جوائنٹ فیملی سسٹم



ہندوستان کے جوائینٹ فیملی سسٹم کی جڑیں ان کی رامائین، مہا بھارت اور ویدک میتھالوجی سے جڑی ہیں۔ پاکستانی، جو اپنا ہر تعلق عربوں سے جوڑتے ہیں، انہوں نے وہاں سے اوڑھنا بچھونا، کھانا اور نام تو امپورٹ کر لئے، مگر فیملی سسٹم نہیں کیا اور شروع سے ہی یہاں زیادہ تر گھرانوں میں ہندوستانی جوائینٹ فیملی سسٹم ہی رائج ہے۔

ہندو گھرانوں میں عموماً گھر کا سربراہ گھر کا اور اولاد کی زندگی کا ہر فیصلہ کرتا تھا اسی لئے اسے ”کرتا دھرتا“ یا صرف ”کرتا“ کہتے تھے۔ ہمارے یہاں بھی زیادہ تر گھرانوں میں یہی سسٹم رائج ہے جس میں گھر کے سربراہ کو فیصلہ کن اتھارٹی حاصل ہے۔ مگر اب یہ سسٹم کمزور پڑتا جا رہا ہے اور آج کی جدید اور تیز رفتار ”4 G لائف“ کا مقابلہ نہیں کر پا رہا۔ کیوں؟

آج کے بچے مغربی تہذیب سے متاثر ہیں اور پرسنل سپیس چاہتے ہیں۔ ماں کو اپنی پرائیویسی چاہیے اور باپ اپنی اولاد کے ساتھ دوستوں کی طرح رہنا چاہتا ہے۔ یہ بات شاید نئی نسل کے لئے حیران کن ہو مگر ابھی کچھ سال پہلے تک، جوائینٹ فیملی میں دوسروں کے سامنے اپنے ہی بچوں کو گود میں اٹھانا اور ان کو پیار کرنا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ اسی طرح اپنی بیوی کو گھر کے دوسرے افراد کے سامنے بلانا یا اس سے بات کرنا مرد کی زن مریدی کی نشانی کہلاتا تھا۔ نئی نسل ان تمام فرسودہ روایات کو توڑ کر ”میرا گھر میری مرضی“ چاہتی ہے۔ وہ نا صرف خود آزاد جینا چاہتے ہیں، بلکہ اپنے ماں باپ کو بھی خودمختار دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس لئے ہر گھر میں ایک خاموش کشمکش جاری ہے جیسے کوئی بیل اپنے کھونٹے سے بندھا مسلسل اپنی رسی تڑانا چاہتا ہو۔

انگریزی میڈیم تعلیم یافتہ بچے جو ہر وقت موبائل پر انگریزی سیزن دیکھتے ہیں ؛ اس ثقافت اور تہذیب کا اثر لینا ان کے لئے عین فطری عمل ہے۔ دادا دادی کا ہر نادر شاہی فرمان تسلیم کرنا اب ان کو مشکل لگتا ہے۔ بد تمیز نہیں ہیں پر سوال کرتے ہیں اور جواب نا ملنے ہر پچھلی نسل کی طرح ڈانٹ کھا کر چپ نہیں بیٹھتے۔ وہ لاجیکل اور ریشنل ہیں۔ وہ اپنا حق مانگتے ہیں۔ ماں باپ کا پیار اور ان کی توجہ چاہتے ہیں۔ وہ اپنے ہی گھر میں، دادا یا تایا چاچا کے ہاتھوں اپنے ماں باپ کی حق تلفی برداشت نہیں کرتے اور اپنے ذات کے متعلق ہر فیصلہ خود کرنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ تعلیم سے لے کر شادی بیاہ تک ہر فیصلہ خود کریں، یا کم از کم ان کے اپنے ماں باپ کریں نا کہ کوئی اور۔ وہ چاہتے ہیں ان کے باپ کی آمدنی پر بھی صرف ان کا ہی حق ہو نا کہ پوری فیملی کا۔

جہاں معاشیات بیچ میں آ جائیں وہاں سے اخلاقیات اٹھ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر جوائینٹ فیملی اب ایک اکھاڑہ بنتی جا رہی ہے۔ توتکار، طعنہ زنی روز کا معمول ہے۔ کبھی کھانا پکانے پر جھگڑا تو کبھی بوٹیاں نا ملنے پر لڑائی۔ کبھی بچوں کے کھیلنے پر کہا سنی تو کبھی دیر سے اٹھنے پر لعن طعن۔ الغرض ہر کوئی دل برداشتہ ہے۔ ہر کوئی خود کو مظلوم سمجھتا ہے اور دوسروں کو ظالم۔ سب ڈیپریس ہیں، سب فرسٹریٹ ہیں مگر زندگی کی گاڑی کو مجبوریوں کے ایندھن سے کھینچے چلے جا رہے ہیں۔

کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر جوائینٹ فیملی میں بزرگ ظالم ہیں اور غلط فیصلے ہی کررے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اکثر بزرگوں نے خود کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کیا اس لئے ان کا کنٹرول میکانزم کمزور پڑ چکا ہے۔ وہ نئے تالے کو پرانی زنگ آلود چابی سے کھولتے ہیں پر وہ کھلنے کی بجائے بیچ میں ٹوٹ جاتی ہے۔ ان کے اور تیسری نسل کے درمیان جو جنریشن گیپ ہے اس کی خلیج اب بہت وسیع ہو چکی ہے۔ اکثر جوائینٹ فیملیز میں کاروبار سانجھے ہیں جو بزرگوں کے دور سے چلے آ رہے ہیں اس کو چلاتے رہنا سب کی مجبوری ہے۔ یہی وہ کچا دھاگا ہے جو اس سسٹم کو ابھی تک باندھے ہوئے ہے۔ وہ سسٹم جس کو ہمارے بڑے اور ان کے بزرگ بہت کامیابی سے چلاتے آ رہے تھے، اب اس جوان پود کے آگے اس کی بیل منڈھے چھڑھتی نظر نہیں آ رہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments