علامہ اقبالؒ کی آواز


علامہ اقبالؒ وہ خوش نصیب شاعر ہیں جنھیں ہر دور میں قبول عام حاصل رہا ہے۔ علامہ کو بے شمار عشاق کے ساتھ لا تعداد حاسدین اور منافقین سے بھی واسطہ رہا ہے، جو بظاہر تو اقبالؒ کے محققین کا روپ دھار لیتے ہیں مگر کہیں نہ کہیں دودھ میں مینگنیاں ڈالنا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور سادہ لوح ذہنوں میں Slow poisoning کرتے رہتے ہیں۔ لیکن بعض عاشق ایسے بھی ہیں جو مطالعہ کے فقدان کے باعث ہر شعر کو اقبالؒ سے منسوب کر دیتے ہیں ان کے نزدیک اقبالؒ کے علاوہ اور کوئی شاعر ہی نہیں ہے جن کی تصحیح اقبالیات کے طالب علم اکثر کرتے رہتے ہیں۔

اقبالؒ کے عشاق اپنے محبوب شاعر کی آواز سننے کے لیے ہمیشہ بے تاب رہے ہیں اس ضمن میں مختلف نوسر باز ان کے جذبات سے کھیلنے کے لیے علامہ کے نام سے مختلف آڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کرتے رہتے ہیں۔ آج کل بدقسمتی سے ایک ایسی ہی آڈیو ریکارڈنگ علامہ اقبالؒ کے نام سے پھر سے وائرل ہوئی ہے جس کاعلامہ اقبالؒ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ آواز تامل ناڈو وانمباڑی ہندوستان کے ایک شاعر عتیق احمد جاذب کی ہے جو اپنا حمدیہ کلام:

ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے
سورج کے اجالے سے، فضاؤں سے خلا سے

مشاعرے میں پڑھ رہے ہیں جاذب عتیق کے تین مجموعہ کلام ”پیام حیات، گلدستہ حیات اور متاع حیات ہر خاص وعام سے داد پا چکے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کی آواز ابھی تک کہیں سے بھی نہیں مل سکی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جب ہندوستان میں آواز ریکارڈنگ کا سلسلہ شروع ہوا اس زمانے میں علامہ اقبالؒ کی آواز بیٹھی ہوئی تھی اس کی وجہ یہ ہوئی کہ جنوری 1934 ء میں عید کے روز سوئیوں میں دہی ملا کر کھانے سے علامہ اقبالؒ کی آواز بیٹھ گئی علاج کے باوجود بعد بھی آواز کبھی نارمل نہ ہو سکی۔ اقبالؔ 13 / جون 1936 ء کو پروفیسر الیاس برنی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ”دو سال سے اوپر ہو گئے۔ جنوری کے مہینے میں عید کی نماز پڑھ کر واپس آیا سویاں دہی کے ساتھ کھاتے ہی زکام ہوا۔ بہی دانہ پینے پر زکام بند ہوا تو گلا بیٹھ گیا۔ یہ کیفیت دو سال سے جاری ہے بلند آواز سے بول نہیں سکتا۔ اسی وجہ سے بالآخر بیرسٹری کا کام بھی چھوڑنا پڑا۔ انگریزی اور یونانی اطباء دونوں سے علاج کیا مگر کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔

3۔ اپریل کی رات تین بجے کے قریب (میں اس شب بھوپال میں تھا۔ ) میں نے سر سید علیہ الرحمۃ کو خواب میں دیکھا۔ پوچھتے ہیں تم کب سے بیمار ہو۔ میں نے عرض کیا دو سال سے اوپر مدت گزر گئی۔ فرمایا حضور رسالتماب ﷺ کی خدمت میں عرض کرو میری آنکھ اسی وقت کھل گئی اور اس عرضداشت کے چند شعر جواب طویل ہو گئی ہے میری زبان پر جاری ہو گئی۔ انشاءاللہ ایک مثنوی فارسی۔ ”پس چہ باید کرد اے اقوام شرق“ نام کے ساتھ یہ عرضداشت شائع ہو گی۔ 6 اپریل کی صبح سے میری آواز میں کچھ تبدیلی شروع ہوئی۔ اب پہلے کی نسبت آواز صاف تر ہے اور اس میں وہ رنگ (RING) عود کر رہا ہے۔ جو انسانی آواز کا خاصہ ہے۔ گو اس ترقی کی رفتار بہت سست ہے۔ جسم میں بھی عام کمزوری ہے۔ زیادہ کیا عرض کروں۔

14 جولائی 1934 ءبروز ہفتہ بوقت ساڑھے پانچ بجے علامہ اقبالؒ صدر انجمن حمایت اسلام لاہور کی صدارت میں جنرل کونسل کا اجلاس منعقد ہوا تو آواز کی خرابی کی وجہ سے آپ بول نہیں سکتے تھے اس لیے آپ نے ایک مختصر سی تحریر شدہ تقریر انجمن کے آنریری سیکرٹری کو دی جو انھوں نے پڑھ کر سنائی۔ بعد ازاں بوجہ علالت علامہ اقبالؒ نے انجمن حمایت اسلام کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔

25۔ جولائی 1937 ءکی اشاعت میں روزنامہ ”انقلاب“ نے لکھا تھا :

”انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کی ایک قرارداد کے مطابق انجمن کے چند ممبران پر مشتمل ایک وفد 21۔ جولائی 1937 ءکو علامہ اقبالؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے درخواست کی کہ وہ انجمن کی صدارت سے فیصلہ واپس لے لیں، وفد نے اس سلسلے میں علامہ موصوف سے استدعا کی کہ اس وقت چند غلط فہمیوں کے زیر اثر بعض سر کردہ حضرات اپنے عہدوں سے استعفے ٰ دے رہے ہیں اس لیے وہ اپنی سر پرستی سے انجمن کو محروم نہ کریں تاکہ مسلمانوں میں کسی قسم کی غلط فہمی اور بے چینی پیدا نہ ہو جائے۔

علامہ موصوف نے جواب میں فرمایا کہ:

جن وجوہ کی بنا پر دیگر حضرات انجمن سے مستعفی ہوئے ہیں، میرے استعفیٰ کی وہ وجوہ نہیں نہیں، اب سے چھ ماہ پیشتر میں نے انجمن کو اپنا استعفیٰ بھیجا تھا مگر انجمن نے اسے منظور نہ کیا۔ اب میری صحت مجھے ایسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دیتی ڈاکٹروں نے مجھے مشورہ دیا ہے کہ میں ذمہ داری کا بوجھ نہ اٹھاؤں میں حتی المقدور انجمن کی خدمت کرتا رہو گا۔

اگرچہ اقبال کو متعدد امراض سے واسطہ رہا لیکن انہوں نے جتنا علاج اپنی آواز کی بحالی کے لیے کرایا کسی اور مرض کے لیے نہیں کرایا کیوں کہ آواز کے بیٹھ جانے کے بعد اقبال کی اجتماعی زندگی بہت متاثر ہو چکی تھی۔ ان کی پریکٹیس جو ان کا ذریعہ معاش تھا ختم ہو چکی تھی۔ خطبات، تقاریر، اور مختلف کانفرسوں میں شرکت بھی اسی وجہ سے ختم ہوچکی تھی۔ تلاوت قرآن کا لطف ان سے چھن گیا تھا۔ اقبال کو آواز کے بیٹھ جانے کا صدمہ اس لیے بھی زیادہ تھا کہ وہ خوش الحانی سے تلاوت نہیں کر پا رہے تھے کیونکہ بچپن سے ہی قرآن مجید کی تلاوت اور مطالعہ ان کا محبوب ترین مشغلہ اور دل و دماغ کا سرمایہ تھا۔ قرآن مجید سے ان کی شیفتگی اور والہانہ شغف کا عالم یہ تھا کہ کوئی بھی مصروفیت ہو، جیسا بھی انہماک، گھر بار کے معاملات، دنیا کے دھندے ہوں، ان کا دل ہمیشہ قرآن مجید میں رہتا۔ دوران مطالعہ اکثر رقت طاری ہو جاتی چنانچہ بعض اوقات کہتے تھے اگر آواز عود کر آئے تو اسے خاص خدا کی رحمت تصور کروں گا۔ برقی علاج سے عارضی طور پر ورم میں کمی تو ہوئی اور آواز کچھ بہتر معلوم ہوئی لیکن جیسے ہی کچھ دن گزرے اور کچھ سردی زکام اور کھانسی شروع ہوئی آواز پھر خراب ہوگئی اور یہ سلسلہ آخر دم تک برقرار رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments