روبکار بنام ناصر کاظمی


بھلے وقتوں کی بات ہے کہ جب شاعر کہنے میں اور سامع سننے میں آزاد ہوا کرتے تھے۔ یہی وہ زمانے سہانے تھے کہ جب مسلمان بادشاہ شعرا کو طوطی ہند جیسے خطابات سے نوازتے ہوئے ذرا بھی نہیں سوچتے تھے کہ اس خطاب میں ہند جیسا کافر لفظ کیوں لایا گیا ہے۔ اور شاعر بھی من موجی ہوتے تھے کہ جو جی میں آیا کہہ دیا۔ اب ذرا میر جیسے سید کو دیکھیے۔ ۔ ۔ دیر میں بیٹھنے، قشقہ کھینچنے اور اسلام ترک کرنے کی بات کرتا ہے تو بڑا پاپ کرتا ہے مگر گرفت نہیں ہوتی کیوں کہ صالح لوگ جو نہیں تھے۔

غالب کو دیکھیے۔ ۔ ۔ زندگی کی تلخی سے گبھراتا ہے تو شراب پیتا ہے اور طنز کے تیر خدا پر بھی چلا دیتا ہے مگر گرفت نہیں ہوتی کیوں کہ صالح لوگ جو نہیں تھے اور اقبال کو دیکھیے آج بڑا مومن ہوا پھرتا ہے کبھی خدا سے شکوہ لکھا تھا اس نے۔ ۔ ۔ پھر چہ میگوئیاں ہونے لگیں اور یار لوگوں نے ایک آدھ کفر کا فتوی بھی لگا دیا مگر یہ بخشے گئے کیوں کہ قومی شاعر جو ٹھہرے۔

اب مقدمہ ایک اور سید یعنی ناصر کاظمی کا بعدالت جناب مفتاح کل دائر ہے۔ وکیل عام سر راہ یہ الزام لگاتا ہے کہ سید ناصر رضا عرف ناصر کاظمی ملزم ہے کیوں کہ اس نے خدا کے ادب کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا اور ”اؤ میرے مصروف خدا“ جیسا گستاخ مصرع تخلیق کر دیا ہے۔ لہذا اسے موت کی سزا سنائی جائے۔ وکیل سرکار کی طرف سے استدعا کی جاتی ہے کہ ملزم چونکہ پہلے ہی فوت شدہ ہے لہذا اسے بخش دیا جائے مگر وکیل عام ماننے کو تیار نہیں ہے۔

اب عدالت سوچ بچار میں ہے کہ کیا فیصلہ کرے۔ عدالت کے سامنے مشکل یہ ہے کہ وہ اگر ملزم کو سزا سناتی ہے تو اس کی زد میں قومی شاعر کے ساتھ ساتھ صوفی و روحانی شعرا کی ایک کثیر تعداد بھی آتی ہے اور اگر معاف کرتی ہے تو اس کا یہ فیصلہ عوامی امنگوں کے مطابق نہیں رہتا۔ لہذا عدالت فیصلہ سنانے کی بجائے فتوی جاری کرتی ہے۔ اور عوام الناس کو یہ تاکید کرتی ہے کہ ایسے گمراہ شعرا کے کلام کو بہ حکم ریاست آنکھیں بند کر کے پڑھ لے اور پھر اپنے ایمان کی تجدید کرلے۔

نوٹ: یہ بلاگ فیس بک پر پروفیسرز کے ایک گروپ میں ناصر کاظمی کے شعر کو ممنوع ٹھہرانے کے بعد لکھا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments