جنرل باجوہ اٹلی کی مدد کریں گے: جانے دیں سرکار!


خبروں کے ہجوم میں افواج کے شعبہ تعلقات عامہ کی اس پریس ریلیز کو بھی شائع کیا گیا ہے کہ اسلام آباد میں اٹلی کے سفیر آندریاس فیراریز نے پاک فوج کے سربراہ سے ملاقات کی جس کے دوران جنرل قمر جاوید باجوہ نے اٹلی کو کووڈ۔19 کا مقابلہ کرنے کے لئے امداد دینے کی پیش کش کی۔ پاک فوج اس سے پہلے وبا سے نمٹنے کے لئے امریکہ کو حفاظتی سامان بھجوا چکی ہے۔

پاکستانی وزیر اعظم کورونا وبا پر اظہار خیال کرتے ہوئے ملک کی غربت، وسائل کی کمیابی اور حکومت کی مجبوری کا ذکر کرنا نہیں بھولتے۔ ان باتوں میں وہ اکثر پاکستانی خزانہ کی تہی دامنی کا مقابلہ امریکی اور یورپی ملکوں کی دولت سے بھی کرتے رہتے ہیں۔ اور نہایت تاسف سے عوام کو بتاتے ہیں کہ اگر ان کے پاس بھی امریکہ ، اٹلی یا برطانیہ جتنے وسائل ہوتے تو وہ بھی لاک ڈاؤن کرکے اپنے لوگوں کو وائرس سے محفوظ رہنے کا مشورہ دیتے لیکن کیا کریں پاکستان ایک غریب ملک ہے ۔ اس کے پاس ویسے مالی وسائل میسر نہیں ہیں جو امریکہ یا امیر یورپی ملکوں کو دستیاب ہیں۔ اس لئے پاکستانی حکومت مجبور ہے۔ اسے اپنے لوگوں کو بھی بچانا ہے اور لوگوں کو کام پر بھی لگانا ہے تاکہ غریب وبا کا شکار ہونے سے پہلے بھوک سے نہ مرجائے۔ اس بیان میں گو کہ یہ وضاحت نہیں ہوتی کہ جو مزدور کام کرتے ہوئے وبا کا نشانہ بنےگا ، حکومت اسے بچانے کے لئے کیا قدم اٹھائے گی۔ اس بارے میں البتہ پاکستانی ہسپتالوں کی صورت حال اور پرائیویٹ ہسپتالوں کی لوٹ مار کی خبریں پڑھ کر اور قصے سن کر رائے قائم کی جاسکتی ہے۔

اس حکومتی مجبوری کی معلومات شاید جی ایچ کیو تک نہیں پہنچ پائیں یا وباؤں سے نمٹنے کے لئے پاک فوج نے اتنے وسائل جمع کئے ہیں اور ایسی استعداد حاصل کرلی ہے کہ وہ دنیا کے امیر ترین اور خوشحال ملکوں کو بھی امداد فراہم کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہے۔ اس چھوٹی سی خبر میں اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی اٹلی کو پیشکش کے دروں خانہ البتہ محسوس کیاجاسکتا ہے کہ ہمارے عسکری حلقوں اور قیادت میں انسانی جذبہ کی فراوانی ہے۔ جی ایچ کیو کو اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ امریکہ کل تک پاکستان کے لئے مشکلات کھڑی کرتا رہا ہے اور افغان مذاکرات پر تعاون لینے کے لئے کیسے اور کیوں کر پاکستان کا بازو مروڑ کر اسے اپنی پسند کے اقدامات کرنے کا پابند کیا گیا تھا۔ ایسا منہ زور ملک جب کورونا وبا کی وجہ سے مشکل کا شکار ہؤا تو پاکستانی سپہ سالار کا انسان دوستی کا جذبہ پوری شدت سے سامنے آیا۔ حفاظتی سامان سے بھرے طیارے نے ایک ایسے وقت میں پاکستان سے امریکہ اڑان بھری جب پولیس کوئٹہ میں حفاظتی سامان کی عدم دستیابی پر احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں کو دفعہ 144 کے تحت گرفتار کرکے حوالات میں بھر رہی تھی۔ یا بعض ڈاکٹر لاہور اور ملک کے دوسرے حصوں میں اپنی بات حکام تک پہنچانے کے لئے بھوک ہڑتال پر مجبور ہورہے تھے۔

یوں تو انسان دوستی کا تقاضہ یہی ہے کہ اپنا پیٹ کاٹ کر بھوکے ہمسائے کی مدد کی جائے اور اپنی ضرورتیں پوری ہوں یا نہ ہوں لیکن ضرورت مند کی مدد ضرور کی جائے۔ تاہم انسانی ہمدردی کے اس جذبہ کے تحت جن دو ملکوں امریکہ اور اٹلی کی مدد کا قصد کیا گیا ہے، ان میں سے کسی نے بھی پاکستان سے مدد نہیں مانگی تھی۔ امریکی صدر روزانہ کی بنیاد پر کورونا سے جنگ میں امریکہ کو عظیم قرار دینے کے اعلان کرتے رہے تھے حالانکہ اس دوران ان کے اپنے ملک میں وائرس پوری دنیا سے زیادہ شدت سے پھیل رہا تھا اور خبروں کے مطابق بہت سے لوگ ٹیسٹ نہ ہونے یا سہولت نہ ملنے کی وجہ سے گھروں میں ہلاک ہورہے تھے۔ امریکی میڈیا اپنی قیادت کی نااہلی کا مرثیہ مسلسل پڑھ رہا ہے لیکن اس سے یہ تو اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ اگر پاکستانی فوج کا امدادی سامان امریکہ نہ پہنچتا تو وہاں حالات ابتر ہوجاتے۔

یہ نکتہ اپنی جگہ قابل غور اور قابل قبول ہوگا کہ مشکل وقت میں سفارتی خیر سگالی کا اظہار بھی قوموں اور ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں کردار ادا کرتا ہے۔ امریکہ کو حفاظتی سامان بھجوانا یا اٹلی کے سفیر کو مدد فراہم کرنے کی پیشکش کرنا سفارتی چابک دستی کی عمدہ مثال ہو سکتی ہے۔ قباحت محض یہ ہے کہ پاکستانی آئین نے پاک فوج کے سربراہ کو سفارتی شعبہ میں اپنی مہارت دکھانے یا منتخب حکومت کے ہوتے ہوئے جی ایچ کیو کو طاقت کا مرکز قرار دینے اور ظاہر کرنے کا عندیہ نہیں دیا ۔ عمران خان اپنے مؤقف کی دلیل کے لئے اکثر دوسرے ملکوں کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔ کیا وہ کوئی ایسی مثال بھی دکھا سکتے ہیں جہاں سفارت کار اور غیر ملکی مہمان براہ راست فوجی قیادت سے ملاقات کی روایت پر عمل کرتے ہوں اور فوجی قیادت کسی مجاز اتھارٹی یا ادارے کی منظوری اور اجازت کے بغیر کسی بھی غیر ملک کو چھوٹی یا بڑی پیشکش کرنے کے طریقہ پر عمل کرتی ہو؟

جنرل قمر جاوید باجوہ کی سفارتی مہارت کے چرچے تو چہار دانگ عالم میں ہیں۔ ایف اے ٹی ایف سے سہولت ملنے کی امید ہو، آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کرنے ہوں ، سی پیک پر چین کی غلط فہمی دور کرنا ہو، دوست ملکوں سے اربوں ڈالر کی ’امداد‘ وصول کرنا ہو یا ایران کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا ہو، یہی سمجھا جاتا ہے کہ یہ معاملہ جنرل صاحب کی بصیرت سے طے پاگیا۔ افغانستان میں قیام امن کا معاہدہ اور افغان طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کرنے پر آمادہ کرنا تو پاک فوج اور اس کے سربراہ کے تعاون اور ’مرضی‘ کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا۔

شاہ محمود قریشی ضرور اس ’کامیابی‘ کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں اور جنرل باجوہ دھیمی خاموش مسکراہٹ کے ساتھ ایسی تعلی کوسن بھی لیتے ہیں۔ ایسے میں کرتار پور راہداری کے عظیم سفارتی کارنامہ کا ذکر کئے بغیر تصویر مکمل نہیں ہوسکتی۔ آرمی چیف نے عمران خان کی تقریب حلف برداری میں آئے ہوئے بھارتی کرکٹر و سیاست دان نوجوت سنگھ سدھو سے بغل گیر ہوتے ہوئے سکھوں کے مقدس مقام تک رسائی دینے کا وعدہ کیا ۔ عمران حکومت نے گردوارہ دربار صاحب کرتار پور تک بھارتی سکھوں کی رسائی کا منصوبہ مکمل کرکے اس وعدے کی تکمیل کی۔ جنرل باجوہ نے فراخدلانہ مسکراہٹ کے ساتھ اس کا سہرا بھی ’منتخب‘ وزیر اعظم کے سر باندھ کر ان کی واہ واہ کروادی۔ آخر ملک کی ’جمہوری حکومت ‘ کابھرم رکھنا بھی مقصود ہوتا ہے۔

واضح ہونا چاہئے کہ یہ بھرم البتہ غیر ملکی سفیروں سے براہ راست معاملات طے کرتے ہوئے بھی پامال ہوتا ہے۔ یوں تو ملک میں مائنس ون کی بحث کو جس شدت سے چلایا جارہا ہے اور حکومت کی سرپرستی کا معاملہ ہو یا پارلیمنٹ میں اہم قانون سازی، فیصلوں پر منتخب ارکان کی تصدیق سے زیادہ کسی نامعلوم طاقت کی پرچھائیں کو محسوس بھی کیا جاتا ہے اور اس کا چرچا بھی ہوتا ہے۔ عمران خان کے قریبی ساتھی اور دو برس پہلے انتخابات سے پہلے اور بعد میں اپنے طیارے سمیت تحریک انصاف کی صفوں کو الیکٹ ایبلز سے بھرنے میں قائدانہ کردار ادا کرنے والے جہانگیر ترین بھی یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ 2018 کے انتخابات انجینئرڈ تھے۔ یعنی ملک پر جو پارٹی اور لوگ اس وقت حکمران ہیں، عوامی رائے کے مطابق شاید وہ اس منصب پر فائز ہونے کے قابل نہیں تھے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اس صورت حال کو وزیر اعظم کے لئے ’سیلیکٹڈ‘ کی پھبتی کستے ہوئے بیان کیا تھا۔ اس کے باوجود مبصر، کالم نگار، اور ٹاک شو میزبان مصر ہیں کہ مائنس ون ہونے والا ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ جمع تفریق کون کرتا ہے؟ اس کا جواب دینے کی بجائے یا تو سوال کنندہ کی طرف معصومانہ حیرت سے دیکھا جاتا ہے یا اسے پاکستانی سیاست کے رموز سے بے بہرہ سمجھ لیا جاتا ہے۔

جنرل صاحب! معاملہ اب اتنا آسان نہیں رہا۔ بلا شبہ ملک کو سنگین صورت حال کا سامنا ہے اور ایسے حالات میں جب دشمن ہر وقت سرحد پر دستک دیتا رہتا ہو، پاکستانی عوام اپنی افواج کی طرف حوصلہ و امید سے دیکھتے ہیں۔ لیکن اب یہ احساس بھی تقویت پکڑ رہا ہے کہ ملک قائم ہونے سے لے کر آج تک پاکستانی شہریوں کی زندگی میں سکون و اطمینان کا کوئی لمحہ نہیں آیا۔ یہ تصور اس سے بھی زیادہ جاں گسل ہے کہ پینتیس برس براہ راست اور باقی ماندہ مدت میں بالواسطہ ملک پر حکومت کرنے کے باوجود فوج ملک کے اہداف کا تعین نہیں کرسکی۔ اب بھی قومی مقاصد کے بارے میں ابہام اور بے یقینی ہے۔ اب بھی مرکز صوبوں سے دست و گریبان ہے، اب بھی غریب اور امیر کی بحث سیاست کا نقطہ آغاز ہے۔ بنیادی سہولتوں کی کمی ہے۔ قومی اہمیت کے معاملات مثلاً آبادی کی روک تھام اور پانی کی قلت دور کرنے کے لئے مناسب انتظام اب بھی نظر انداز موضوعات ہیں۔ اب بھی کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ملک پر اصل حکومت کس کی ہے؟

جی ایچ کیو کی قیادت ملک بھر کے طول و عرض میں ابھرنے والی بے چینی سے بے خبر نہیں ہوسکتی۔ کیا اب وقت نہیں آگیا کہ فوج کی شہرت کو داغدار کرنے والے اشاروں اور مباحث کا خاتمہ کیا جائے۔ کیا جنرل صاحب نہیں چاہیں گے کہ سفیروں اور حکومتی نمائیندوں سے ان کی ملاقاتیں ملک میں متوازی حکومت کی علامت نہ بنیں اور جی ایچ کیو کو پارلیمنٹ کا متبادل نہ سمجھا جائے۔ یہ تاثر ختم کرنا فوج ہی کا کام ہے۔ جان لیاجائے اسی میں قوم کی بہبود پنہاں ہے۔ اب اس قوم کو ترقی کا سفر کرنے کے لئے آزادی درکار ہے۔ عسکری قیادت اپنا لائحہ عمل تبدیل کرکے اس احساس کو مستحکم کرسکتی ہے۔ بصورت دیگر آنے والے ستر برس میں بھی ملک کے حالات تبدیل نہیں ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2770 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments