تخت باہی: خیبر پختونخوا میں بدھا کا 1700 سال پُرانا مجسمہ ’مذہبی رہنما کے کہنے پر‘ توڑ دیا گیا


پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں تخت باہی کے مقام کے قریب ایک مکان کی کھدائی کے دوران بدھا کا تقریباً 1700 سال پرانا مجسمہ دریافت ہوا تھا جسے مقامی ٹھیکیدار نے وہاں موجود ’مذہبی رہنماؤں کے کہنے پر‘ توڑ دیا ہے۔

صوبے میں محکمہ آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ واقعے میں ملوث افراد کی گرفتاری کے لیے اقدامات شروع کر دیے گئے ہیں۔ابتدائی تفصیلات کے مطابق بدھا کا یہ مجسمہ ضلع مردان کی تحصیل تخت باہی کے قریب ایک دیہات سربنڈی سے ملا ہے۔

صوبائی دارالحکومت پشاور سے 80 کلو میٹر دور تخت باہی بدھ مت آثار قدیمہ کے باقیات کے حوالے سے اہمیت کا حامل مقام ہے جس کی تاریخ تقریباً دو ہزار سال پرانی ہے۔

ڈائریکٹر آثار قدیمہ خیبر پختونخوا عبدالصمد نے بی بی سی کو بتایا کہ گاؤں میں ایک مکان کی کھدائی کے دوران بدھا کا یہ مجسمہ دریافت ہوا لیکن وہاں موجود لوگوں نے اسے توڑ دیا ہے۔

مقامی لوگوں نے بتایا کہ جب مکان کی کھدائی کے دوران یہ مجسمہ ملا تو اس موقع پر ’مقامی مذہبی رہنما آئے اور انھوں نے کہا کہ بدھا کے اس مجسمے کو توڑ دو۔‘ اس تجویز پر وہاں ٹھیکیدار اور مزدوروں نے مجسمے کو ہتھوڑے کی مدد سے توڑ دیا ہے۔

سوشل میڈیا پر اس مجسمے کو توڑنے کی ویڈیو بھی سامنے آئی ہے۔

تخت باہی، بدھا، مجسمہ

مردان سے کوئی 20 سے 25 منٹ کی مسافت پر سوات کی جانب تخت باہی کا علاقہ موجود ہے

بی بی سی نے خیبر پختونخوا کے محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر عبدالصمد خان کا کہنا ہے کہ انھیں اس بارے میں جیسے ہی معلوم ہوا، انھوں نے اس پر کارروائی کی اور مقام کی نشاندہی کر لی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملزمان کی گرفتاری کے لیے کوششیں کی جار ہی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’بدھا کا یہ مجسمہ کوئی 1700 سال قدیم معلوم ہوتا ہے اور مقامی لوگوں کو چاہیے تھا کہ وہ متعلقہ حکام کو اس بارے میں اطلاع دیتے۔‘

تخت باہی: بدھ مت تہذیب کا امین

تخت باہی میں آثار قدیمہ کے متعدد کھنڈرات پائے جاتے ہیں اور ماضی میں یہ مقام بدھ مت کے پیروکاروں کے لیے اہم مذہبی اور علمی درسگاہ رہا ہے۔

یہاں کوئی دو ہزار سال پہلے کی تہذیب و تمدن، رہن سہن اور اس وقت کے گاؤں اور ان کے آثار یہاں موجود ہیں۔ تخت باہی ضلع مردان سے کوئی 30 کلومیٹر دور واقع ہے۔

اس علاقے میں صرف تخت ہاہی کے آثار قدیمہ ہی نہیں بلکہ آس پاس تیرہ سے چودہ ایسے قدیم مقامات ہیں جن کا تعلق بدھ مت اور اشوک بادشاہ کے دور سے ہے۔ یہاں بدھا کے مجسمے اور تاریخی سلیپنگ سٹوپا بھی پائے جاتے ہیں۔

یہ کھنڈرات برطانوی دور میں سنہ 1836 کے آس پاس دریافت ہوئے تھے اور 1852 میں کھدائی شروع کی گئی تھی۔ یو نیسکو نے 1980 میں ان آثار قدیمہ کو بین الاقوامی ورثہ قرار دیا تھا۔

سوشل میڈیا پر اس بارے سخت رد عمل کا اظہار کیا جا رہا ہے جس میں متعلقہ حکام سے کہا گیا ہے کہ اس میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ یہ رائے بھی سامنے آئی ہے کہ اس طرح کے قدیم مجسمے پوری دنیا کے لیے نایاب اثاثہ ہوتے ہیں۔

’عدم تشدد کی پالیسی اپنانا ہو گی‘

بی بی سی نے اس واقعے پر سرحد کنزرویشن نیٹ ورک اور ہیریٹیج کے نمائندہ ڈاکٹر عادل ظریف سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم کا ایک مقصد لوگوں میں آگہی اور معلومات فراہم کی جائیں تاکہ انھیں معلوم ہو سکے کہ یہ اس ملک میں انمول اثاثہ ہے۔

’گندھارا تہذیب اس علاقے میں پائی جاتی ہے اور تخت باہی اس علاقے کی شناخت ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ اس مجسمے کو محفوظ کرنا چاہیے۔ ’اسے تباہ کرنا مناسب نہیں ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اس بارے میں سکولوں و کالجوں میں لوگوں کو آگہی دینے کی ضرورت ہے۔ ’کچھ عرصہ قبل جو نصاب اور تقریروں کے ذریعے جو سوچ بنائی گئی تھی اسے تبدیل کرنا ہو گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اب ’جہادی کلچر‘ سے ہٹ کر ہمیں عدم تشدد کی پالیسی اپنانا ہو گی۔ نصاب میں تبدیلی لانا ہو گی اور لوگوں کی ذہنی تربیت کرنا ہو گی تاکہ ہم اس طرح کے اثاثے محفوظ بنا سکیں۔‘

ڈاکٹر عادل ظریف نے بتایا کہ تخت باہی میں متعدد مقامات ایسے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ اس مکان کے قریب مزید ایسے نوادرات ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ متعلقہ حکام اور عام لوگوں کو یہ علاقہ محفوظ بنانا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp