بھائی جان گیٹ


کوئی بھی تنازع یا سکینڈل اس وقت تک قبولیت عام یا ذرائع ابلاغ کی توجہ کا حقدار نہیں ٹھہرتا جب تک اس میں ”گیٹ“ کا لفظ نہ شامل کر دیا جائے۔ یہ رجحان ”واٹر گیٹ“ سے امریکہ میں شروع ہوا تھا، ہم غریبوں کو ”میمو گیٹ“ تک انتظار کرنا پڑا۔ بیچ میں وکی لیکس نے ہمارا محاورہ بگاڑنے کی کوشش کی اور چند حلقے (ویسے ”ہلکے“ بھی ٹھیک ہے، اردو اور پنجابی میں ) ”ڈان لیکس“ کی ترویج میں لگ گئے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ ”بھائی جان گیٹ“ کون سی بلا ہے؟ عرض یہ ہے کہ یہ پرویز ہود بھائی اور عمار علی جان کا مخفف ہے، یعنی ”بھائی۔ جان“ ۔ گیٹ اس لیے ہے کہ اچھا خاصہ سکینڈل بن چکا ہے۔ آپ میں سے جو نیک طینت لوگ ذرائع ابلاغ کی آلودگی سے محفوظ ہیں اور نہیں جانتے کہ معاملہ کیا ہے، ان کے لیے مختصراً عرض ہے کہ یہ ”بھائی۔ جان“ حضرات اکثر سماج دشمن سرگرمیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ ہود بھائی جان طبیعات کے پروفیسر ہیں اور نہایت مستقل مزاج قسم کے شخص ہیں۔

کئی مرتبہ متعدد اداروں کی جانب سے خبردار کئیے جانے کے باوجود اپنے شاگردوں کو طبیعات پڑھانے کے علاوہ ان کے ناپختہ اذہان کو مخرب تصورات، جیسا کہ اخلاقیات، سماجی ذمہ داری، مساویانہ ترقی، ماحولیاتی تحفظ، انسانی حقوق، علاقائی تعاون اور عالمی امن وغیرہ سے متعارف کرتے ہیں۔ منافقت کی انتہا دیکھئیے، فزکس کے پروفیسر ہونے کے باوجود بچوں کو ایٹم بم بنانے کے طریقے سکھانے کے بجائے انہیں الٹا بم سے متنفر کرتے ہیں۔

لیکن صاحب قصور صرف ہود بھائی جان کا نہیں۔ جو لوگ انہیں راہ راست پر لانا چاہتے ہیں، وہ بھی نہایت کوڑھ مغز ہیں۔ بھئی اگلے کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاؤ، معاملہ خود ہی سلجھ جائے گا۔ یہ بھائی جان اینڈ کمپنی تو کمزوریوں کا مجموعہ ہیں، ایک لمحے میں ان کی بولتی وغیرہ بند کی جاسکتی ہے۔ آپ انہیں میز پر بٹھائیں اور کوئی معقول پیشکش کریں، یہ فوراً ڈیل کر لیں گے۔ یہ احمق بھی اس درجے کے ہیں کہ پیسے ویسے بھی نہیں خرچ کرنے پڑیں گے، بس آپ ان سے کہہ دیں کہ عسکری ادارے صرف بیرکس تک محدود رہیں گے اور کھاد، دودھ۔ دہی، رہائشی و تجارتی سوسائٹیوں، شادی ہالز وغیرہ کے دھندے سے دستبردار ہوجائیں گے۔ آپ دیکھئیے یہ کس طرح ”موم بتی مافیا“ کو چھوڑ چھاڑ، راتوں رات تائب ہوتے ہیں۔

ہمارے بہت سے مسائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ خیال کی ریل موضوع کی پٹری سے ایسے اترتی ہے جیسے شیخ صاحب کی ٹرین۔ ہم جتنی بار ”بھائی۔ جان“ لکھتے ہیں، ذہن میں ”مہربان، قدردان“ خود بخود گونجنے لگتا ہے۔ بچپن میں جب بھی بس میں سفر کرتے تو منجن اور چورن بیچنے والے کے زور خطابت سے بہت متاثر ہوتے۔ سفر تو ہم اب بھی بس ہی میں کرتے ہیں، مگر افسوس منجن اور چورن بیچنے والے نہ رہے، سب کے سب ٹی وی چینلز پر اینکر بن گئے۔

بس میں تو یہ اپنا سودا خود ہی بیچ لیتے تھے، جب سے ٹی وی پر آئے ہیں، اپنے ساتھ ایک عدد چھوٹو رکھنے لگے ہیں جو انہیں ہر چند جملوں کے بعد کوئی ایسا لقمہ دیتا ہے جس سے انہیں دشنام طرازی اور مغلظات بکنے میں مدد ملے، بعضے بعضے تو فرط جذبات میں چھوٹو ہی کو گالیاں دینے لگتے ہیں۔ بھئی دنیا میں معدودے چند ادارے ایسے ہیں جن میں خود اپنے آپ کو ترقی بھی دی جاسکتی ہے اور مدت ملازمت میں توسیع بھی۔ جرنیل خود کو فیلڈ مارشل قرار دے سکتا ہے اور اینکر ”الو کا پٹھا“ ۔

ایک ”چینکر“ یہ مرکب ہے چورن فروش اور اینکر کا، اپنی چھوٹو پر چلائے کہ ”آج کے دن کی اہمیت معلوم ہے؟“ وہ غریب کان کی نلکی درست کرنے لگی کہ شاید پروگرام پروڈیوسر کوئی ”بوٹی“ (کراچی میں پھرا یا کارتوس کہتے ہیں ) بھیجے، مگر یہ گھوڑے پر سوار ہو چکے تھے اور نسیم حجازی مارکہ تاریخ کی تلوار سونت لی تھی، غرا کر بولے ”آج یوم سقوط غرناطہ ہے۔“ پھر ایک ہی سانس میں کئی سو سالہ ”مسلم“ فتوحات و سلطنتیں گنوا گئے۔ یقین کیجئیے ان کو دیکھ کر اسقاط کے کیا کیا ممکنات ذہن میں آتے ہیں۔ میر کے شعر میں تحریف کرتے روح کانپتی ہے، لیکن چلیں شعر ہی تو ہے، تاریخ کوئی تھوڑا ہی بدل رہے ہیں ہم؛

”وصال ان“ کا خدا نصیب کرے
میر دل چاہتا ہے کیا کیا کچھ

موصوف ”بھائی۔ جان“ کے بارے میں گوہر افشاں ہوئے کہ اول الذکر امریکی سفارت خانے کا ملازم ہے اور آخرالذکر پی۔ ٹی۔ ایم کا کارندہ۔ ان کے اس اعتراض میں ہمیں کچھ وزن محسوس ہوتا ہے۔ بھئی جن سے بھیک، خیرات اور قرضے مانگے جا سکتے ہیں ان کے ہاں ملازمت کرتا اچھا لگتا ہے آدمی؟ رہ گئی بات پی۔ ٹی، ایم کی تو جناب ایک ایسی تنظیم جس پر عدالتیں پابندی عائد کر چکی ہوں، جنہیں ”ریاست دشمنی“ پر اعلیٰ ترین عدالتوں سے سزائیں ہوچکی ہوں، جنہیں اقوام متحدہ دہشت گرد تنظیم قرار دے چکی ہو، اس میں شمولیت کہاں کی حب الوطنی ہے؟

اگر ان میں سے کوئی ایک بھی بیان سچا نہیں تو یہ چینکر صاحب کو اور ان کے چینل کو نہیں سوچنا چاہیے تھا کہ اس سب کی غیر موجودگی میں جان صاحب کو کس بات پر معتوب کیا جا رہا ہے؟ کیا انہوں نے خدا نخواستہ کسی ایسی تنظیم کی حمایت کا اعلان کر دیا کہ جو عرصہ دراز سے ہمارا ”اثاثہ“ قرار دیے جانے کے باوجود ہمارے ہی اسکولوں پر حملہ آور ہو گئی ہو اور ہمارے بچوں کے قتل عام کی مرتکب ہوئی ہو؟ خیر ہم جان صاحب کو اپنے کالم کے ذریعے مزید شہرت نہیں بخشنا چاہتے، وہ ابھی اس دشت کی سیاحی میں نو آموز ہیں، دو چار نوکریوں سے اور نکالے جائیں تو پھر دیکھیں گے۔

ہود بھائی کی بیہودگی کی چند مثالوں کے ساتھ آپ سے اجازت چاہیں گے، موصوف اپنے پبلک لیکچرز میں لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے عجیب و غریب دعوے فرماتے ہیں، مثلاً یہ کہ علامہ اقبال فلسفی نہیں تھے، یا یہ کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے دو قومی نظریہ باطل ہوگیا۔ آپ خود ہی بتائیے، اگر ان کی ایسی فاتر العقل باتیں مان لی جائیں تو ہمارے پاس بچے گا کیا؟ یہ ”بھائی۔ جان“ ٹائپ لوگ؟ اتنے بہت سے ”بگ برادرز“ کے ہوتے ہوئے یہ برادران خورد قسم کے لوگوں سے ہمیں کیا لینا دینا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments