کورونا، حکومت پاکستان اور پاکستانی عوام


حضرت انسان کو ماضی میں ایسی کئی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، ایسی کئی وباوں کے ساتھ نبردآزما ہونا پڑا ہے، جس نے لاکھوں انسانی جانوں کو ابدی نیند سلایا ہے۔ دسمبر 2019 کو چین کے شہر ووہان میں کووڈ۔ 19 بیماری کا انکشاف ہوا، اس بیماری نے پہلے چین، پھر پوری دنیا میں اب تک ایک کروڑ سے زائد انسانوں کو متاثر کیا اور تقریباً 4 لاکھ سے زائد لوگوں کی اموات واقع ہوئیں ہیں۔ 26 فروری 2020 کو پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس رپورٹ ہوا جس کے بعد پورے ملک میں یہ وائرس بہت تیزی سے لوگوں کو شکار کرتا رہا، اب تک 2 لاکھ 40 ہزار سے زائد لوگ اس سے متاثر ہوئے اور تقریباً 5 ہزار لوگوں کی کوڈ۔ 19 کی وجہ سے اموات واقع ہوئیں ہیں۔ یہ بیماری جہاں انسانی جانوں کے لئے خطرہ ثابت ہو رہی ہے وہیں اس نے پوری دنیا کو معاشی طور پر بھی بہت نقصان پہنچایا ہے۔ دوسری طرف ایک ریسرچ کے مطابق لاک ڈاؤن کی وجہ سے دفاعی تہہ اوزون مندمل ہوکر تقریباً واپس نارمل حالت میں آ گئی ہے، جو کہ ایک خوشی کی خبر ہے۔

وائرس ایک ایسی شے کو کہتے ہیں جو کہ خود بے جان ہے مگر جب یہ کوئی زندہ خلیہ میں داخل ہوتا ہے تو اپنی تعداد بڑھانا شروع کردیتا ہے۔ کووڈ۔ 19 بیماری کورونا وائرس فیملی کے ایک نئے وائرس کی وجہ سے واقع ہوتی ہے۔ کووڈ۔ 19 وائرس بھی سارس (SARS) گروپ کی ایک قسم ہے، سارس سانس کی بیماریوں کا موجب بننے والے وائرسز کا ایک مخصوص گروپ ہے۔ اس بیماری کی علامات میں شدید بخار، کھانسی، سانس کی تکلیف، وغیر شامل ہیں۔

یہ بیماری ایک متاثرہ انسان سے دوسرے انسان میں سانس کے ذریعے نکلنے والے ننھے قطروں سے پھیلتی ہے اس کے علاوہ اگر یہ قطرے کسی سطح پر پڑے ہوں تو بھی یہ بیماری پھیلانے کا باعث بنتے ہیں، یہ بیماری بہت تیزی سے پھیلتی ہے اور عمر رسیدہ لوگ اس کا بہت جلد شکار ہوسکتے ہیں۔

اس بیماری کی ابھی تک کوئی ویکسین موجود نہیں ہے، مگر ڈبلیو ایچ او کے مطابق 17 کلینیکل ٹرائلز اس وقت زیر مطالعہ ہیں، فی الوقت مضبوط قوت مدافعت کے ذریعے ہی اس کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔

پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جسے کمزور معیشت کے علاوہ بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ کورونا وائرس کے وارد ہونے کے بعد سے پاکستان کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ کورونا سے متاثرہ 180 سے زائد ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے، ذیل میں کورونا وائرس کے بعد حکومت پاکستان کی طرف سے لئے گئے چند اقدامات کا ذکر ہے۔

چونکہ اس بیماری کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں ہوا ہے، لہذا اس کا واحد حل احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہے، اسی مقصد کے پیش نظر حکومت پاکستان نے تقریباً ایک مہینے تک پورے ملک میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا۔

لاک ڈاؤن کی وجہ سے بے شمار معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے حکومت نے ”سمارٹ لاک ڈاؤن“ کا فیصلہ کیا، جس کے مطابق جہاں کورونا کیسز رپورٹ ہوں وہاں کے مکینوں کی نقل و حمل کو روک دیا جائے گا۔

تعلیمی ادارے چونکہ رش کی جگہیں ہوتی ہیں لہذا وائرس کے بڑھنے کے خطرے کی وجہ سے تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ طلبہ کے تعلیمی نقصان کو کم کرنے کے لیے گریڈ ایک سے بارہ جماعت تک کے لئے ”ٹیلی سکول“ کے نام سے ایک چینل کا آغاز کیا گیا، جبکہ جامعات کے طلبہ کے لئے آن لائن ایجوکیشن کی اہمیت پر زور دیا گیا۔

یہ ایک نئی بیماری ہونے کی وجہ سے آغاز میں ٹیسٹنگ کٹس دستیاب نہیں تھیں تاہم بعد میں استطاعت بڑھا کر 50 ہزار یومیہ کے قریب کر دیا گیا، تاکہ زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ کیے جاسکیں۔

لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروبار زندگی شدید متاثر ہونے کی وجہ سے غریب لوگ فاقوں کی نوبت تک آپہنچے، حکومت نے اس حوالے سے احساس پروگرام کا آغاز کیا اور لوگوں کو فی خاندان 12 ہزار روپے تقسیم کیے اس کے علاوہ کاروبار متاثر ہونے والوں کو بھی معاوضہ دیا گیا۔

نیشنل کمانڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے نام سے ایک فورم بنایا گیا جس کا کام کوڈ۔ 19 کے حوالے سے ڈیٹا اکٹھا کرنا، اور تجزیہ کرنا شامل ہے، اس میں تمام صوبوں بشمول آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی بھی نمائندگی موجود ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے آئی ایم ایف سے کمزور معیشت والے ممالک کے قرضوں میں رعایت کا مطالبہ کیا، اس حوالے سے سٹیٹ بینک نے پاکستان کو عالمی اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے ایک ارب ڈالر موصول ہونے کی تصدیق کی ہے۔ حکومت نے کورونا کے مریضوں کو دوسرے مریضوں سے الگ رکھنے کے لئے قرنطینہ مراکز بنائے اور کورونا مریضوں کے علاج کے لئے ہسپتالوں کو مخصوص کیا۔

آغاز میں عوام نے اس وائرس کو بالکل بھی سنجیدہ نہیں لیا جس کی وجہ سے مثبت کیسز میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے کو ملا، مگر آہستہ آہستہ لوگوں میں شعور آتا گیا اور لوگ احتیاط اختیار کرنے لگے۔

اس بیماری کے کیسز بڑھنے کی ایک وجہ اس کو عمومی طور پر سنجیدہ نہ لینا قرار دیا جا سکتا ہے۔ پاکستانی کی کثیر آبادی دیہی علاقوں پر مشتمل ہے، وہاں معلومات کی بروقت رسائی نہ ہونے یا غلط معلومات پھیلنے کی وجہ سے کورونا کے مقامی سطح پر مثبت کیسز میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھا گیا۔ پاکستان فلاحی کاموں اور خیرات کرنے والے ممالک میں شمار ہوتا ہے، کورونا کی آمد کے اول دن سے ہی پاکستانی عوام نے اپنے دوسرے بے سہارا بہن بھائیوں، کی کھل کر مالی مدد کی اور دیگر فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

پاکستان میں کورونا کیسز کے اضافہ کے لئے صرف حکومت ہی نہیں بلکہ عوام بھی برابر کے شریک ہے، اور اس کی کمی بھی حکومت اور عوام دونوں کے تعاون کی بدولت ہی ممکن ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حتی الوسع احتیاطی تدابیر اپنائی جائیں اور اس بیماری کے حوالے سے عوام کو سنجیدہ سوچ اور ذمہ دارانہ روش اپنانی چاہیے۔ حکومت وقت کو بھی

اقوام عالم کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جامع اور مربوط حکمت عملی وضع کرنی چاہیے تاکہ جلد از جلد اس بھیانک صورتحال سے بطریق احسن باہر نکلنے کی سبیل بنے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments