پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے پھر ٹی وی اور پٹرول ٹیکس کیوں؟


حکومت نے بجلی کے بل میں پی ٹی وی لائسنس فیس 35 روپے سے بڑھا کر سو روپے کر دی ہے۔ کیا مسلمانان ہند نے لاکھوں جانوں اور عصمتوں کی قربانی دے کر یہ اسلامی ملک اس لیے بنایا گیا تھا کہ یہاں لوگوں سے زبردستی کی جائے اور انہیں بہ صد جبر و اکراہ پی ٹی وی دکھایا جائے؟ یا پھر حکومت حرام کے پیسے لے رہی ہے اور ان لوگوں سے بھی زبردستی ٹیکس وصول کر رہی ہے جو پی ٹی وی دیکھتے ہی نہیں؟

اب امت کو ضرورت ہے تو مولوی لوگ کہاں ہیں؟ اتنا بڑا غیر اسلامی کام ہو رہا ہے تو وہ نوٹس کیوں نہیں لیتے؟ کیوں دھرنا نہیں دیتے؟ کیوں حکومت کے خلاف احتجاج نہیں کرتے؟ اس اسلامی جمہوریہ کے آئین نے انہیں پرامن احتجاج کا حق دیا ہے، وہ حق کب استعمال کیا جائے گا؟ کہاں ہیں مولانا فضل الرحمان، مولانا سراج الحق اور مولانا خادم رضوی؟

مولانا حضرات آگے بڑھیں اور دھرنا دے کر کیس کو عوامی عدالت میں دائر کرنے کے علاوہ وفاقی شرعی عدالت یا سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کریں کہ آپ تصویر اور ٹی وی کو خلاف اسلام اور حرام سمجھتے ہیں اور حکومت قوم کو حرام کاری پر مجبور کر رہی ہے۔ یہ آئین میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ جس کا دل کرتا ہے وہ پی ٹی وی دیکھے اور اس کا ٹیکس دے، جس کا نہیں کرتا اسے دیکھنے اور ٹیکس دینے پر مجبور مت کیا جائے۔

مولویوں کے علاوہ نارمل لوگ بھی اس معاملے پر غور کریں۔ پی ٹی وی تو وہی لوگ دیکھتے ہیں جن کے پاس ٹی وی ہے مگر کیبل نہیں ہے۔ لیکن اب پی ٹی وی کے اردو ارطغرل کی قسطیں کروڑوں لوگ یوٹیوب پر دیکھ چکے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آئندہ حکومت انٹرنیٹ کے بل میں بھی پی ٹی وی ٹیکس لگا سکتی ہے۔ کیا آزادی اظہار کے متوالے اسے برداشت کریں گے؟ کیا وہ انٹرنیٹ کے بغیر زندہ رہ سکتے ہیں؟

اس کے علاوہ مساوات کے علمبرداروں کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اگر ٹی وی ٹیکس لگانا ہی ہے تو اس کا پیسہ تمام چینلوں میں تقسیم کیوں نا کیا جائے؟ کیوں صرف ایک چینل کو ہی نوازا جائے؟ کیا یہ بزنس کے مساوی مواقع کی خلاف ورزی نہیں ہے کہ باقی چینل تو اپنا کنواں خود کھودیں اور اپنا پانی نکالیں لینے پی ٹی وی کو زبردستی کنڈے کی موٹر لگا کر دے دی جائے؟

پہلے ہی کرونا کی وجہ سے غریب اور متوسط طبقے کا برا حال ہے۔ معیشت مردہ ہے۔ اب ان پسے ہوئے طبقات کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ ٹی وی فیس دے کر اپنا بجٹ مزید خراب کریں اور ایک وقت کے کھانے کی رقم پی ٹی وی کو کھلائیں اور جو غریب اپنے منہ کا نوالہ پی ٹی وی کو نا ڈالے، حکومت اس کی بجلی کاٹ لے گی۔

ایک دوسری ہولناک خبر کے مطابق ”سینیٹ اجلاس کے دوران جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ حکومت پیٹرول کی قیمت خرید سے 100 فیصد زائد ٹیکس کیوں وصول کر رہی ہے۔ وفاقی وزیر برائے توانائی عمر ایوب نے کہا کہ پیٹرول پر 47 روپے 86 پیسے جب کہ ڈیزل پر 51 روپے 41 پیسے فی لیٹر ٹیکس وصول کر رہے ہیں، اگر حکومت ٹیکس وصول نہیں کرے گی تو سینیٹ کی لائٹس اور ارکان کی تنخواہ کا خرچہ کون دے گا۔“

کیا یہ جائز بات ہے کہ محض سینیٹ کی بتیاں جلانے اور اراکین کی تنخواہ دینے کی خاطر پٹرول پر اربوں کھربوں روپے کا ٹیکس وصول کیا جائے؟ یہ بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اسے بھی متعلقہ عدالت میں چیلنج کیا جانا چاہیے۔ حکومت اس کی بجائے قوم سے چندہ مانگ کر سینیٹ کا بجلی کا بل اور اس کے اراکین کی تنخواہوں کا بندوبست کر سکتی ہے۔ ماشا اللہ ہمارے وزیراعظم لاکھوں میں ایک ہیں اور ان کا چندہ مانگنے کا تجربہ آزمودہ ہے۔ وہ سینیٹ کے علاوہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی تنخواہوں کا بندوبست بھی کر سکتے ہیں۔ پھر غریب عوام پر بوجھ کیوں؟ کیا لاکھوں جانوں اور عصمتوں کی قربانی دے کر یہ اسلامی ملک اس لیے بنایا گیا تھا کہ یہاں حکومت غریبوں کو پیسہ دینے کی بجائے ان سے پیسہ وصول کرے؟

یہ مقدس نکتہ بھی نظر میں رکھنا چاہیے کہ پاکستان اپنا پٹرول کہیں امریکہ یا روس سے درآمد نہیں کرتا۔ ہم عرب شریف سے پٹرول لیتے ہیں اور ہمارے لیے یہ سرزمین مقدس کے تبرک کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیا لاکھوں جانوں اور عصمتوں کی قربانی دے کر یہ اسلامی ملک اس لیے بنایا گیا تھا کہ یہاں عرب شریف کے تبرکات پر بھی ٹیکس لیا جائے؟ آج سرزمین مقدس کے پٹرول پر ٹیکس لگا ہے، کل کھجور پر بھی لگ جائے گا۔ میرے منہ میں خاک، کہیں حکومت کی نظر آب زم زم پر بھی نا ہو۔ پٹرول سے گاڑی کو توانائی ملتی ہے تو آب زم زم سے روح کو۔ حکومت اس پر بھی بھاری ٹیکس نا لگا دے کہ ہر حکمران کو اتنی زیادہ چارج روحوں سے پریشانی ہوتی ہے اس لیے یہ خدشہ بجا ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1545 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments