میرا جھوٹا باپ


(روایت در زبان انگلش: پروفیسر شاہ جہاں خان)

ہمارے خان صاحب اور ایڈیٹر صاحب میں کئی اقدار مشترک ہیں۔ دونوں وسیع القلب، انسان دوست، خوفناک حد تک آزاد خیال اور ہم عمر ہیں۔ دونوں ہی رات گئے جب ساغر جم کو اپنا جام سفال بنا کر محفل سجا لیتے ہیں تو خان صاحب کا رخ افغانستان کی طرف اور ایڈیٹر صاحب کا رخ امرتسر کی جانب ہو جاتا ہے۔ چاند امائوس کی رات کا ہو کہ سر شاخ صنوبر اٹکا کاتک کا چاند، یہ دونوں قلقل مئے کی زمزمہ پیمائی میں اسے بلا لیتے ہیں۔ وہ بھی ہرجائی ہے، ہر گھر میں اتر جاتا ہے۔ ایک اور بات جو ہم نے انہیں نہیں بتائی۔ دوستی میں ہر بات بتانے کی تھوڑی ہوتی ہے۔ داغ نے کہا تھا نا کہ

دل میں رکھنے کی بات ہے غم عشق

اس کو ہرگز نہ برملا کہیے

ان دونوں کی کسی بات کا رات دس بجے کے بعد اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ دونوں کے پاس داستانیں بھی بہت ہیں۔ ہم خود بھی چونکہ ان محبان مخلص کے لطف و کرم کے قصہ خوانی بازار میں توجہ کا کاسہ لیے گھومتے ہیں۔ اس لیے فقیر کا دامن ان کی عطا سے بھرا ہی رہتا ہے۔

قصے تو بندہ خاکی کے پاس بھی بہت ہوتے ہیں۔ وہی بندہ خاکی جن کی بسائی ہوئی کراچی کی ایک بستی ڈی ایچ اے کے ایک ہوٹل یعنی کارلٹن ہوٹل کے اشتہار میں ویسی ہی شوخی ہوتی تھی جیسی ونڈر برا کے اشتہار اور ان کی خفیہ جے آئی ٹی رپورٹوں میں ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علی زیدی اب تک جے آئی ٹی کا تیسرا حصہ تلاش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اپنے دور نمود و بے باکی میں ونڈر برا کا اشتہار کہتا تھا کہ A woman has many sides. We cover all.۔ اس ہوٹل کا اشتہار بھی اپنے ایام ابتدائی میں بندگان ہوس کو اپنے چن سمیت رات گزارنے کے لیے یوں متوجہ کیا کرتا تھا Three Floors and many stories۔

اب اس مملکت عفت وحجاب میں ایسے اشتہار وہی لگا سکتا ہے جسے خوف خمیازہ نہ ہو۔ عدالت جس کی طرف سو موٹو کی نگاہ بدذات ڈالے تو اسے لگے کہ دریائے انصاف کا دل ان کے جواں ہمت ،مردان سرفروش کی جوابی طوفان نگاہ سے دہل گیا ہے اور وہ مینا کماری کی طرح گھونگٹ میں منھ ڈال گھبرا کر بول پڑے گی کہ ’میں چپ رہوں گی‘

ویسے تو پابند صوم صلوۃ، نیک دل پختون، وضو کے پانی میں بھی ڈوب ڈوب جاتا ہے مگر ہمارے یوسف زئی دیوان خیل خان صاحب Scuba Diver ہیں۔ ان کا یہ شوق ہم سمجھے طالبان کا سونپا ہوا مشن ہو گا اس وجہ سے ڈائیور ہیں۔ اللہ کا کرنا کیا ہوا کہ ایک دن بحر الکاہل کے گہرے سمندر میں چھلانگ لگائی مگر بعد میں پتہ چلا کہ شہادت سے زیادہ بھابھی صاحبہ کی زیر آب رفاقت مطلوب و مقصود مومن تھی۔ وہ بھی کسی کورل ریف کو نہر والا پل مان کر وہاں موجود تھیں۔ وہ انہیں بر وقت کھینچ کر باہر نہ نکالتیں تو حضرت آج بھی وہیں ٹائی ٹینک بنے پڑے رہتے۔ بھابھی صاحبہ بھی کمال کی خاتون ہیں ہیں۔ ہم سے کہتی ہیں کہ اس آدمی کو بچانا میری وہ نیکی تھی جس کا خمیازہ مجھے تمام عمرشادی کی صورت میں بھگتنا پڑا۔

چین کے انتہائی شمالی علاقے ہاربین کے ایک ایسے قصبے سے تعلق ہے جو چین، منگولیا اور روس کا سرحدی علاقہ ہے۔ یہاں کی عورتین دل پھینک اور مرد حاسد ہوتے ہیں۔ دونوں ہی بے باک اور جفاکش بھی۔ ہمیں بتارہی تھیں کہ تمہارے اس مسلمان چنگیز خان کو لے کر ایک رات میں ہمارے علاقے کے کسی بار میں بیٹھی تھی کہ میرے ایک جاننے والے پرانے بڑے میاں ہماری ٹیبل کی جانب چلے آئے۔ اس سے پوچھا انگلش آتی ہے۔ بجائے اس کہ مجھ سے روسی چینی یا منگولین زبان میں بات کرتے خان کو سنانے کے لیے انگلش میں کہنے لگے۔ تمہیں روس چائنا اور منگولیا میں کوئی مرد نہیں ملا تھا کہ تم نے اس فضول انسان سے شادی کی۔

بھابھی جب موسم سرما میں اپنے میکے ہوتی ہیں تو انہیں گھڑ سواری، سیل کا شکار اور اور تھیٹر اور برفانی میلے دیکھنے ہوتے ہیں، ان دنوں ان کے دل سے خان صاحب کی یاد یکسر محو ہوجاتی ہے۔ ایسے میں خان صاحب بھی خیال یار کی چادر اوڑھ کر پرکھوں کی جاگیر کا کچھ حصہ بیچ کر سیاحت کو نکل پڑتے ہیں

پچھلے دنوں وہ کرابی کے جزیروں میں جا پہنچے۔ یہ تھائی لینڈ کا شمال ہے، سامنے ہی پھوکیٹ اور کچھ دور ملایشیا۔ جزائر کا ایک مجموعہ بے ترتیب اسی بحیرہ انڈیمان میں بکھرا پڑا ہے۔ یہاں برطانوی راج میں کالے پانی کی سزا کے لیے سرکار کی سرکشی پر تلے ہوئے ملزمان کو بھارت سے بھیجا جاتا۔

پچھلے دنوں خان صاحب تھائی لینڈ میں کرابی سے ایک چھوٹے سے فشنگ ویلج میں پہنچے۔ یہاں ایک چھوٹے سے جزیرے پر انہیں ایک مچھیرن ملی،عمر چوبیس برس،نام کونگ۔ دوران گفتگو خان صاحب کو لگا کہ وہ خاصی بے چین ہے۔ بار بار سمندر کی جانب تکتی ہے۔ ان سے باتیں کرتے کرتے انہیں وہ ایک چھوٹی سی چٹان پر لے گئی۔ یہاں سے سمندر دور دور تک دکھائی دیتا تھا۔

مقصود یہ تھا کہ باپ جو ایک پرانی کشتی لے کر مچھلی کے شکار پر گیا تھا اس کو تلاش کریں۔ آج موسم بڑا بے ایمان تھا ، سمندر بھی خاصا بپھرا ہوا تھا۔ شام کے سائے گہرے ہو چلے تھے۔ اس کا باپ عام طور پر شام ڈھلنے سے پہلے ہی آجاتا تھا مگر آج دیر ہو چلی تھی۔ ایک کشتی نظر تو آرہی تھی۔ اس میں ایک چراغ بھی جل رہا تھا۔ خان صاحب نے اشارہ کیا تو کونگ کا کہنا تھا یہ وہ نہیں۔ ایک تو ان کی کشتی پرانی اور چھوٹی ہے اور اس میں روشنی کا کوئی انتظام نہیں۔

خان صاحب کو حیرت ہوئی کہ کونگ کا لہجہ ضرور نامانوس تھا مگر ٹوٹی پھوٹی انگلش عام تھائی باشندوں سے بہتر تھی۔ انگریزی حرف ’’ آر‘‘ کی جگہ ’’ ایل‘‘ کا استعمال مقامی لہجے کی وجہ سے حاوی تھا۔ اسی لیے ورک ، ولک بن گیا تھا، تھری کی جگہ تھلی نے لے تھی۔ لہجے میں غیر ضروری گنگناہٹ اور الفاظ کی ادائیگی میں غیر معمولی طوالت بھی تھی۔ اب اس بے چاری کی انگریزی کی غلطیاں کیا نکالنا۔  ان صاحب نے پوچھا کہ انگلش کہاں سے سیکھی ہے تو کہنے لگی کہ کرابی بڑا شہر ہے میں وہاں ایک غیر ملکی جوڑے کے گھر تین سال تک ملازمہ تھی۔ ان کا اگلا سوال یقینا اس بارے میں تھا کہ وہ ملازمت چھوڑ کر کیوں چلی آئی۔ کرابی اس کے اس جزیرے والے گائوں سے تو بڑا ہے۔ یہاں ان کا ذریعہ آمدنی بھی بہت محدود ہے۔

کہنے لگی کہ وہ جوڑا چلا گیا تو مجھے کسی نے ملازمت نہیں دی۔ وہاں ہوٹل اور بارز ہیں۔ سیاح بہت آتے ہیں۔ ہوٹل بارز والے بہت بے رحم ہیں،کوئی ایسی ملازمہ نہیں رکھتے جو دیکھنے میں اچھی نہ ہو۔ میری شکل بھی عام سی ہے اور مجھے ایک آنکھ سے دکھائی بھی نہیں دیتا۔ آپ تو جانتے ہیں۔ عورت کی شکل اچھی نہ ہو تو اس کو کوئی نہیں کھنکھارتا۔

میرا باپ مجھے کہتا تھا کہ میں جزیرے کی سب سے حسین لڑکی ہوں۔ جب تک میں گائوں میں تھی مجھے بھی ایسا ہی لگتا تھا کہ میرے باپ کی بات دنیا کی سب سے بڑی سچائی ہے۔ جب میں کرابی گئی تو میرے منھ پر ہر دفعہ طمانچے لگتے جب مجھے مختلف حیلوں بہانوں سے لوگ جتاتے تھے کہ میں بالکل حسین نہیں ہوں۔ کچھ لوگ تو میری ایک آنکھ کی بدصورتی اور میری بینائی تک کا مذاق اڑاتے تھے۔ ان میں زیادہ تر عورتیں شامل ہوتیں۔ ایسا ہوتا تو مجھے اپنے باپ پر بہت غصہ آتا تھا کہ وہ مجھ سے جھوٹ کیوں بولتا تھا۔ باپ بھی بیٹیوں سے کبھی جھوٹ بولتے ہیں۔

میری ماں ہم دونوں کو چھوڑ کر کہیں چلی گئی۔ مجھے پتہ بھی نہ چلا کہ میں کب بڑی ہوئی۔ میرا باپ ہی میری ماں تھا۔ میرے باپ نے مجھے بس دو باتیں سکھائیں۔ سمندر میں غوطہ کیسے لگانا ہے اور سمندر میں تیر کر جان کر کیسے بچانی ہے۔ مجھے کرابی میں احساس ہوا کہ میری ماں ہوتی تو مجھے بتاتی کہ عورت خود کو قابل قبول اور مردوں کے لیے دلکش کیسے بناتی ہے۔ صبح اٹھ کر سمندروں میں چلے جانے والے اور رات کو تھک ہار کر لوٹ آنے والے ایک مچھیرے کو کیا پتہ کہ عورت کی سجاوٹ بناوٹ کا اہتمام کیوں اور کیسے ہوتا ہے۔

مجھے سمندر سے کوئی گھبراہٹ نہیں ہوتی۔ مرد اور عورتوں سے مجھے بہت الجھن ہوتی ہے۔ سمندر اتنا بے رحم نہیں ہوتا جتنا ہمیں باہر سے لگتا ہے۔ آپ کو اپنا لے تو پالتا ہے، گلے لگاتا ہے۔ بے رحم اور بد گو بدلحاظ تو انسان ہوتا ہے۔ سمندر اگر آپ کو کبھی سزا بھی دیتا ہے تو وہ پرائمری کے استاد جیسی۔ آپ اگلی دفعہ وہ غلطی نہیں کرتے۔ میں اسے استاد اور ماں مانتی ہوں کہ کبھی کبھار مجھے وہ کوئی موتی بھی دیتا ہے۔ ہماری پیسوں کی ضرورت اتنی شدید ہوتی ہے کہ ہمیں پتہ بھی نہیں کہ اس موتی کی کیا قیمت ہے جو میری ماں سمندر نے مجھے دیا ہے۔ بک جاتا ہے تو ہمارا کچھ دن گھر اچھا چلتا ہے۔

یہ جو دوسرے لوگ ہیں نا ، وہ مرد بھی جو مجھے اچھے لگتے ہیں، وہ عورتیں جو بن سنور کربہت اتراتی تھیں، وہ بہت ظالم ہوتے ہیں وہ آپ کو کچھ نہیں سکھاتے۔ کیا میں آپ کا چشمہ لگا کر دیکھوں۔ شاید میرا باپ مجھے آتا ہوا دکھائی دے جائے۔ مجھے لگتا ہے میری دوسری آنکھ کی بیماری بھی میری اداسی کی وجہ سے متاثر ہورہی ہے۔ خان صاحب نے چشمہ تو دے دیا مگر جتا دیا کہ شاید یہ مددگار نہ ہو۔ چشمہ لگا کر وہ ہنستی رہی کہ تم ٹھیک کہتے ہو۔ اب تو میں ہاتھی بھی نہیں دیکھ سکتی۔

انہوں نے اسے جب جتایا کہ وہ خوب صورت ہے۔ کس نے کہا کہ وہ حسین نہیں۔ کہنے لگی کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں بھی اپنے باپ کی طرح جھوٹا سمجھوں؟۔ تم کو کیا پتہ ہے کہ اس دنیا میں مجھے صرف ایک  وجود ایسا ہے جس نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں دیکھنے میں اچھی نہیں ہوں۔ میں جیسی بھی ہوں اس کی لہریں اور مچھلیاں میری دوستوں کی طرح مجھے گلے لگا کر میری ہم جولیوں کی طرح رہتی ہیں۔ سمندروں کے گہرے پانیوں کا سکوت میرا سب سے بڑا راز داں ہے۔ تم کو شاید یہ نہ معلوم ہو کہ سمندر زیر آب بہت چپ اور گلے لگا کر رکھنے والا وجود ہے۔ ماں کی گود جیسا محبتیلا۔

 وہ جب واپس آئے تو اس کا باپ آ چکا تھا مگر کشتی آتے آتے بری طرح ٹوٹ گئی تھی۔ خان صاحب نے اسے ڈالر دیے کہ وہ بنوالے جو اس نے چپ چاپ رکھ لیے۔ اگلی صبح جاتے وقت اس سے تصویر بنانے کی فرمائش کی تو وہ کہنے لگی یہ نہیں ہو سکتا۔ کیمرے ان عورتوں کے لیے تھوڑی بنے ہیں جو میرے جیسی ہیں۔ تم کو اگر میری بات بری لگی ہو تو اپنے ڈالر واپس لے لو۔ اس لڑکی کو دینا جو حسین ہو اور تمہاری تصویر کی فرمائش بھی پوری کر دے۔ مجھے کوئی موتی ملے گا تو میں کشتی بنوا لوں گی۔

اقبال دیوان
Latest posts by اقبال دیوان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 99 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments