عزیر بلوچ جے آئی ٹی کی ٹائمنگ


آج کل عزیر بلوچ، نثار نورائی اور سانحہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کی جے آئی ٹی رپورٹ پبلک ہونے کے بعد سے ایک طوفان برپا ہے۔ یہ سلسلہ شروع ہوا بجٹ پاس ہونے کے اگلے دن بعد جب وفاقی وزیر برائے پورٹ اینڈ شپنگ علی زیدی نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر کچھ کاغذ لہرائے اور پیپلز پارٹی کی قیادت اور خاص طور پر سابق صدر آصف علی زرداری کو لیاری میں بدامنی اور عزیر بلوچ کی پشت پناہی کا مورد الزام ٹھہرایا۔ اسی دن قومی اسمبلی میں جب پیپلز پپارٹی کے نوید قمر کو جواب دینے پر ٹوکا گیا تو انہوں نے اسمبلی میں کوٹ اتار دیا۔

علی زیدی کے بیان کو پیپلز پارٹی نے جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے اصلی جے آئی ٹی جو حکومت سندھ نے تشکیل کی تھی اس کو پبلک کر دیا مگر جو انہوں نے رپورٹ جاری کی اس کے 35 صفحات تھے۔ علی زیدی نے اگلے دن پریس کانفرنس کی اور اپنی کاپی جے آئی ٹی کی میڈیا کو دے دی۔ اس کے 43 صفحات ہیں۔ اب تک یہ بحث چل رہی ہے کہ کون سی رپورٹ اصلی ہے۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ دونوں کے فرانزک آڈٹ کروا لیں اور پتا چل جائے گا کون سی رپورٹ اصلی ہے یا جعلی۔ مگر جے آئی ٹی نے یہ تو بتایا کہ کون کراچی خاص کر کے لیاری میں بد امنی کا ذمہ دار تھا۔

یہ کراچی شہر کی بدقسمتی کہ یہ شہر کئی دہائیوں تک بدامنی کا شکار رہا اور سیاسی جماعتیں اس کی پشت پناہی اپنے مقاصد کے لئے کر رہی تھیں۔ ایم کیو ایم کے عسکری ونگ کو توڑنے کے لئے اس وقت سندھ کے صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے پیپلز امن کمیٹی کی تشکیل اور فنانس کیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ علی زیدی اور حکمران جماعت مرزا صاحب کے اوپر چڑھائی اس لئے نہیں کر رہی ہے کہ وہ اتحادی ہیں؟ دوسرا سوال پی ٹی آئی نے عزیر بلوچ کو اپنی پارٹی میں شمولیت کی دعوت 2014 میں کیوں دی تھی؟

ان سوالوں کے جوابات آپ کو نہیں ملیں گے۔ اور جے آئی ٹیز موجودہ وزیر کو کوئی موٹر سائیکل پر دے گیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر رپورٹ اصلی ہے تو وہ علی زیدی کو کس نے اور کیونکر پہنچائی؟ جمعہ کو وفاقی وزیر برائے مواصلات مراد سعید 164 کا بیان قومی اسمبلی میں سنا گئے۔ یہ حساس معلومات جو اب تک عدالت میں پیش نہیں ہوئیں وہ ان کے پاس کیسے؟

سب سے اہم بات جے آئی ٹی کی ٹائمنگ ہے۔ کچھ دن پہلے حکومت بجٹ منظور کراتے وقت اپنے نمبرز پوری کر رہی تھی اور سادہ اکثریت سے بجٹ منظور نہیں کرا سکی۔ پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری وزیر اعظم کے سخت ناقد ہیں۔ وزیر اعظم اور وزراء ان کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے زیر عتاب ہونے کی وجہ کورونا وبا میں مختلف حکمت عملی کا ہونا ہے۔ دوسری بڑی وجہ آٹھویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کا ہے۔ وہ نئے این ایف سی ایوارڈ کے خلاف اور اٹھارہویں ترمیم کے حق میں ہیں۔

مگر سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کچھ واقفان حال یہ خبر دے رہے ہیں کہ جو مائنس ون کی بازگشت اور اس کے بعد ممکنہ سیٹ اپ میں پیپلز پارٹی اہم رول ادا کر رہی ہے اور حکمران جماعت کے ناراض ارکان، اتحادی اور پیپلز پارٹی کا ہوگا۔ بلاول بھٹو زرداری سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اشارہ کر چکے ہیں اور بلاول کے آج کل سیاسی رابطے بھی عروج پر ہیں۔ مولانا فضل الرحمان اور بلاول ایک موثر سیاسی رول ادا کر رہے ہیں اور اتحادیوں سے رابطہ کر رہے ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے جے آئی ٹی ڈسکس نہیں کی جا رہی۔ نثار مورائی اور عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی کو منظر عام پر لانا اور پیپلز پارٹی کے خلاف محاذ کھولنے کا مقصد پیپلز پارٹی کی ساکھ متاثر کرنا اور حکومت کی خراب کارکردگی سے توجہ ہٹانے کا ذریعہ ہے اور ممکنہ ایک قومی حکومت کی تشکیل کی جو افواہ چل رہی ہے اس کو زائل کرنا اور یہ ایک طرح سے پیغام ہے کہ اپوزیشن جو سمجھ رہی ہے کہ شاید کوئی اور مرکز سے ان کے لئے سافٹ کارنر رکھتا ہے وہ ثابت ہوا کہ نہیں ہے۔ اب یہ پیپلز پارٹی کا امتحان ہے کہ یا وہ اس پریشر کے آگے جھک جائیں یا باتیں مان لیں۔ نہیں مانیں گے تو ابھی کئی مشکلات ان کے آگے کھڑی کی جائیں گی۔ فیصلہ اب پیپلز پارٹی نے کرنا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments