چلو، آگے بڑھو


اس کے والد عبداللطیف قریشی اپنے علاقے کے ایک مشہور موٹر مکینک تھے۔ اس کا تعلق سندھ کے علاقے لاڑکانہ سے ہے جو پیپلز پارٹی کے حوالے سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ ہر ماں، باپ اپنی اولاد کے لیے خواب دیکھتا ہے اور انھیں دنیا و آخرت میں کامیابیاں سمیٹتے اور عزت و شہرت کی بلندیوں پر فائز ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کے والد کے خواب بھی کچھ اسی طرح کے تھے۔ اس کے والد کے پاس افسر اور بڑے لوگ جب گاڑیاں ٹھیک کروانے کے لیے آتے تھے تو ان کے دل میں حسرت پیدا ہوتی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا بھی کوئی بڑا آدمی بنے۔ اپنی انہی خواہشات اور حسرتوں کی تکمیل کے لیے انھوں نے اپنے بیٹے کو کیڈٹ کالج لاڑکانہ میں داخل کروا دیا۔ 2010 میں اس نے ایف ایس سی کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور اسے بہترین طالب علم کا ایوارڈ دیا گیا۔

اس نے آرمی میں کمیشن کے لیے دو بار اپلائی کیا مگر قسمت کی دیوی اس پر مہربان نہیں تھی۔ ہر بار اسے آئی ایس بی ٹیسٹ میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ مگر اس کے عزم و جنون اور جذبہ و ولولہ میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اس کے باپ نے کہہ دیا تھا کہ ”کیا ہوا اگر تم سیکنڈ لیفٹیننٹ سیلیکٹ نہیں ہوئے، دنیا ختم نہیں ہوئی، چلو آگے بڑھو اور سی ایس پی افسر بنو“ لہذا اپنے اور اپنے والد کے خوابوں کی تعبیر کے حصول کے لیے اس نے مہران یونیورسٹی حیدر آباد میں مکینیکل انجینئرنگ میں داخلہ لے لیا۔

لیکن پریشانی یہ ہوئی کہ گھر کے معاشی حالات ناگفتہ بہ تھے کیوں کہ اس کے والد صاحب بیمار رہنے لگے تھے، وہ ذیابیطس کے مرض میں مبتلا تھے جس کی وجہ سے وہ اپنے کام کو ٹائم نہیں دے پاتے تھے۔ اب کاروبار میں مندی آ گئی تھی کیوں کہ گاڑیاں جو مرمت کے لیے آتی تھیں کم ہو گئی تھیں۔ ان حالات میں اس کے بڑے بھائی نے قربانی دی اور تعلیم چھوڑ کر والد کا گیراج سنبھال لیا۔ 2014 میں اس کو بہت بڑا دھچکا لگا جب اس کے رہنما اور شفیق والد اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ 2015 میں اس کی انجینئرنگ کی ڈگری مکمل ہو گئی۔ اب بس اس کا ایک ہی خواب تھا۔ خواب کیا تھا ”بڑا آدمی بننا ہے۔ کچھ کر کے دکھانا ہے ماں باپ کا سر فخر سے بلند کرنا ہے ان کی امنگوں اور خواہشوں کا ترجمان بننا ہے۔“ یہ اب اس کا نصب العین بن چکا تھا اور وہ اسی وجہ سے دن رات بے چین رہتا تھا۔

اس نے سندھ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں مانیٹرنگ اسسٹنٹ کی جاب جوائن کر لی اور ساتھ ساتھ سی ایس ایس کی تیاری بھی کرنے لگا۔ پھر کچھ عرصہ بعد لیکچرار کی ملازمت شروع کر دی لیکن اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے اس نے آخری حد تک جانے کا ارادہ کر لیا تھا۔ اس کے لیے اس نے انتہائی بولڈ مگر خطرناک فیصلہ کیا۔ اس نے لیکچرار کی ملازمت کو باد کہہ دیا۔ اب اس کا سارا فوکس سی ایس ایس کی تیاری پر تھا۔ برادری کے لوگوں کے طعنے، تضحیک اور تبصرے برداشت کیے مگر اپنے جنون پر کمپرومائز نہیں کیا۔

پہلی بار سی ایس ایس کا امتحان دیا مگر کامیابی نہ مل سکی۔ اس کے بعد تو گویا وہ ٹوٹ گیا تھا۔ بہت جگہ اپلائی کیا مگر جاب ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کا مقدر اس سے روٹھ چکا ہے اور اوپر سے شاید لیکچرار والی جاب چھوڑنے کا دکھ اس کے رشتہ داروں کو اس سے بھی زیادہ تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس کی نہیں بلکہ ان کی جاب چلی گئی ہو۔ اس سب کے باوجود اس نے ہمت نہیں ہاری، اپنی تمام قوتوں اور صلاحیتوں کو ازسر نو ترتیب دیا، اپنے آپ کو مضبوط کیا، حقیقی معنوں میں دن رات ایک کر دیا اور آخر کار اپنے خوابوں کو تسخیر کر لیا اور اپنے مقصد اور مشن کو حاصل کر لیا۔ کئی سالوں کی دعاؤں اور مشقت کے بعد 2020 میں اس نے سی ایس ایس کا سنگ میل عبور کر ہی لیا۔

ان لینڈ اینڈ ریونیو کے محکمے میں منتخب ہونے والے زوہیب قریشی کہتے ہیں کہ جس دن اس کو انٹرویو میں کامیابی کی خبر ملی اس دن اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا، سبھی گھر والوں کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو تھے۔ انہیں لگا کہ ان کے بابا کے خواب پورے ہو گئے ہیں۔

یہ صرف زوہیب قریشی کی کہانی نہیں ہے بلکہ ہر کامیاب انسان کی داستان ہے۔ اعلیٰ عہدے پر فائز ہر شخص انتہائی محنت سے اپنے مقام تک پہنچا ہے۔ یہ حالات کا رونا رونے والوں، ناکامیوں سے ہار جانے والوں، مایوس اور نا امید پاکستانیوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے ایک پکار ہے اور خواب دیکھنے والے ہر شخص کے لیے ایک تحریک اور قابل عمل نمونہ ہے۔ بلند ہمتی کے ذریعے ناکامیوں کو اپنی کامیابیوں میں بدلنے والوں کے لیے چراغ راہ اور مینارۂ نور ہے۔

پرخار اور کٹھن راستوں کو عبور کر کے سچی لگن، تڑپ اور جذبے کے ذریعے منزلوں کے حصول کے لیے سب کچھ لٹانے والوں کو امید سحر کا پیغام دیتی یہ محض ایک کہانی نہیں ہے بلکہ یہ ایک راستہ ہے، امید، ہمت، جذبے، امنگ، ترنگ، یقین، اعتماد اور خود پر بھروسے کا، جو ہر پاکستانی کو اس کے خوابوں کی تعبیر دیتا ہے، جو پسے ہوئے اور درماندہ و پسماندہ طبقے سے اٹھ کر عظمت و شہرت کی بلندیوں تک پہنچنے میں اس کی رہنمائی کرتا ہے۔ اور راستہ ایک ہی ہے ”محنت، محنت اور صرف محنت۔“ اسی کے ذریعے قوموں کی ترقی ممکن ہے۔

رستہ ہے پرخار تو کیا
چلنا ہے دشوار تو کیا
آگے ہے دیوار تو کیا
دیواروں کو ڈھانا ہے
ہم کو آگے جانا ہے
اپنی منزل پانا ہے

جناب عطا عابدی صاحب کے یہ اشعار ہر باضمیر، باشعور و باہمت شخص کے لیے ہیں جو منزلوں کے حصول کی جدوجہد میں زمانے کے گرم و سرد تھپیڑوں سے برسر پیکار ہے، جس کا عزم چٹانوں سے زیادہ مضبوط اور جذبہ کندن سے زیادہ خالص ہے۔ جو تھکا نہیں ہے بلکہ ڈٹا ہوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments