صدارتی نظام کے خواب


نااہل انسان کی بنیادی تعریف یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی حال میں خوش نہیں ہوتا۔ سیاست دستیاب حالات میں بہترین پرفارمنس دینے کو کہتے ہیں۔ جب غیر سیاسی اذہان سیاسی عمل میں اتار دیے جاتے ہیں۔ تو وہ ” ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا ” کے مصداق نظام پر اعتراض کرنے کے علاوہ کوئی پرفارمنس نہیں دے پاتے۔

سیاسی عمل سے ناواقف لوگ دراصل تاریخ کا انکار کرنے والے ہوتے ہیں۔ تاریخ کا انکار بھی وہ جہالت کی وجہ سے کرتے ہیں۔ جب آپ کو نظام اور تاریخ کا شعور نہ ہو تو آپ کسی بھی اڑتی چڑیا کے پیچھے لگ کر اپنا راستہ اور منزل کھوٹی کر سکتے ہیں۔

سچی بات یہ ہے کہ ادارہ جاتی طور پر جس قدر دوستانہ نظام عمران خان کو ملا ہے وہ شاید پاکستان کی تاریخ میں کسی دوسرے وزیر اعظم کو نہیں ملا۔ حتیٰ کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بھی فوج اور عدلیہ کی طرف سے سازشیں ہوتی رہی تھیں۔ مگر عمران خان کو سسٹم نے کم از کم دو سال تک کامل سپورٹ دی ہے۔ سپریم کورٹ نے اس کی ہر غلطی کی جانب سے آنکھیں موند رکھی ہیں۔ فوجی قیادت اس کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی کی مہم جنگ کی طرح لڑ رہی ہے اور دربدر جا کر بھیک مانگ رہی ہے۔

مگر جب ایک ڈرائیور کو ڈرائیونگ ہی نہ آتی ہو اور آپ اسے ہوائی جہاز اڑانے کے لئے کاک پٹ میں بٹھا دیں تو کیسے نتائج نکلیں گے۔ عمران خان ایک ایسا مقتدر اور طاقتور وزیراعظم ہے ہے جسے کابینہ کے چناؤ میں اس کے منتخب اراکین کی جانب سے سب سے کم دباؤ کا سامنا ہے۔ اس نے منتخب ارکان کی بھی پرواہ نہیں کی اور غیر منتخب مشیران کی مدد سے وہ ملک کا نظام چلا رہا ہے۔

بنیادی طور پر عمران خان کے نظام کو صدارتی نظام سے بھی زیادہ کچھ کہا جا سکتا ہے لیکن عملی طور پر یہ پارلیمانی نظام نہیں ہے۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی کے بزرجمہر پارلیمانی جمہوری نظام کو عمران خان کی ناکامی کا بنیادی سبب جتلانے کی مہم میں زور و شور شریک ہیں۔

بنیادی طور پر پاکستان میں صدارتی نظام کے دعوی کے پیچھے خلیفہ یا بادشاہ کا تصور ہے۔ لامتناہی اختیارات کا جنون۔ کسی بھی طرح کی پوچھ گچھ سے آزادی کا جنون۔

یہ بے چارے صدارتی جمہوریت کے تصور سے بالکل ناواقف ہیں۔ سب سے پہلے انہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ ایک وفاقی حکومت میں صدارتی نظام کس طرح سے روبہ عمل آئے گا۔ انہیں یہ غلط فہمی ہے کہ پنجاب کے ووٹوں سے یہ صدر منتخب ہو سکتے ہیں۔

موجودہ پاکستانی وفاق میں جب بھی آپ صدارتی نظام کو نافذ کرنا چاہیں گے تو آپ کو سب صوبوں یا وفاق کے یونٹس کو برابر الیکٹورل وارڈز میں تقسیم کرنا پڑے گا۔ کسی بھی ایسی صورت میں جس میں صرف ایک یونٹ ہمیشہ کے لئے اپنا صدر منتخب کروانے کی پوزیشن میں آ جائے ایسے آئین کی منظوری موجودہ ماحول میں ناممکن ہے۔ اس کے علاوہ جب بھی آپ آئینی طرز حکومت کی تبدیلی کی طرف جائیں گے تو آپ کو آئین میں میں منظور کروانے کے لیے وفاق کے چھوٹے یونٹس کو ماضی کی نسبت زیادہ مراعات دینا پڑیں گی۔ سپریم کورٹ میں پنجابی ججز کی اکثریت کا تجربہ چھوٹے صوبے بخوبی کر چکے ہیں۔ جب بھی آپ کسی آئینی ترمیم کی طرف جائیں گے سب سے پہلے چھوٹے صوبے ہر صوبہ کی الگ سپریم کورٹ اور وفاق کے لیے ایک الگ آزاد اور برابر نشستوں والی وفاقی آئینی عدالت کا مطالبہ کریں گے۔

عرض کرنے کا مقصد ہے کہ یہ خوابوں کی دنیا میں رہنے والے لوگ ہیں۔ یہ نئے آئین کو کس طرح منظور کروائیں گے، کس طرح سے نافذ کریں گے یہ ان کا درد سر ہی نہیں ہے۔ یہ معصوم بے وقوف لوگ ہیں۔ تصورات کی دنیا میں رہنے والے۔ انہیں آرمی چیف کی ایکسٹینشن کا بل منظور کروانے کے لیے آرمی چیف کو اپنی اپوزیشن کے دروازے پر بھکاری بنا کر بھیجنا پڑا تھا۔ اب یہ اتنی بڑی آئینی تبدیلی کیسے کریں گے؟ اس کے لیے اپنی اپوزیشن سے کس طرح کا ڈائیلاگ کریں گے اور اپنی پارٹی کے ارکان کو کس طرح سے راغب کریں گے۔ ان میں سوچنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ عمران خان جس طرح لاف گزاف بڑے بڑے ڈائیلاگ مارتا رہتا ہے فضول گوئی کرتا رہتا ہے نعرے لگاتا رہتا ہے صدارتی نظام کی خواہش بھی محض ایک خواب بن کر رہ جائے گی۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی حکومت ہے جو اپنے بل بوتے پر قائم نہیں ہے بلکہ اپنے مخالفین کی حکومت میں عدم دلچسپی کی وجہ سے قائم ہے۔ حال ہی میں پاس کیے گئے بجٹ سے ثابت ہوا ہے کہ حکومت اقلیتی ووٹوں کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ اس کے باوجود مخالفین عدم اعتماد کی تحریک نہیں پیش کر رہے۔

ان حالات میں حکومت کو شاید خود اندازہ نہیں ہے کہ کسی بھی طرح کا قانون منظور کروانے کے لیے انھیں کس قدر جدوجہد کرنا پڑے گی اور کس قدر قربانیاں دینا پڑیں گی۔ سچ تو یہ ہے کہ عمران خان کا وقت پورا ہو چکا ہے۔ کسی بھی طرح کی آئینی ترمیم کو منظور کروانے کی کوشش یا نظام کی تبدیلی کی کوشش میں وہ ازخود طریقہ سے اقتدار سے محروم ہو جائے گا۔ جو بھی لوگ اسے اس طرح کا مشورہ دے رہے ہیں شاید ان کے پیچھے بھی یہی حکمت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments