت کو خراج تحسین پیش کیا، تو نوابشاہ سے غلام حیدر چانڈیو نے ایدھی صاحب کو اس شعر سے خراج پیش کیا:

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

نوابشاہ سے استاد حسین بخش شاہانی نے اللہ کی مخلوق کی خدمت کرنے والے کو، خود اللہ کی خدمت کرنے والا قرار دیا اور کہا کہ مذہب تسبیح اور مصلے کی خدمت سے زیادہ عوام کی خدمت پر زور دیتا ہے، جس کا عملی اور مجسم اظہار، ایدھی صاحب تھے۔ ضلع جامشورو میں واقع شہر ”سن“ سے رجب علی کھوسو، ایدھی صاحب کے بارے میں کہتے ہیں کہ ایسے لوگ کبھی مرتے نہیں، ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ میرپورخاص کی مکین، ایس۔ جے۔ ایدھی صاحب کو عظیم انسان کہتے ہوئے سمجھتی ہیں کہ ان کی خدمات کی نظیر ملنا مشکل ہے۔

گلستان جوہر کراچی کی تہریمہ کہتی ہیں کہ ایدھی صاحب کو نوبل پرائز کی ضرور ت نہیں، بلکہ نوبل پرائز کی یہ ضرورت ہے کہ وہ ایدھی صاحب جیسی شخصیات کو مل کر اپنی قدر بڑھائے۔ کورنگی کراچی کے مقیم، دادا مشتاق، ایدھی صاحب کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں، جبکہ کورنگی ہی کی شگفتہ اسلم پرویز، ایدھی صاحب کی عظمت کو سلام پیش کرتی ہیں۔ لیاقت آباد کراچی کے جلیل احمد اشرفی کہتے ہیں کہ ایدھی صاحب کی صورت میں اللہ نے ہمیں ایک انمول ہیرا عطا کیا، جس پر دنیا رشک کرتی ہے۔

حب چوکی بلوچستان کے صاحب خان، ایدھی صاحب کے جنت میں آرامی ہونے کی دعا کرتے ہیں۔ کراچی کے عبدالمتین کہتے ہیں کہ میں نے چھٹی کلاس میں ایدھی صاحب کے حوالے سے سبق پڑھا تھا۔ اسی دن سے دل میں ان کے لیے عقیدت ہے۔ کوٹری سے ماہوش اور حمیرا، ایدھی صاحب کے بچھڑنے کو پوری قوم کا دکھ قرار دیتی ہیں اور ایدھی صاحب کو ”فخر پاکستان“ اور ”پاکستان کی پہچان“ قرار دیتی ہیں۔ بدین کے دیرینہ سامع، نانا مشتاق، ایدھی صاحب کی نماز جنازہ میں پاکستان کی اہم قیادت کی شرکت کو ایدھی صاحب کی عظمت سے تعبیر کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کی خدمات نے ستائش پائی اور ہرگز ضائع نہیں گئیں۔

لٹھ بستی کراچی کے علی جت اور نذیر احمد جت، ایدھی صاحب کو عظیم انسان کہتے ہیں، جبکہ ملیر کراچی کے محمد آصف اور مرید ملاح، ایدھی صاحب کی وفات کو پاکستانیوں کے سروں سے باپ کے سائے چھن جانے سے تشبیہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے بلا لالچ و حرص و ہوس اور بلا تفریق رنگ و نسل، ہر کسی کو گلے لگایا۔ بدین کے نور محمد منگریو، ایدھی صاحب کو ”رول ماڈل“ کہتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان کی زندگی ہم سب کے لیے مثال اور کامیابی کا مجسم تھی۔

حاجی رحیم خان جوکھیہ ولیج، نزد ماڈل کالونی، ملیر کراچی کے غلام سرور جوکھیو کہتے ہیں کہ ایدھی صاحب نعروں اور نام نہاد تبدیلی پر نہیں، بلکہ عمل پر یقین رکھتے تھے۔ ہمیں سیاست میں بھی ان جیسے کرداروں (رہنماؤں ) کی ضرورت ہے۔ گوٹھ مٹھو شاہ ترائی کے اسد صدیق شاہ، ایدھی صاحب کو عظیم انسان کہتے ہیں، جبکہ کراچی کے عبدالجلیل ان کو خدمت خلق کا دوسرا نام کہتے ہیں۔ نوابشاہ کی رانی بلوچ کہتی ہیں کہ ایدھی صاحب جیسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔

کراچی کی نمرہ، یسرہ اورمبشرہ، ایدھی صاحب کے بچھڑنے والے دن ( 8 جولائی) کو ہر برس غم کا دن قرار دیتی ہیں۔ ڈاکٹر سلمان کہتے ہیں کہ ایدھی صاحب کی تعریف میں کچھ بھی کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ جیکب لائنز کراچی کے طارق اقبال، اس انسانیت کی عظمت کے علمبردار اور صداقت کے پیکر کو خود سمیت پوری قوم کی جانب سے سلام پیش کرتے ہیں۔ ایس۔ آر۔ احمد کہتے ہیں کہ ایدھی صاحب جیسے فرشتہ صفت انسان کے آگے عظمتوں کے تمام تر حوالے پست نظر آتے ہیں۔

لطیف آباد حیدرآباد کے شاہد انصاری کہتے ہیں کے اب کوئی دوسرا ایدھی ہمیں میسر نہیں ہو سکتا۔ سانگھڑ کے لال خان خاصخیلی، وسیم رحمانی اور راجہ پیر بخش خاصخیلی کہتے ہیں کہ ایدھی صاحب کی وفات سے ہر شخص آج تک مغموم ہے۔ دعا ہے کہ ان کا نیک مقصد قیامت تک جاری رہے۔ کھپرو کے عاجز کھوکھر اور پرکاش کمار کہتے ہیں کہ ایدھی صاحب جیسے انسانوں کا کسی ملک میں پیدا ہونا اس ملک کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں ہوتا۔ یہ ہماری خوشقسمتی ہے کہ ایدھی صاحب ہمیں ملے، مگر اگر ہم اس امر کو سمجھ پائیں۔

شاہ فیصل کالونی کی لبنیٰ رشید کہتی ہیں کہ ایک زندگی میں اتنا کچھ کرنا ہی نا ممکن ہے، جتنا ایدھی صاحب نے کیا۔ اور اس پر ان کی انسانی عظمت کی انتہا یہ کہ انہوں نے اپنی آنکھیں تک عطیہ کر کے بعد از مرگ بھی خدمت خلق کو جاری رکھنے کی عظیم مثال چھوڑی، جو ان کو ہمیشہ زندہ رکھے گی۔ نوابشاہ کے قریب واقع شہر ”بوچھیری“ کے گل بیگ زرداری اور محرم جان بروہی، ایدھی صاحب کی عظمتوں کو سلام تحسین پیش کرتے ہیں۔ جاوید کہتے ہیں کہ پاکستانی قوم کو ایدھی صاحب کے بچھڑنے کا دن، یعنی 8 جولائی، ہمیشہ ان کی یاد کے حوالے سے گزارنا چاہیے۔

کراچی کی ثانیہ علی، ایدھی صاحب کو ”قوم کا ہیرو“ کہتی ہیں، جبکہ کراچی کی قمر جہاں، ایدھی صاحب کی لاتعداد قربانیوں، خدمات اور سادگی کو ہزاروں سلام پیش کرتی ہیں۔ کورنگی کراچی کی نمرہ اریج، ایدھی صاحب کو ایک آغوش سے تشبیہ دیتی ہیں، اور ان کی موجودگی کو پوری قوم کے لیے سکون کا باعث قرار دیتی ہیں۔ کراچی کی عائشہ یحییٰ نے ہمارے ریڈیو کی جانب سے نشر ہونے والی ایدھی صاحب کی آواز کو سن کر اپنے غم کو بڑھتا ہوا محسوس کیا اور اس کا اظہار کیا۔

پپری ویسٹ کراچی کے شبیر حسین، ایدھی صاحب کے جانے کو قوم کی یتیمی سے تعبیر کرتے ہیں۔ لاہور کے حبیب احمد کہتے ہیں کہ ہمیں ایدھی صاحب کے لیے جنت سے بڑھ کر کچھ مانگنا چاہیے۔ کراچی کے عبدالستار کھتری اور پی آئی بی کالونی کراچی کے انور راٹھور، ایدھی صاحب کی عظمت کا اقرار کرتے ہوئے انہیں ”خادم انسانیت“ کہتے ہیں۔ حیدرآباد کی یاسمین کہتی ہیں کہ ایدھی صاحب کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔ ایدھی صاحب جیسی شخصیات کے لیے جنت مانگنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ ایسے لوگ دنیا میں ہی اپنے لیے جنت حاصل کر لیتے ہیں۔

ان تمام اور ان جیسے لاکھوں، کروڑوں دلوں میں محبت کے ڈیرے جمانے والے عبدالستار ایدھی صاحب، آنے والی نسلوں تک انسانی خدمت کی اعلیٰ اور امتیازی مثال بنے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کی منازل فردا آسان فرمائے اور اس قوم میں ایسے اور ایدھی پیدا کرے۔ (آمین! )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments