چالیس برس پہلے ڈومیلی کا سفر


بڑے بھائی نے کہا: ”تم کو پتا ہے، اس دفعہ گرمیوں کی چھٹیوں میں، ہم ڈومیلی نانا اور نانی جان کے پاس جائیں گے“ ۔

ڈومیلی کتنا دور ہے، اس کا تو علم نہیں تھا لیکن یہ خبر خوش کن تھی کہ ٹرین میں طویل سفر طے کرنے کا موقع ملے گا۔

سکول کی چھٹیوں کا کام ایک ہفتے میں نمٹانا تھا۔ چونکہ ہم بہن بھائی اسکول کا کام نمٹانے میں لگے گئے اور امی سفر کی تیاریوں میں۔ شامی کباب بنائے گئے اور میدے، سوجی، چینی اور ناریل کے آمیزے سے میٹھی ٹکیاں تیار کی گئیں۔ روانگی سے قبل پراٹھے بھی تلے گئے۔ تاکہ دوران سفر الا بلا چیزیں کھانے کی بجائے گھر کی تیار شدہ ذائقے دار اشیاء سے پیٹ پوجا کی جائے۔ خدا خدا کرکے وہ دن بھی آ ہی گیا کہ گھر سے سفر کے لیے روانہ ہوا جائے۔

ان دنوں عوام ایکسپریس دوپہر کے وقت روانہ ہوتی تھی۔ قلی نے سامان محفوظ نشستوں اور برتھوں کے قریب اور اوپر رکھ دیا۔ میں نے کھڑکی والی سیٹ پر سب سے پہلے قبضہ جما لیا۔ عمر عزیز کا نواں سال تھا۔ ذہن میں صرف یہ تھا کہ سفر کا آغاز ہو اور لہلہاتے کھیتوں اور رواں دریا کا نظارہ کرتے، سفر بتایا جائے۔ ٹرین کے روانہ ہوتے ہی ایک عجیب سی خوشی کا احساس ہوا اور ہم سیٹ پر مزید جم کر بیٹھ گئے۔ شہری آبادیوں، کارخانوں اور صنعتی اداروں کو پیچھے چھوڑتے، ٹرین جلد ہی شہر کی حدود سے باہر نکل آئی۔ کھیت اور باغ صرف ملیر کے علاقے میں نظر آئے۔

حیدرآباد تک اکا دکا جگہ ہریالی اور جھیلوں کی جھلک نظر آئی۔ دریائے سندھ میں لوگ کشتیوں میں سفر اور مچھلی کا شکار کرتے دکھائی دیے۔ یہ دلکش مناظر خود بخود کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہوتے جا رہے تھے اور اب تک یادوں اور عکس کی صورت میں ذہن اور آنکھ کے پردے میں محفوظ ہیں۔

پنجاب کی حدود میں جب ٹرین داخل ہوئی تو دیہی زندگی کی رونق اور ہریالی بھی دیکھنے کو ملی۔ ہمارا پہلا پڑاؤ لاہور تھا۔ قریبی عزیز دادا جمیل احمد مرحوم کے گھر دھرم پورہ پہنچے۔ اور شام کو والد مرحوم کی خالہ مرحومہ کے گھر۔ سب لوگ بہت تپاک اور محبت سے ملے۔ دوسرے دن صبح جہلم کے لئے روانہ ہوئے۔ جہلم کے لاری اڈے پر چارپائی پر بیٹھ کر تندوری روٹی سے کباب و اچار کھانا، اب تک یاد ہے۔ لاری نے ڈومیلی میں مرکزی تالاب کے پاس اتار دیا۔ تالاب میں پانی تو نہ تھا۔ لیکن مٹی میں نمی باقی تھی۔

نانا جان قاری منظور احمد مرحوم ڈومیلی اور قرب و جوار کی مشہور و معروف دینی و روحانی شخصیت تھے۔ آپ کے بے شمار مرید تھے۔ نانا جان سیکنڈری ہائی اسکول کے سابق ہیڈ ماسٹر اور جامع مسجد (راجگان) ڈومیلی میں امامت کے فرائض انجام دیتے تھے۔ نانا جان مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ کے خلیفہ مجاز صحبت اور مولانا محمد عبدالمالک صدیقی رحمتہ اللہ علیہ (احمد پو ر شرقیہ) کے خلیفہ مجاز بیعت تھے۔ ڈومیلی میں ان کے لیے عقیدت و محبت اور احترام کی فضا تھی۔ اور جس گلی میں نانا جان کی رہائش تھی۔ وہ گلی اب تک ماسٹر گلی کہلاتی ہے۔

مقامی افراد نے سامان اٹھایا اور نانا جان کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔ تمام راستے لوگ دیکھ کر خوش ہوتے رہے کہ شاہ جی کے مہمان آئے ہیں۔ گھر پہنچے تو نانی جان کی خوشی دیدنی تھی۔ تازہ دم ہوکر کھانا کھایا، چائے پی۔ پاس پڑوس سے خواتین ملاقات کے لیے آنے لگیں۔ امی ان کے ساتھ باتوں میں مشغول ہو گئیں اور ہم بھائیوں کے ساتھ سیر کو نکل پڑے۔ اونچے نیچے راستوں اور لال اینٹوں سے بنی راہ داریوں پر چلنا بہت بھلا لگ رہا تھا۔ ٹھیلوں پر بھنے چنے، مرمرے، مکئی، تل کے لڈو، ریوڑیاں اور چنبیلی بیر مل رہے تھے۔ سب نے اپنی پسند کی اشیاء خریدیں۔

سیر سپاٹے سے فارغ ہو کر گھرپہنچے تو نانی جان نے سب اشیاء دیکھ کر کہا: ”اب بازار سے یہ سب مت خریدنا، ہمیشہ تازہ بھنوا کر کھانا اور تل کے لڈو تو گھر میں پہلے ہی بنے پڑے ہیں“ ۔ اس کے بعد ہمیشہ بھڑبھونجن کے پاس جاکر ہی گیہوں، چنے اور مکئی بھنوائے اور کھائے۔

مغرب کے بعد نانی جان نے آٹا گندھوا کر دیا کہ بھٹیارن سے جاکر روٹیاں لگوا لاؤ۔ لوگوں سے راستہ پوچھتے پاچھتے، بھٹیارن تک جا پہنچے۔ سب سے پہلے تو اس نے اپنے لیے ایک پیڑا نکال کر رکھ لیا اور باقی کی روٹیاں لگا کر دے دیں۔ رات کو سونے سے قبل نانی جان قصے کہانیاں سناتی رہیں اور کہا کہ گاؤں کے باہر برگد کے درختوں کی طرف مت جانا، وہاں چمگادڑیں ہیں اور لوگ بتاتے ہیں کہ ان درختوں پر جنات بھی ہیں۔

نانا جان جب عشاء پڑھا کر گھر تشریف لاتے تو روزانہ رات کو کتے کو اپنے ہاتھ سے روٹی کھلاتے، کتا ساری رات گھر کی چوکی داری کرتا اور صبح فجر کی نماز کے لیے مسجد تک ساتھ جاتا۔ نانا جان نصف شب کو جاگ جاتے اور سب سے پہلے ایک کمرے میں رکھے، مٹی کے تیل کے چولہے پر چائے بناتے۔ میں اور مجھ سے بڑی بہن نان خطائی کھانے کے شوق میں کبھی کبھار نانا جان کے کمرے جا پہنچتے اور نان خطائی کے مزے اڑاتے۔ نانا جان نان خطائی کو نان بائی کی غلطی بھی ازراہ مذاق کہا کرتے تھے۔

دوران قیام صبح سویرے امی سل پر بادام، خشخاش، چاروں مغز اور الائچی پیس کر ذائقے دار ٹھنڈائی بناتیں اور نانے جان کے لئے ادرک والی ٹھنڈائی بنتی، جو میں اور میرے خالہ زاد بھائی باقاعدگی سے نانے جان مرحوم کو دینے مسجد جاتے۔ مسجد کے راستے میں ڈومیلی کا بازار بھی آتا تھا۔ موسیقی کی آواز اگر کہیں سے آتی تو نانا جان مرحوم کانوں میں انگلیاں دے لیتے تھے۔

ناشتے کے بعد بھائیوں کے ساتھ برگد کے درخت دیکھنے گئے۔ چونکہ تجسس قائم ہوچکا تھا، ڈر کی وجہ سے دور سے ہی دیکھ کر واپس آگئے۔ غلیل اور ائر گن بڑے بھائی ہمیشہ ساتھ رکھتے تھے تاکہ پرندوں کا شکار کیا جاسکے۔ لیکن یہ سب کام نانا جان سے چھپ کر کیے جاتے تھے۔

چونکہ وہ محض شوقیہ و تفریحا شکار کے قائل نہ تھے۔ ہد ہد نامی پرندہ سب سے پہلے ڈومیلی میں ہی دیکھا۔ تالاب پر جاکر چکنی مٹی سے کھلونے بنانا پسندیدہ شغل تھا۔ آج سے چالیس سال قبل بھی ڈومیلی میں بجلی موجود تھی اور چند ایک گھروں میں ٹی‌ وی بھی تھا۔ جتنے دن ڈومیلی رہے، ایک دفعہ بھی بجلی منقطع نہ ہوئی اور نہ بجلی منقطع ہونے کا کوئی تصور موجود تھا۔ غالباً اس زمانے میں ڈومیلی میں بجلی کی سہولت اور تسلسل کی وجہ منگلا ڈیم ہو گا۔

منگلا ڈیم جانے کے لیے پہلے جہلم گئے اور پھر وہاں سے مشہور نغمہ نگار اور نظم گو شاعر گلزار صاحب کی جائے پیدائش دینہ۔ منگلا ڈیم دیکھ کر حیرت زدہ ہوئے چونکہ اس سے قبل اتنا بڑا ڈیم نہ دیکھا تھا۔ قریباً ایک ماہ ڈومیلی رہے۔ ڈومیلی کے شب و روز کیسے پلک جھپکتے بیت گئے، پتا ہی نہیں چلا۔ لیکن کراچی جیسے شہر کا شہری ہونے کے باوجود ایک دفعہ بھی شہر کی یاد نہ ستائی۔ وجہ اس کی صرف یہی ہے کہ گاؤں کی زندگی کے رنگ و ڈھنگ ہی نرالے ہیں۔ لوگوں میں سادگی اور اپنائیت ہے۔ ایک دوسرے کے دکھ و درد میں شریک ہونے کا چلن ہے۔ اسی وجہ سے سالہا سال بیت جانے کے بعد ڈومیلی کی یادیں اور باتیں اب تک تر و تازہ ہیں۔

ڈومیلی سے واپسی کے بعد دوبارہ جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ چونکہ نانا جان، نانی جان کی خرابی صحت کی بنا ہر کراچی تشریف لے آئے اور ہمارے ہی گھر کو قیام کا شرف بخشا۔ کراچی میں نانا جان کی صحبت میں جو وقت گزرا، وہ ایک الگ داستان ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments