ڈیئر امریکہ! اپنی سالگرہ کی خوشی میں مجھے آزاد کر دو


اچھے امریکہ! بہت دنوں سے سوچ رہی تھی کہ آپ کو خط لکھوں۔ کچھ باتیں کروں اپنی سناؤں آپ سے پوچھوں لیکن اپنے اندرونی حالات، بیرونی دباؤ، لاتعداد بچوں کے سوکھے پیٹ، بے شمار بیماریوں، غربت، مہنگائی اور ننگے تن جیسے مسائل میں ایسی الجھی کہ وقت کا پتا ہی نہیں چلا اور 73 سال بیت گئے۔ آپ کے اور میرے تعلق کا آغاز نہ جانے کب، کیسے اور کیوں ہوا؟ شاید آپ جانتے ہوں لیکن مجھے کچھ علم نہیں۔ وہ تعلق جسے آپ نے دوستی بتایا اور میں نے آنکھیں بند کرکے یقین کر لیا۔

سہیلیوں کے سمجھانے کے باوجود آپ کی بانہوں میں بانہیں ڈال دیں۔ آپ خوبصورت تھے۔ آپ کی چمکتی آنکھیں، گورا رنگ، سنہرے بال اور اونچا قد مجھے متاثر کرگئے۔ آپ طاقتور اور بے انتہا صلاحیتوں کے مالک تھے۔ آپ نے مجھے سہارا دینے کا وعدہ کیا۔ میں نے آپ کا ساتھ ہونے کے باعث ترقی، خوشحالی اور روشنیوں کے سپنے دیکھے۔ جب سے ہمارے سفر کا آغاز ہوا میری خواہش تھی کہ میں آپ کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلوں لیکن یہ آرزو خواب ہی رہی۔

آپ نے اپنی راحت سکون اور مقصد کے لیے مجھے جیسے چاہا استعمال کیا۔ میں اپنے خاندانی وقار اور عزت کی پروا کیے بغیر کبھی چھپ چھپ کر کبھی سب کے سامنے آپ کو ملتی رہی اور ہر بات مانی۔ میں سسکتی رہی چیختی رہی اور آپ کا دم بھرتی رہی۔ رقیب مجھ پر اندر اور باہر سے وار کرتے رہے۔ یہاں تک کہ میرا ایک حصہ علیحدہ کر دیا گیا لیکن تحفظ کی قسم کھانے والے میرے محبوب آپ نہ پہنچے۔ آپ کے لیے میں نے بڑے بڑوں سے ٹکرلی۔ آپ کودنیا کی واحد سپرپاور بنانے کے لیے دوسری سپرپاور کے ساتھ مذہب کے نام پر لڑائی لڑی اور اسے شکست دی۔

آپ کامیابی کی لذت اٹھاکر چلتے بنے جبکہ میں اب تک اس جنگ کے بعد کے منحوس بوجھ کو اٹھائے پھر رہی ہوں۔ اب تو میری اولاد بھی ایک دوسرے کی جان کی دشمن ہوگئی ہے۔ آپ کے ہاں سرعام مرغی بھی ذبح کرنا ایک بہت بڑا جرم ہے لیکن یہاں سرعام انسانوں پر بھی چھریاں اور گولیاں چلا دی جاتی ہیں۔ لوگ کھڑے تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔ ان تینوں میں انسان کون ہے؟ چھریاں اور گولیاں کھانے والا، چھریاں اور گولیاں مارنے والا یا چھریوں اور گولیوں کا تماشا دیکھنے والا؟

آپ کے ہاں ایک جارج فلوئیڈ پولیس کے ہاتھوں قتل ہوا تو ملک ہل گیا۔ یہاں نہ جانے کتنے قتل ہوتے ہیں لیکن پتہ بھی نہیں ہلتا۔ آپ 50 ریاستیں اکٹھی جوڑے ہوئے ہیں۔ یہاں چار میں افراتفری پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ میرے وجود کا وہ ٹکڑا جسے کشمیر کہتے ہیں ابتداء میں ہی مجھ سے چھین لیا گیا تھا جس پر آپ سب نے اقوام متحدہ کے ذریعے استصواب رائے کروانے کا وعدہ کیا تھا لیکن اب تک وعدہ وفا نہیں ہوا۔ اب تو میرا جسم جگہ جگہ سے زخم اگلنے لگا ہے۔

میری چھوٹی بڑی رگوں میں بارود بھرکر دھماکے کیے جاتے رہے ہیں۔ آگ لگائی جاتی رہی ہے۔ میں پکارتی ہوں، چیختی ہوں، بلبلاتی ہوں۔ پہلے بھی آپ جب چاہتے میرے گھر آجاتے۔ اب تو بالکل ہی روک ٹوک نہیں لیکن میں شفا نہیں پارہی۔ درد اور تکلیف بڑھتی جارہی ہے۔ میرے لیے آپ نے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایف اے ٹی ایف سمیت جو نگران مقرر کیے وہ آپ سے زیادہ میری بوٹیاں نوچتے رہے ہیں۔ میرے ہمسائے بھی مجھ سے نالاں ہیں، دنیا والے مجھ پر انگلیاں اٹھاتے ہیں، آوازے کستے ہیں، تہمت لگاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ سب آپ سے دوستی کا رزلٹ ہے۔

میں نے آپ کا پسندیدہ روپ دھارنے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا؟ مذہب کو ماڈرن بنایا، مشرقی اقدار چھوڑیں، میری لڑکیوں اور لڑکوں کے درمیان شرم وحیا اور جھجک ختم کرنے کے لیے موبائل فون کمپنیوں نے آدھی رات کے ایسے ایسے سستے اور مفت پیکج متعارف کروائے جس کا مزہ اور فائدہ صرف اور صرف نوجوانوں کوہی ہوتا ہے۔ ایف ایم ریڈیو پر ہونے والی کھلی گپ شپ کا تو حال ہی نہ پوچھیں اور تو اور جہاں کبھی باپردہ گراؤنڈ ہونے کے باوجود لڑکیوں کی ہاکی ٹیم کا بننا مشکل تھا وہیں اب لڑکیوں کی کبڈی کے میچ ہوتے ہیں۔

یہ سب کچھ میں نے آپ کے سامنے اپنی روشن خیالی اور اعتدال پسندی ثابت کرنے کے لیے ہی تو کیا۔ آپ پھر بھی مجھ سے راضی نہیں ہوتے، شک کرتے ہیں۔ کبھی میرا مذہبی لیول چیک کرتے ہیں اور کبھی غیرت کو چھیڑکر دیکھتے ہیں۔ میں تو آپ کی دوستی کے سہارے اپنا گھر آباد کرنے چلی تھی لیکن پتا چلا کہ بازار میں کھڑی ہوں۔ پیارے دوست امریکہ! 1776 ء کو آپ نے برطانیہ سے آزادی کا اعلان کیا تھا اور اب تک اس معاہدے پر قائم ہیں مگر 73 برسوں میں میرے ساتھ آپ کسی ایک معاہدے پر پوری طرح قائم نہیں رہے۔

آپ نے اپنی پیدائش سے اب تک بڑی شان و شوکت حاصل کی ہے۔ ساری دنیا آپ کی جیب میں ہے۔ خوشحالی آپ کے اشاروں پر ناچتی ہے۔ سب ممالک کی فارن پالیسیاں آپ کا موڈ دیکھ کر بنائی جاتی ہیں۔ کرہ ارض پر بسنے والوں کے پیٹوں میں جالے لگ رہے ہیں جبکہ آپ کے ہاں نئے نئے ذائقے دریافت ہو رہے ہیں۔ غرض جادو کی کہانیوں میں پائی جانے والی تمام سہولتیں آپ کے ہاں میسر ہیں اور یہ کہ دور دور تک آپ کا ہم پلہ کوئی نہیں۔ پرانے وقتوں میں شان و شوکت والے بادشاہ اپنے جنم دن پر رعایا کو بے تحاشا انعام و اکرام سے نوازتے تھے۔

قیدیوں کی سزائیں معاف ہوتی تھیں۔ غلام آزاد کیے جاتے تھے۔ آج 4 جولائی کو آپ کی سالگرہ ہے اور اس جشن کے موقع پر میں آپ کو آپ کے عالی مرتبے، جاہ و جلال، شان و شوکت اور اپنی مہیا کردہ دوستی کا واسطہ دے کر ایک چیز مانگتی ہوں، صرف ایک چیز۔ بیشک مجھے کچھ نہ دیں کوئی مدد نہ کریں صرف آزاد کردیں۔ ڈیئر امریکہ! اپنی 244 ویں برتھ ڈے کی خوشی میں مجھے آزاد کردیں۔ دربدر ٹھوکریں کھاتی آپ کی دوست، سوہنی دھرتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments