آیا صوفیہ جامعی


جیسے ہی آیا صوفیہ پر نگاہ پڑی،کیمسٹری کے ایک بزرگ استاد یاد آگئے۔ نام تو ذہن میں نہیں لیکن وہ بڑے باکمال بزرگ تھے۔ ان کی خدمت میں جب بھی حاضر ہوئے، کوئی نہ کوئی بات سیکھ کرہی نکلے۔

ایک روز انھوں نے بتایا کہ یہ جو بارہ مہنیوں کا کیلنڈر ہے، اس میں بڑی خرابی ہے۔کسی مہینے کے دن برابر نہیں۔ پوچھیں کہ ایساکیوں ہے تو عقل کا کوئی جواب نہیں ملتا: ’’پھر اس کا حل کیا ہے؟‘‘فرمایا کہ دس مہینوں کا سال اور ہر مہینے کے دن برابر۔ عرض کیا کہ اتنا بڑا کام کون کرے گا؟۔ لو، یہ کون سی بڑی بات ہے، یہ کہتے ہوئے انھوں نے تکیے کے نیچے ہاتھ ڈالا اور ایک کاغذ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ میں یہ کام کر چکا ہوں۔پروفیسر صاحب نماز کے بڑے پابند تھے۔تکیے کے نیچے سے جا نماز نکالتے اور دو چار رکعتیں ادا کرکے دوبارہ باتیں شروع کر دیتے۔ ایک بار انھوں نے میرے سامنے بھی نماز ادا کی ، میں جانماز کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔

نئے نکور جا نماز کے ایک طرف خانہ کعبہ کی چمکتی ہوئی تصویر تھی اور دوسری طرف کا ڈیزائن صاف دکھائی دیتا تھا کہ کوشش کرکے خراب کر دیا گیا ہے۔ دیکھنے کے انداز سے انھیں میری حیرت کا اندازہ ہو گیا۔جا نماز تہہ کرکے میری طرف بڑھائی اور کہاکہ دوسری تصویرتم سمجھتے ہو کہ مسجد نبوی کی تصویر ہوگی؟ اس سے قبل کہ میں کوئی جواب دیتا، انھوں سے سختی سے کہا کہ ہر گز نہیں۔ یہ آیا صوفیہ ہے اور یہ کوئی مسجد نہیں گرجا ہے۔یہ پہلی بار تھی جب آیا صوفیہ کا ایسا دلچسپ تعارف میرے سامنے آیا۔ اس واقعے کے کئی برس کے بعدمیں استنبول میں تھا اورآیا صوفیہ میرے سامنے تھا۔

میں نے سر اٹھا کر اس کے صدر دروازے پر نگاہ ڈالی اور تیر کی طرح بھاگا۔ دروازے کے قریب پہنچ کر چوکاٹھ کو چھوا، دل سے اس کا بوسا لیا اور احتراماً کھڑا ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس دروازے کی تعمیر میں وہی لکڑی استعمال کی گئی ہے جس سے حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی کشتی تیار کی تھی۔

حضرت نوح ؑ کی کشتی اگر نہ ہوتی تو آج انسانی تہذیب کہاں کھڑی ہوتی؟ایک سوال ذہن میں سرسرایا۔ اس کے ساتھ ہی بر و بحر کو برابر کر دینے والے طوفان کی غضب ناکی میں ہچکولے کھاتی ہوئی کشتی کی شبیہ اتر آئی۔ اس عجیب و غریب بحری سفر کے مناظر ابھی لوحِ خیال پر اترے ہی تھے کہ یہ مسافر سیاحوں کے ریلے میں بہتا ہوا معبد کے عین وسط میں جاپہنچا جہاں عقیدت سے بھیگی ہوئی بیبیاں اشک مریم  ؑ سے دامن مراد بھرنے کی کوشش میں بے چین ہوئی جاتی تھیں۔

روایت ہے کہ کسی اذیت اورتکلیف کی وجہ سے حضرت مریم علیہاالسلام کے آنسو بے اختیار بہہ کر اس مقام پر گرے جس کی نمی آج تک محسوس کی جاتی ہے جس خوش نصیب کی انگلیاں اس آب ِپاکیزہ سے نم ہو جائیں، اس کی گودہری ہو جاتی ہے، بیماریوں سے نجات مل جاتی ہے اور دل میں انگڑائیاں لیتی ہوئی آرزوئیں پوری ہوجاتی ہیں۔جانے یہ نمی کہاں سے آتی ہے اوردکھے ہوئے دلوں پر اطمینا ن کی بارش برسا دیتی ہے؟غالبؔ کو اس ستون نم نیدہ کی خبر ہوتی تو ممکن ہے ، دنیا ان کے اس شاہ کار شعر سے محروم رہتی جس میں انھوں نے بڑی حسرت کے ساتھ آرزو کی تھی کہ ابن مریم ہوا کرے کوئی۔ سنگی ستون ، اس میں نصب زردی مائل گول پتھر اور اس کی تفصیلات کو میں نے سلام کیا اور آگے بڑھ گیا۔

کیایہ شام طویل ہوتی جائے گی اور کیا انسانی تصورات(Myth)، عقیدے اور تاریخ کے تال میل سے بننے والے اس معبد کے تمام مناظر میری آنکھوں میں سما سکیں گے؟ یہ سوال تو بڑی معصومیت کے ساتھ دل کے کسی نہاں خانے سے اٹھا تھا لیکن خارجہ تعلقات کے ٹھوس حقائق سے دن رات نبرد آزما رہنے والے ہم سفر کے چہرے پر خوب صورت نقش و نگار بنانے والی مسکراہٹ نے بتایا کہ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا۔

وقت کی کمی کے احساس سے جو آزردگی پیدا ہوئی، اس کے زیر اثر میں نے عجائب گھر کے وجود میں آنے سے قبل نصب کیے جانے والے منبر پر نگاہ ڈالی اوربائیں جانب نیم تاریک چوڑی، ڈھلوانی سنگی سیڑھیوں سے ہوتا ہوا دوسری منزل پر جاپہنچا۔ آیا صوفیہ میں یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں سے تاریخ کے وہ سارے مناظر صاف دکھائی دیتے ہیںجو کسی مقناطیس کی طرح دنیا بھر کے عقیدت مندوں کو یہاں کھینچ لاتے ہیں۔

آیا صوفیہ کی محراب، اس کے ماتھے پر موتی کی طرح چمکتی ہوئی حضرت عیسیٰ کی شبیہ اور اس کا گنبد میری آنکھ کی سیدھ میں تھے لیکن میری نگاہ گنبد کے عین اس مقام پر تھی جہاں حضرت خضر علیہ السلام نے کبھی عبادت کی ہوگی۔ حضرت خضر ؑ کی شخصیت بھی خوب ہے جن کے قدوم میمنت لزوم سے اس دنیا کاکون سا گوشہ ہے جو فیض یاب نہیں ہوا۔کہا جاتا ہے کہ اس مقام کی نشان دہی کے لیے گنبد کے درمیان ایک خوب صورت آرائشی مدور(گول فانوس)لٹکا کرتا تھا جو تاریخ کے مد وجذر میں کہیں گم ہوچکا ہے۔

بس، اسی مقام سے میں نے حضرت خضر ؑکی انگلی تھامی اور دل ہی دل میںاُس مقام کی زیارت کی جس کی تعمیر میںحضور اکرمﷺ  کا لعاب مبارک اور خاکِ مکہ شامل ہے۔ مسلمانوں کے حافظے میں تو وہ روایت جگمگا رہی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ جب آنحضرتﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی تو ایران کے قصر شاہی کے کنگورے ڈھے گئے۔ اسی سے ملتا جلتا ایک واقعہ مؤرخ ہنری میتھیوز نے اپنی کتاب ’’Hega Sophia‘‘کے ذیلی باب ’’From the Fifteenth Century to the Present Day‘‘میں لکھا ہے کہ آیا صوفیہ کا ایک گنبد پراسرار طور پر منہدم ہو گیاتھا ، صدیوں جس کی تعمیر ممکن نہ ہو سکی، چناں چہ اس زمانے کے بادشاہ نے ایلچی بھیج کر یہ مسئلہ حضور اکرمﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔

اس درخواست کے جواب میں حضور اکرمﷺ نے اپنا لعاب دہن اور خاکِ مکہ کئی اونٹوں پر لدوا کر ارسال کردی اور ہدایت کی کہ اگر ان کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کیا گیا تو گرے ہوئے گنبد کی تعمیر ممکن ہو جائے گی۔کیا یہ سب ایسا ہی ہے؟ میں یہ سوچتے ہوئے واپس پلٹا۔ نیم تاریک سیڑھیوں پر ایک نوجوان جوڑا سنبھل سنبھل کر اوپر چڑھتا چلا آتا تھا۔

گہری سانولی رنگت اور سیال کوٹ میں بسنے والی مسیحی برادری کا مخصوص پنجابی لہجہ، میں نے کان لگا دیے۔لڑکا کہہ رہا تھا کہ بھلیے لوکے! جانتی بھی ہو کہ یہ عمارت ہزاروں برس سے محفوظ کیوں چلی آتی ہے؟ یہ اس لیے ہے کہ جب اس کی تعمیر کے لیے اینٹیں بنائی گئیں تو ان کی مٹی میں خاص طور پر عرب اور فلسطین سے پیغمبروں کے جسم کی ہڈیاں لا کر ان میں شامل کی گئیں،بھلا اس کے بعد بھی اس پر کوئی آنچ آسکتی ہے؟ یہ سننے کے بعدبھلی لوک مزید محتاط ہو گئی ۔وہ عقیدت سے کبھی دیوار کو ہاتھ لگاتی کبھی کسی سیڑھی پر بیٹھ جاتی ، گویا زندگی بھر کے لیے یہیں کی ہو کر رہ جائے گی، جنید آذر یاد آگئے ۔

ٹپک رہا ہے تقدس سیہ فصیلوں سے

قدیم وقت کی گردش رکی ہے زینے میں

قدم اٹھاتے ہوئے ایسے دل لرزتا ہے

شکستہ سانس لرزتی ہے جیسے سینے میں

شجر و حجر اہم نہیں ہوتے،اہمیت اُن اساطیر کی ہوتی ہے جو نہ جانے کس پراسرار طریقے سے وجود میں آکر لہو کی طرح انسانوں کے جسم و جاں میں دل کی طرح دھڑکتے ہیں، میں نے سوچا۔

تاریخ کی بھول بھلیوں سے گزرنے کے بعدآیا صوفیہ نے اب ایک اور تاریخی سنگ میل عبور کرلیا ہے۔ مسلمانوں کو ایک بار پھر یہاں سر بسجود ہونے کی اجازت مل گئی ہے۔اس کی محراب کے قریب سرخ پلیٹ فارم کے قریب سے گزرتے ہوئے اقبالؒ میرے اندر حلول کر گئے اور میںنے ارطغرل کے کسی الپ کی طرح چاک و چوبند نگہبان سے پوچھا، اس ستون کی اوٹ میں ہو کر دو سجدے کرلوں؟ نگہبان مسکرایا اور کہا کہ نہیں سر، یہ میوزیم ہے۔ آپ کو نماز پڑھنی ہے تو وہ سامنے بائیں جانب راہ داری سے ہوتے ہوئے فلاں جگہ چلے جائیں ۔

اگرکوئی عیسائی ہے تو قریب ہی اسے بھی جائے عبادت مل جائے گی۔’’ اوہ، بیت المقدس کی طرح یہ مقام بھی انسانیت کا ورثہ ہے‘‘،میں نے سوچا۔ مجھے خوشی ہے کہ آیا صوفیہ میں نماز کی اجازت تو دے دی گئی ہے لیکن دیگر مذاہب کے لوگوں کے یہاں آنے پر کوئی پابندی نہیں۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments