اے پی ایس کے شہید بچے کی ماں کا احسان اللہ احسان کے نام خط



اے درندہ صفت!
پیشگی میں، میری بے انتہا نفرت اور حقارت قبول ہو!

ساتھ ایک دعا بھی ہے کہ آپ کا بچہ سلامت ہو۔ میں ایک ماں کے ناتے اس کے سینے میں لگی سنگین نہیں دیکھ سکتی، ایک ماں ہوں اس پھٹے چہرے کے چیتھڑے نہیں دیکھ سکتی، میں ماں ہوں۔ کسی بچے کی کٹی گردن کی صراحی سے چھلکتا خون نہیں دیکھ سکتی، نہیں سوچ سکتی کی کبھی اس کا کلیجا گولیاں چیر دیں اور اس کی آخری پکار اس کی زباں اور ہونٹوں کے بیچ کا فاصلہ طے نا کر سکے۔ میں ماں ہوں میں کیسے دیکھ سکتی ہوں کہ کبھی اس کے ننھے جوتے خون سے لت پت کاپیاں کتابیں لہو لہان واپس ملیں، تم بھی ننھے جوتے لے کر بازاروں میں اعلان کرتے پھرو جیسے ”ارنسٹ ہیمنگوے“ نے کہا تھا،

”بچکانہ جوتے قابل فروخت ہیں کبھی استعمال نہیں ہوئے“

اے درندہ صفت میری حقارت قبول ہو،

میں تو آج تک اس نامکمل امید کے ساتھ زندہ ہوں کہ میرا بچہ اس گھڑی لوٹنے والا ہے۔ میں منتظر ہوں لیکن کئی برسوں سے سمجھتی ہوں کہ میرے بچے کے اسکول کی چھٹی ہونے میں لیٹ ہوگئی ہے۔ بہت دیر ہوگئی ہے چھٹی نہیں ملی اسے۔ کیسے دعا کروں کہ کبھی تیرا بچہ گھر سے نکلے اور واپس نا آئے۔ تو بھی اسکول کی گھنٹی سن کر دروازے کی طرف بھاگے۔ تو بھی برسوں تک اپنے گھر کا دروازہ کھلا رکھے۔ تیرے گھر میں نسوانی چیخیں ہوں۔ تو کانوں پہ ہاتھ رکھا کرے۔ کوئی دیوار سے لگی ننھی تصاویر کے ساتھ لپٹ کر روئے۔ اور تو منتیں کرے وہ نا مانے۔ اور رو رو کر گر پڑے میں ایک ماں ہوں، کسی ماں کے لئے ایسی بددعا نہیں کر سکتی۔

اے درندہ صفت میری پھٹکار قبول ہو،

پتا ہے درندوں کے بچے ہوتے ہیں، وہ اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے ہم جیسی بدقسمت ماؤں کی آغوش سے بچے جھپٹ کر لے جاتے ہیں اور ان ننھی بوٹیاں نوچ نوچ کر اپنے بچوں کا پیٹ بھرتے ہیں۔ ہماری امیدوں کے چراغ بجھا کر زندگی کا سکون چھین کر اپنے بچوں کا پیٹ بھرتے ہوں؟ کیا ہی غلیظ انسان ہوں۔ اس غلاظت میں ڈوب کر مرجاؤ۔

دسمبر کی اس درد سے بھری سرد صبح، وہ وحشت بھرا دن اس کے بعد شام غریباں کی سرد رات میں ان زرد آنکھوں نے جو انتظار کی شمعیں جلائی تھیں اب بھی جلائے بیٹھی ہیں۔ وہ رنگ برنگی حسین چہرے تمہاری وحشت نے پتوں کی طرح ذرد کر ڈالے،

اے درندہ صفت میری دھتکار قبول ہو،

میں تو اپنی آہ کو بھی روکتی ہوں کہ تجھ جیسا درندہ بھی کبھی اپنے بچے کا درد نا دیکھے۔ سوچو اس اورینج شرٹ کے اوپر یہ خوبصورت چہرہ کبھی کٹا ہوا طشتری میں ملے، اتنا خون بہے کہ اورینج شرٹ لال ہو جائے۔ تیغ اتنی وحشت سے چلے کہ اس کی ننھی ننھی بوٹیاں اس شرٹ پہ چپک جائیں۔ تو ششدر رہ جائے تیرے گھر سے ننھا جنازہ نکلے۔ پتا ہے ننھے جنازے زیادہ وزنی ہوتے ہیں کندھے جھک جاتے ہیں، دفنانے والے ہاتھ دعا کے لئے اٹھنے سے انکار کر دیتے ہیں، اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ نگہبانوں سے اعتبار اٹھ جاتا ہے، چمن سارا شمشان لگتا ہے، ایک درد جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔ خدا تمہیں ایسا درد نا دے کہ تیرا کلیجا پھٹے۔

اے درندہ صفت میری لعنت قبول ہو،

پتا ہے گھر ایک چمن ہوتا ہے۔ جو ان ننھے پھولوں، چہچاتے پرندوں کے بن اداس رہتا ہے۔ تیرے گھر میں ایک بیٹی بھی ہوگی، جب بھائی کو کچھ ہو جائے تو بہنیں اداس ہو جاتی ہیں، ان کی اداسی کی وجہ بھی عجیب سی ہوتی ہے۔ ان سے جھگڑنے والا، ان کی کاپیاں خراب کرنے والا، ان کی جرابیں چھپا دینے والا، جب ایسے طشتری میں کٹا ہوا گھر آتا ہے تو وہ ہوش گنوا دیتی ہیں۔ بقایا زندگی وہ یہ کہتے بتا دیتی کہ اب کوئی نہیں جس کی اماں ابا سے شکایت لگاؤں، اب کون ہے جسے بھائی بھائی پکاروں، آپ چاہے کئی ماؤں کے بچوں کی گردنیں کاٹ کاٹ کر اس کا پیٹ بھرتے ہوں، آپ چاہے ہر خواہش پوری کرتے ہوں، آپ کے گھر کے آنگن میں جنت کا سرٹیفیکیٹ پڑا ہو، وہاں بنگلے کے کاغذات پڑے ہوں، آپ بچی کو کہیں کہ بیٹا صبر کرو بس جنت میں سب کچھ ملے گا، لیکن وہ نہیں مانے گی۔ کیونکہ یہ اس کے سوالات کے جوابات ہیں ہی نہیں۔ جو حیات میں چھن جائیں وہ موت کے بعد کہاں ملتے ہیں۔

اے درندہ صفت میری نفرین قبول ہو،

آج تم پر سکون ہو، چوکیدار کی آنکھوں میں دھول جھونک کر نکل گئے۔ ایک دن آئے گا جب ہمارے معصوموں کی چیخوں سے تمہارے دماغ میں بھری وحشت پھٹ جائے گی۔ تو اپنے گھر میں جل کر فنا ہو جائے گا۔ اگر آخری سانسوں سے پہلے اپنے بیٹے کی چیخ سنو گے تو برداشت نہیں کر سکو گے۔ میں دعا کرتی ہوں کہ اس چیخ سننے سے پہلے تو مرجائے۔ لیکن تیرا بچہ محفوظ ہو۔ گویا کہ یہ دنیا بچوں کے لئے غیر محفوظ ہے۔ کاش میں بھی لبنانی ادیبہ لیلی بعلبکی کی طرح یہ کہہ کر بچہ پیدا نا کرتی۔ کہ یہ دنیا بچوں کے لئے غیر محفوظ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments