آپ کو کیا تکلیف ہے؟


مرد ظالم ہے یہ جملہ تو بہت بولا، سنا اور لکھا گیا۔ مگر ایک عورت دوسری عورت پر جو ظلم ڈھاتی ہے اس کا شمار کون کرے؟ عورت خواہ رشتے دار، محلے دار، پڑوسن، جان پہچان والی یا ایک ماں ہو۔ تمام کا طریقہ کار تو مختلف ہو سکتا ہے لیکن منشا ایک ہی ہے۔ عام خیال یہی ہے کہ گھروں پر مرد کی حکمرانی ہوتی ہے۔ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں اور دیکھیں جہاں مرد حکمران ہے وہاں حقیقت میں حکمرانی کون کر رہا ہے؟ چند سوال جو بظاہر بہت معمولی معلوم ہوتے ہیں۔

آپ کے گھر میں کس کی پسند کا سالن پکتا ہے؟
آپ کس کی پسند کے کپڑے پہنتے ہیں؟
سوداسلف لانے والے کو نکما کون کہتا ہے؟
اب ایک اہم فیصلے کی بات کرتے ہیں بچوں کی شادی کس کی پسند سے ہوتی ہے؟
اپنی پسند کی بہو لانے کے بعد اس کا جینا حرام کون کرتا ہے؟

چند باتیں جو اکثر دیکھنے اور سننے میں آئی ہیں۔ ماسی سداں کا سحر کے گھر آنا جانا تو رہتا ہی ہے ایک دن باتوں باتوں میں کہنے لگی ”سحر باجی آپ کی بہو تو بہت چالاک نکلی آتے ہی آپ کے بیٹے کو اپنے ہاتھ میں کر لیا اب تو ہر وقت اسی کے آگے پیچھے گھومتا رہتا ہے اس کے ساتھ کام کرواتا ہے کبھی گھر کی صفائی کروا رہا ہے، کبھی برتن دھو رہا ہے، تو کبھی کپڑے چھت پر ڈالنے جا رہا ہے تاکہ دھوپ میں خشک ہو جائیں۔“

کبھی نوکرانی آ کر کہتی ہے ”سحر باجی کیا بتاؤں آپ کے گھر کا کام ختم کرنے کے بعد میں جس گھر میں کام کرنے جاتی ہوں نا کل کیا ہوا کہ برآمدے میں جھاڑو دے رہی تھی کمرے کا دروازہ کھلا تھا کیا دیکھتی ہوں کہ میاں اپنی بیوی کے پاؤں دبا رہا ہے اور بیگم صاحبہ آرام سے لیٹی ہوئی ہیں یہ بھی کوئی طریقہ ہے؟“

قریبی رشتے دار اس معاملے میں سب سے آگے ہیں جہاں دو چار عورتیں مل کر بیٹھ گئیں خاندان کے لوگوں کی باتیں شروع۔

اماں حاجن بیٹی سے ملنے جب شہر آئی تو اتفاق سے کچھ اور رشتے دار بھی آئے ہوئے تھے رشتے کی باتیں ہو رہی تھیں تو اماں حاجن کہنے لگی ”کیا زمانہ آ گیا ہے آج کل کے بچے کہتے ہیں ہم نے شادی سے پہلے ایک دفعہ دلہن کو دیکھنا ہے ہمارے زمانے میں تو ایسا نہیں ہوتا تھا میری شادی ہوئی تو میں نے اپنے شوہر کو پہلی دفعہ تب دیکھا جب میں بیاہ کر ان کے گھر میں آئی تھی۔“ اماں خاموش ہوئیں تو باجی نسیم کہنے لگی ”میری بڑی بہن نے اپنے بیٹے کی شادی خاندان سے باہر کی ہے اس کی بہو شوہر کو نام سے بلاتی ہے کتنی بے شرم ہے ہم نے تو ہمیشہ بچوں کے ابو کہہ کر ہی بلایا ہے“ صفیہ بیگم کہنے لگی ”نسیم باجی آپ کی بہو کس طرح اپنے شوہر کے پلو سے چمٹی رہتی ہے کبھی باہر کھانا کھانے جارہی ہے تو کبھی خریداری کرنے شرم لحاظ تو ہے ہی نہیں ہم نے تو ایسا کبھی نہیں کیا۔“

رضیہ کے باتیں سن کر بہت افسوس ہوا۔ وہ بہو جسے بڑے مان سے بیاہ کر لائی تھی آج اس کے بارے میں اپنے بیٹے سے کہہ رہی تھی ”اپنی بیگم کی خبر لو صبح سے کمرے میں پڑی ہے بیماری کا بہانہ بنا کر مجال ہے کسی کام کو ہاتھ لگایا ہو حرامزدی کو پتا نہیں کہ ایسے لیٹی رہے گی تو کام کون کرے گا؟ آج تو اسے ایسے ہاتھ لگاؤ کہ ساری عمر یاد رکھے آج میں کچھ نہیں سنوں گی منحوس جب سے اس گھر میں آئی ہے میرے بیٹے کو مجھ سے چھین لیا ہے تم اس کے چکر میں ماں کو بھول گئے ہو اس کے تو ڈرامے ختم نہیں ہوتے۔ آج اسے ہاتھ لگا ہی دو میں تو کہتی ہوں حرامزدی کو طلاق دے کر ابھی فارغ کرو میرے بیٹے کو لڑکیوں کی کمی ہے کیا؟“

اگر کوئی شوہر تمام باتیں سننے کے باوجود اپنی بیوی سے محبت کرتا ہے اور ان کے تعلقات میں ذرا فرق نہیں آتا اور وہ اپنے رشتے کی بقا کے لیے علیحدہ مکان کا سوچ بھی لے تو اسے نافرمان کہا جاتا ہے۔

کیا شادی کرنے کا مقصد دوسروں کو خوش کرنا ہوتا ہے؟
کیا یہ دو لوگوں کا معاملہ نہیں ہے؟
میرا ایک شعر جس میں انہی تلخ باتوں کی طرف اشارہ ہے
ہماری تم سے اچھی نبھ رہی ہے
مگر لوگوں کو الجھن ہو رہی ہے
اگر آپ کو اپنے حصے کی خوشیاں نہیں ملیں تو دوسروں کا جینا حرام کرنا ضروری ہے؟
کیا آپ نے اپنی نارسائی اور محرومیوں کا بدلہ دوسروں سے لینا ہے؟
اگر دو لوگ اپنے گھر میں خوش ہیں تو آپ کو کس بات کی تکلیف ہو رہی ہے؟

آخر کب تک خاندان کے بڑے بچوں پر اپنا حکم چلاتے رہیں گے۔ کیا کبھی بچوں کو اپنی رائے پیش کرنے کی آزادی ملے گی؟ آپ کی نظر میں بچے کب سمجھدار ہوتے ہیں۔ اگر شادی کے بعد بھی آپ انہیں نکمے اور بیوقوف سمجھتے ہیں تو پھر آپ کی تربیت پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ ہم محبت، احترام اور ملکیت کا فرق کب سمجھیں گے۔

عمیر خان اقمر
Latest posts by عمیر خان اقمر (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments