رزق کی ترسیل کس فرشتے کے ذمے ہے؟


ہمارے ہاں کسی غریب بستی کے سرکاری اسکول میں معائنے کے دوران صرف چند سوالات کے متوقع جواب نہ پا کر اساتذہ اور اسکول کو نا اہل اور بچے کو نکما ظاہر کرنے اور قوم کے منو رنجن کے لیے ایک ویڈیو لازمی بنائی جاتی ہے۔ تاکہ بیگار، فرض کی ادائیگی کی صورت میں محفوظ ہو جائے۔ پڑھنے لکھنے، اور سوال کرنے والے سے سوچنے سمجھنے اور غور و فکر کرنے اور سوال اٹھانے والا بہتر ہوتا ہے۔

اسکول اور اساتذہ کا مضحکہ اڑا کر محض اپنی نوکری جسٹیفائی کرنے اور جی حضوری کرنے والوں کے لیے ان بچوں کے آگے بڑھنے کے جذبے اور کچھ کر دکھانے کی صلاحیت سمجھنا ان کے بس کی بات ہوتی تو سوالات کی نوعیت یہ نہ ہوتی۔

جانچ کے لیے سوالات ملاحظہ فرمائیں۔
لکھو میں پاکستانی ہوں۔
موت کے فرشتے کا نام بتاؤ۔
اچھا بتاؤ رزق کی ترسیل اور بارش برسانے کی ذمہ داری کس فرشتے کی ہے۔

واٹر معنی؟ اچھا اسپیلنگ بتاؤ۔
اچھا 48 اور 39 کو جمع کرو۔

جس بچے نے کچا پکا لکھا میں پاکستانی ہوں۔
اس پر اسے شاباشی ملنی چاہیے۔
اسے آج بھی بتایا نہیں گیا، بلکہ اس کی لکھنے کی صلاحیت ہی جانچی گئی۔
اسے تو یہ ہی معلوم ہے کہ وہ مکرانی ہے۔

اگر آٹھویں جماعت کا بچہ رزق اور موت بانٹنے کے کام اپنی یادداشت کے مطابق جبرائیل اور اسرافیل کو سونپ بھی دے تو فرق کیا پڑتا ہے۔ معصوم میکائیل تو یوں بھی ادھر نہیں دیکھتا۔

اگر وہ یوں ہی دھپل میں درست جواب دے بھی دے تو ، رات کے وقت ٹھیلے کی گلی سڑی سستی سبزی اسے کیا مفت مل جائے گی، ماں باپ بیماری کی حالت میں چھٹی کر لیں تو پیسے پھر بھی کٹیں گے، اور پرچون والا دس تاریخ کے بعد بھی آٹا چینی ادھار دے دے گا یہ بھی نہیں ہو سکتا۔

عزرائیل ناراض ہو کر اپنا کام بند کر دیں یہ بھی ممکن نہیں۔

انگریزی لفظ واٹر کے معنی اور اسپیلنگ اس غریب بچے نے غلط بتا دیے تو پوچھنے والے پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔

اس بستی کے تمام بچوں نے واٹر لفظ منرل کے ساتھ ہی سنا۔ تو کچھ اور ہی مفہوم اخذ کیا۔ ورنہ وہ غریب تو چھوٹے بڑے ڈبوں میں پانی لینے دور ایک نلکے کے پاس جاتے ہیں۔ دو گھنٹے اس بنیادی ضرورت کے حصول میں خرچ ہو جاتے ہیں۔

جمع، تقسیم کے آسان سوال بھی کچھ بچے نہ کر سکے، لیکن اگر وہ جمع کرتے، ایک دو عدد گھٹا بڑھا دیں، کیا فرق پڑتا ہے۔

سوال پوچھنے والوں نے جو کبھی خواہشات تقسیم اور ضروریات منہا کی ہوں، تو شاید وہ سوال کی اخلاقیات اور بچوں کے جوابات سے زندگی کا صحیح مفہوم اخذ کر سکیں۔

ایک صاحب موجودہ نسل کے تعلیمی معیار کو پرکھتے ہوئے گویا ہوئے۔
بھئی حد ہے، آج کل تو پڑھے لکھے بچوں کو درخواست لکھنا بھی نہیں آتی۔

ہم نے انہیں سمجھایا اب درخواست کا نہیں خط کا زمانہ ہے۔
کہنے لگے۔
تو خط بھی کہاں لکھنا آتا ہے۔
اب ایسے نکتہ چیں بزرگوں سے کوئی کیا کہے کہ جنہیں درخواست یا خط ہی لکھنا آتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments