ایا صوفیہ میں سجدہ دینے اڈی اڈی جاواں


تو پھر ترکی کی کونسل آف اسٹیٹ نے دس جولائی کو اپنا فیصلہ سنا دیا جو عین طیب اردگان کی توقعات اور وعدے کے مطابق تھا۔ فیصلے کے ٹھیک ایک گھنٹے بعد اس نے بڑی جی داری سے اس کا اعلان بھی کر دیا۔ بین الاقوامی سطح پر اس بارے جتنے بھی تحفظات، خدشات اور تنبیہی انداز اس کے سامنے تھے اس نے انہیں پرکاہ برابر اہمیت نہ دیتے ہوئے یونیسکو کی اس بات کو بھی قطعاً نظرانداز کیا کہ جہاں گود لیے اس اثاثے کی کسی بھی تبدیلی صورت میں اس کے ساتھ مکالمہ اور اس کی رضامندی ضروری تھی۔ پہلے چرچ، پھر مسجد، پھر میوزیم اور ایک بار پھر مسجد بننے والی آیا صوفیہ جو عیسائیوں اور مسلمانوں دونوں کے لیے بڑی مقدس اور اہم ہے۔ اب اس فیصلے کی روشنی میں کیا کسی بڑے جھگڑے کا باعث بنے گی؟

بڑا سنجیدہ قسم کا پہلا ردعمل روسی آرتھوڈوکس چرچ کا سامنے آیا ہے۔ جس کا لب لباب لاکھوں آرتھوڈوکس روسی عیسائیوں کے جذبات کا خیال نہ کرنے کا تھا۔ کچھ ایسے ہی جذبات کا اظہار یورپی یونین نے کیا۔ امریکہ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان کا بیان بھی سامنے ہے کہ ترکی کے فیصلے پر انہیں بھی مایوسی ہوئی ہے۔ یونان تو خیر ہمیشہ سے ہمسائے سے الرجک رہتا ہے۔ اس واقعے پر کیوں نہ بولے گا۔ سائپرس بھی افسردہ ہے۔ خیر سے اردگان بھی کوئی دبنے وبنے والی شے نہیں۔ طعنوں پر اتر آیا تو کچے چٹھے سبھوں کے کھول سکتا ہے۔

اب یہاں کچھ سوال اٹھتے ہیں۔ پہلا تو یہی ہے کہ طیب اردگان کی سیاسی جماعت استنبول میں دوبارہ اپنا بھرپور اثر چاہتی ہے؟ گزشتہ سال کی شکست نے انہیں یہ داؤ کھیلنے پر اکسایا ہے۔ عین ممکن ہے اس میں بھی کچھ حقیقت ہو۔ تاہم چند حقائق پیش نظر رہنے چاہیں اردگان نے استنبول جیسے بڑے شہر کو جو بیسویں صدی کے اختتامی سالوں میں مسائل سے لدا ہوا، گندہ، بے ہنگم پھیلاؤ اور بنیادی سہولتوں سے محروم ایک مسائلستان بنا ہوا تھا۔ اس کی مئیرشپ میں دنیا کا بہترین شہر بنا اور انعام میں پورے ملک کا راج پاٹ اس کے ہاتھوں میں تھا۔ اب یہ کہنا کہ ا س دوران اس نے آیا صوفیہ کو مسجد کے درجے پر کیوں نہ بحال کیا۔

میرے خیال میں استنبول، انقرہ اور دیگر بڑے شہر ماڈرن ہیں۔ مسجدوں سے بھرے ہوئے مگر کھلے ڈلے، آزاد خیال، سیکولر سوچ اور ذہن کے حامل لوگ جو سیکولر ازم میں ہی ترکی ہی بقا سمجھتے ہیں۔ ہاں البتہ دیہی علاقوں خصوصاً ملک کے جنوب مشرقی حصوں میں مذہب کا زور ہے۔ بیشتر حکومتی لوگ مذہبی رحجان رکھتے ہیں مگر عام لوگ ترک کے قائم کردہ سیکولر نظام کی ہی حمایت کرتے ہیں۔ ایسے میں اردگان کے لیے اپنے آپ کو ایک اعتدال پسند لیڈر کے طور پر پیش کرنا بے حد ضروری تھا۔ یوں بھی اندرونی مسائل میں معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا، کردوں کے مسئلے سے نپٹنا اور فوج کو جو قابو سے ہی باہر تھی اس کی حدود میں رکھنا جیسے سنگین مسائل بھی اس کے سامنے تھے۔

ایسے مسائل جو اولین توجہ کے مستحق تھے۔ جہاں پیر جمانا اور اپنا سکہ منوانا مقصود ہو تو کم اہمیت کے واقعات پیچھے چلے جاتے ہیں۔ ویسے صرف میری رائے ہے جو غلط بھی ہو سکتی ہے۔ ترکی کے سفری تجربات کی روشنی نے مجھے بتایا تھا کہ ترکی کے لوگ بہت شعور رکھتے ہیں۔ مغرب کے معاندانہ رویوں کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ اگر عام ترک یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت پر آسٹریا، یونان، ہنگری اور مشرقی یورپ کی شدید مخالفت کے ساتھ جرمنی اور فرانس کے مخالفانہ رویوں سے بھی بخوبی آشنا ہے اورجب وہ بخوبی یہ سمجھتا ہے کہ یورپ اس کی آبادی کے تناسب اور اسلامی تشخص سے خائف ہے جسے یقیناً ترکی کی طاقتور فوج بھی ختم نہ کر سکی تھی۔

اب ایسے میں کہ ترکی تو اپنی آبادی کے بل بوتے پر یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں اکثریت کے ووٹ حاصل کر لے گا۔ تجارتی کوٹے میں زیادہ حصے کا حق دار ٹھہرے گا تو کیا طیب اردگان جیسا زیرک سیاست دان نہیں سمجھتا تھا۔ اس ضمن میں اس کی ان تھک کوششیں سب ناکام ہوئیں۔ پھر جہاں اور جب جس کا زور چلے گا اس نے تو وہ کام کرنا ہے۔

اب آئیے چند دوسرے پہلوؤں پرتقابلی جائزہ ہو جائے ذرا۔

پہلا تو مسجد قرطبہ کا ہی ہے۔ جسے چرچ بنایا گیا۔ جہاں اذان دینی گناہ اور نماز پڑھنا جرم ٹھہرا۔ اب یہ کہا جانا کہ یہ چرچ تھا جس پر مسجد تعمیر ہوئی۔ نہیں یہ صدیوں پہلے گوتھوں کا معبد تھا۔ رومن غالب آئے تو رومیوں کا ٹمپل بنا۔ عیسائیوں نے اسے چرچ بنا لیا اور سینٹ ونسٹ کا نام دیا۔ مسلمانوں نے اسے مسجد میں بدل دیا مگر ایک بات کی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ عبدالرحمن اول نے زورزبردستی نہیں کی۔ سودے بازی ہوئی۔ قیمت نصف ادا ہوئی۔ شہر کے تمام گرجا گھروں کی مرمت اور تعمیر نو کی اجازت بھی ہوئی۔ اور کچھ ایسا ہی سلسلہ دمشق کی امیہ مسجد کے ساتھ ہوا۔

روایت ہے کہ باقاعدہ کیتھڈرل تو چارلس پنجم کے زمانے میں بنا۔ اور جب وہ اس کا افتتاح کرنے آیا تو سکتے کی سی کیفیت میں تھا۔ اس کے جادوئی حسن کا اسے اندازہ ہی نہ تھا۔ اس کے الفاظ بھی تاریخ میں محفوظ ہیں۔ تم لوگوں نے ایک ایسا شاہکار تباہ کر دیا جس کا بدل دنیا میں ممکن نہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ قومیں جب زوال پذیر ہوتی ہیں تو عبادت گاہیں کھنڈر بن جاتی ہیں جن کی بنیادوں پر نئے فاتح اپنی عبادت گاہوں کو کھڑا کرتے ہیں۔ یقیناً اس میں شاید فاتحانہ تسکین کا کوئی پہلو ہو۔ وہ اکیس سالہ جیالا سلطان محمد فاتح بھی تو شہر میں داخلے کے بعد سب سے پہلے اسی کے دروازے پر آکر اترا تھا۔ اذان گونجی تھی اور نماز ادا ہوئی۔ گویا بشارت رسول کی تکمیل ہوئی۔ چار مینار بنے۔ توپ کپی پیلس عثمانی سلاطین کی رہائش گاہ تھی۔ چند قدم کے فاصلے پر نماز کی ادائیگی اسی مسجد میں ہوتی رہی۔ نیلی مسجد بعد میں بنی۔

اب یہ اردگان کا دل جانتا ہے کہ اس سارے قضیے کی آڑ میں اس کے سیاسی عزائم ہیں یا وہ عثمانی سلاطین کی پیروی میں کسی قابل فخر کام سے خود کو تاریخ میں امر کرنا چاہتا ہے۔ تاریخ میں تو بہرحال وہ لکھا جا رہا ہے مگر کسی منفرد کام سے مزید کا تمنائی ہو سکتا ہے۔ عدنان میندریس کی طرح۔ اتاترک کا ساتھی جس نے اقتدار میں آنے کے بعد عصمت انونو کے ترکی زبان میں دی جانے والی اذان کے حکم کو ختم کیا تھا۔ میرے جیسی بے عمل سی مسلمان عورت نے استنبول میں ایمی نونو میں کھڑے جب سامنے مسجد سے مغرب کی اذان کی دلکش آواز سنی تھی تو سارے سریر میں وہ لطیف اور گداز سا ارتعاش محسوس کیا تھا جس نے مجھے اس لڑی میں پروے ہوئے ہونے کا احساس دیا تھا جو مسلم امہ ہے۔ بلا سے کہ ابھی یہ مطعون ہے، ناہنجار ہے اور بڑی ہی بے حس گردانی جاتی ہے مگر دین اور دنیا کا سبق بتاتا ہے کہ خدا دنوں کو قوموں کے درمیان پھیرتا ہے۔ کسی دن اٹھ کھڑی ہوگی انشاء اللہ ایا صوفیہ میں سجدہ دینے کی کسے حسرت نہیں۔ میرے جیسی بڈھی بھی کرونا سے نپٹ کر اڈی اڈی جائے گی۔

تو بہرحال جناب اب اس پر کتنا شوروغوغابرپا ہوتا ہے۔ عالمی میڈیا اس ایشو کو اسلام اور مسیحیت کے درمیان ایک جنگ کے آغاز کا نقطہ قرار دیتا ہے۔ یا خاموشی اختیار کرتا ہے دیکھیں پردہ غیب سے کیا ظہور ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments