مذہب، جنس اور نفسیات


انسانی بچہ جس خاندان، سکول اور معاشرے میں پلتا بڑھتا ہے اس ماحول کی روایتیں اور رویے اپنے اندر ایک اسفنج کی طرح جذب کرتا چلا جاتا ہے۔ یہ رویے اور روایتیں اس کی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

اگر ایک بچہ ایک روایتی مذہبی ماحول میں تربیت پاتا ہے تو عین ممکن ہے اسے مذہبی اعتقادات بھی وراثت میں ملیں اور وہ ان نظریات کو بھی بغیر سوچے سمجھے اپنی شخصیت کا حصہ بنا لے۔
جب بچہ جوان ہوتا ہے تو اس کے جسم، دماغ، اور ذہن میں اہم تبدیلیاں آنی شروع ہو جاتی ہیں۔ لڑکیوں کو حیض آنا شروع ہو جاتا ہے اور لڑکوں کو شہوانی خواب آنے لگتے ہیں۔

میں پاکستان میں بہت سے ایسے لڑکوں اور لڑکیوں سے ملا ہوں جنہیں کسی نے کوئی جنسی تعلیم نہیں دی تھی۔ جب لڑکیوں کو حیض آنے لگا تو وہ سمجھیں کہ وہ بیمار ہیں۔ انہیں احساس ندامت نے آ گھیرا۔ بعض سمجھیں وہ مر رہی ہیں۔ چند دن بعد جب خون آنا بند ہو گیا تو انہیں کچھ سکون آیا لیکن اگلے ماہ پھر وہی پریشانی۔

میں ایسے لڑکوں سے بھی ملا ہوں جو شہوانی جذبات کی وجہ سے احساس گناہ کا شکار ہو گئے۔
نوجوانی میں جنس مخالف میں دلچسپی ایک فطری جذبہ ہے لیکن اگر فطری جذبوں کو قبول نہ کیا جائے تو وہ غیر فطری راستے اختیار کر لیتے ہیں اور انسان نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔

نوجوانی میں بچے اپنے نظریات اور اعتقادات کو تنقیدی نگاہ سے دیکھنا سیکھتے ہیں۔ وہ اپنے والدین اور اساتذہ سے بہت سے سوال کرتے ہیں۔ لیکن اگر سوال کرنے کو بے ادبی اور گستاخی سمجھا جائے تو وہ نوجوان یا تو اپنے اعتقادات پر اندھا ایمان لے آتے ہیں اور یا باغی بن جاتے ہیں۔

ایک روایتی اور مذہبی ماحول میں جب نوجوانوں کو سوال پوچھنے اور جنسی جذبات کے اظہار کا موقع نہیں ملتا تو وہ احساس ندامت اور احساس گناہ کے ساتھ ساتھ نفسیاتی اور سماجی مسائل کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔
سگمنڈ فرائڈ نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں کئی ایسی ہسٹیریا کی مریضاؤں کا علاج کیا جو جنسی نا آسودگی کی وجہ سے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوئی تھیں۔

جب ہم ان مریضوں کی کہانیاں سنتے اور پڑھتے ہیں جو پاگل پن کا شکار ہو گئے تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں سے اکثر نوجوانی میں ذہنی بحران کا شکار ہوئے تھے۔

میں نے ایک ماہر نفسیات ہونے کے ناتے اپنی تیس سالہ پیشہ ورانہ زندگی میں تین مینٹل ہسپتالوں میں کام کیا اور بیسیوں شیزو فرینیا کے مریضوں کا علاج کیا۔ مجھے یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ شیزو فرینیا کے بہت سے مریضوں کی delusions and hallucinations کا تعلق یا مذہب سے تھا یا جنس سے۔

ایک مریضہ یہ سمجھتی تھی کہ وہ باکرہ مریم ہے
ایک مریض یہ یقین رکھتا تھا کہ وہ ابن مریم ہے
ایک مریضہ یہ باور کرتی تھی کہ وہ طوائف ہے
ایک مرد یہ موقف رکھتا تھا کہ وہ ہم جنس پرست ہے

ان شیزو فرینیا کے مریضوں کو جو خداؤں اور فرشتوں کی غیبی آوازیں سنائی دیتی تھیں ان کا تعلق بھی مذہب اور جنس سے تھا۔
ذہنی مریضوں کی یہ علامات اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہیں کہ وہ مریض شدید مذہبی اور جنسی تضادات کا شکار ہیں۔

پشاور میں جب میں ماہر نفسیات ڈاکٹر احمد علی کے کلینک میں کام کرتا تھا تو میری ملاقات ایک ایسے شیزو فرینیا کے مریض سے ہوئی جو عالم دیوانگی میں سمجھتا تھا کہ وہ ابراہیم نبی ہے اور اسے اپنے بیٹے کو قربان کرنا ہے۔ ہم نے مریض کی بیوی سے کہا کہ وہ اپنے بیٹے کو اپنے گاؤں لے جائے جب تک کہ مریض علاج سے صحتمند نہ ہو جائے۔

مینٹل ہسپتال کے ان مریضوں کا علاج روایتی ڈاکٹر ادویات سے کرتے ہیں لیکن میں ان مریضوں کا علاج ادویات کے ساتھ ساتھ تھراپی سے بھی کرتا تھا۔ تھراپی کے دوران مجھے اندازہ ہوا کہ ایسے مریض مذہب اور جنس کے حوالے سے نوجوانی میں اس قدر احساس ندامت اور احساس گناہ کا شکار ہوئے کہ وہ شدید نفسیاتی مسائل اور ذہنی بحران کا شکار ہو گئے۔

میں نے جب تھراپی میں انہیں بتایا کہ مذہبی عقائد کو تنقیدی نگاہ سے دیکھنا اور مشت زنی سے جنسی جذبات کا اظہار کرنا ایک فطری عمل ہے تو ان کے احساس گناہ میں کمی آتی گئی اور وہ دھیرے دھیرے صحتمند ہوتے گئے۔

میں نے یہ بھی محسوس کیا ہے کہ بعض دفعہ وہ نوجوان جو اپنے جنسی جذبات کا صحتمند طریقے سے اظہار نہیں سیکھتے شدت پسندی اور جارحیت کا اظہار کرتے ہیں۔ بعض غصہ، نفرت، تلخی اور چڑچڑے پن کا شکار ہو جاتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑنے جھگڑنے لگتے ہیں۔ ماہرین نفسیات جانتے ہیں کہ جنس اور جارحیت کا نفسیاتی رشتہ بہت پیچیدہ گنجلک اور پراسرار ہے۔

بعض نوجوانوں کو اپنے ماحول میں مثبت رول ماڈل نہیں ملتے۔

میری نگاہ میں بچوں اور نوجوانوں کی صحتمند شخصیت کے لیے ضروری ہے کہ ان کے والدین اور اساتذہ محبت کرنے والے اور شفیق ہوں تا کہ بچے اور شاگرد ان سے دل کی باتیں کر سکیں اور بغیر کسی خوف کے ان سے سوال پوچھ سکیں۔

ایک صحتمند نوجوان نہ صرف تنقیدی سوچ رکھتا ہے اور مدلل بات کرتا ہے بلکہ آہستہ آہستہ صاحب الرائے بھی بن جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو وہ نوجوان ایف اے۔ بی اے۔ اور ایم اے کرنے اور بیسیوں کتابیں پڑھنے کے بعد بھی ذہنی طور پر نابالغ ہی رہتا ہے اور بہت سے نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اپنی زندگی کے مسائل کا حقیقت پسندانہ حل تلاش نہیں کر پاتا۔ وہ اپنے مسائل کا جتنا سلجھانا چاہتا ہے وہ اور الجھ جاتے ہیں۔

مغرب میں تو نوجوان مرد اور عورتیں جب نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں تو کسی ماہر نفسیات سے رجوع کرتے ہیں لیکن بہت سے مشرقی اور مسلم ممالک میں وہ نفسیاتی مسائل کے لیے بھی ماہر نفسیات سے رجوع کرنے کی بجائے کسی مزار پر جا کر کسی پیر فقیر سے رجوع کرتے ہیں جو ان کا گنڈا تعویز سے علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ایسے علاج سے
؎ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments