رانا اعجاز محمود۔ ۔۔۔ قافلہ درد کا اب کیا ہو گا


پہلی دفعہ ایسا ہو رہا ہے کہ کچھ لکھنے بیٹھا ہوں تو سمجھ نہیں آ رہا کہ شروعات کہاں سے کروں۔ آج اس شخصیت کے بارے میں قلم اٹھا رہا ہوں جس نے مجھے یہ قلم پکڑنا سکھایا، اس قلم کی حرمت سے روشناس کروایا۔ رانا اعجاز محمود صاحب ایک عہد ساز شخصیت تھے۔ اگر ہم رانا صاحب کے اپنے الفاظ میں بیان کریں تو ایسے دانے دنیا میں بہت کم رہ گئے ہیں۔ رانا صاحب سے پہلی ملاقات تب ہوئی جب وہ ڈائریکٹر تعلقات عامہ بہاول پور تعینات ہوئے۔ میں جب ان کے دفتر میں داخل ہوا تو پہلی نظر ان کی کرسی کے پیچھے الماری میں موجود دنیا جہان کی بھاری بھرکم کتابوں پر پڑی۔ پہلی ملاقات میں رانا صاحب کی جادوئی شخصیت اور سحر انگیز گفتگو نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا، ان کی ایک کمال عادت تھی کہ پہلی ملاقات میں اتنی بے تکلفی اور محبت سے پیش آتے کہ مقابل کو لگتا کہ رانا صاحب سے صدیوں پرانا تعلق ہے۔

ایک دفعہ ہمارے ایک بزرگ صحافی دوست موسیٰ سعید صاحب میرے ساتھ ان کے گھر ان سے ملنے گئے ہماری یہ نشست چھ بجے شروع ہوئی اور رات کے بارہ بج گئے میں نے سوچا اب اجازت لی جائے، میں نے جب ایک دو بار گھڑی کی طرف دیکھا تو رانا صاحب فورا مدعا سمجھ گئے اور فورا بولے آج رات موسیٰ سعید صاحب میرے گھر پر ہی قیام کریں گے تم جانا چاہتے ہو تو چلے جاﺅ۔ میں اور موسیٰ سعید صاحب بعد میں اکثر پہلی ہی ملاقات میں ان کی اس بے تکلفی اور محبت کو یاد کر تے اور اکثر محظوظ ہوتے۔ ذکر ہو رہا تھا ان سے پہلی ملاقات کا تو انہوں نے پہلی ہی ملاقات میں اتنی محبت، اپنائیت اور عزت دی کہ میں نے ان سے فوراً دوسری ملاقات کی خواہش کا اظہار بھی کر دیا۔ انہوں نے گرم جوشی سے کہا کہ شام کو میں دیر تک دفتر ہی ہوتا ہوں تم آ جایا کرو۔ بلکہ مجھے یاد ہے انہوں نے الفاظ استعمال کیے کہ “یار شام مینوں کھاندی اے” ان کے الفاظ میں ایسا کرب تھا جس نے ان کی شخصیت بارے میرے دل میں تجسس پیدا کر دیا۔ میں نے سوچا اتنی رات گئے تک رانا صاحب دفتر میں کیوں بیٹھے رہتے ہوں گے، مجھے خیال آیا انہوں نے شاید شادی وغیرہ نہیں کی اور یہ یقینا کسی ناکام عشق کا شاخسانہ لگتا ہے۔ میرے اندر جیمز بانڈ والی حسیات نے کام شروع کر دیا۔ کچھ پوچھنے کی تو ہمت نہ کی مگر میں نے کھوج لگانا شروع کر دیا۔

پھر باتوں باتوں میں ایک دن انہوں اپنی بیگم اور بچوں کا ذکر کیا تو میرے جاسوسی والے سارے ارمانوں پر اوس پڑ گئی اب یہ تو پتہ چل گیا کہ رانا صاحب شادی شدہ اور بال بچے دار ہیں۔ پھر میں نے سوچا ان کی بیوی بچے چوک اعظم رہتے ہوں گے اور رانا صاحب بہاول پور میں بیوی بچوں کے بغیر اداس ہیں اور ان کا یہاں دل نہیں لگ رہا۔ پھر پتہ چلا کہ ان کے بیوی بچے بھی ان کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ وہ اپنی بیگم کا ذکر اس انداز سے کرتے کہ میں دل میں سوچتا کہ وہ کیسی خاتون ہوں گی جنہوں نے اس ساڑھے چھ فٹ کے بندے (بقول سجاد جہانیاں جو شکل سے رانا سانگا کی فوجوں کے سپہ سالار نظر آتے ہیں) کو اتنا ڈرا رکھا ہے۔ رانا صاحب ڈرنے کی اداکاری اتنے حقیقی انداز میں کرتے کہ میرے ذہن میں خالدہ باجی کی شخصیت کا ایسا خاکہ بن گیا کہ چھ فٹ سے زائد قد کی ایک مرد مارخاتون غصہ جن کی نا ک پر دھرا رہتا ہو گا، پیشانی ہر وقت سلوٹ زدہ اور نتھنے ہر وقت غصے سے پھڑکتے رہتے ہوں گے، مگر باجی خالدہ سے جب پہلی ملاقات ہوئی تو دھان پان اور نفیس سی باجی خالدہ کو دیکھ کر میں بہت حیران ہوا اور رانا صاحب کا ان کے بارے میں کیا جانے والا پروپیگنڈہ اور اپنے ذہن میں موجود ان کا خاکہ بغیر لگی لپٹی رکھے ان کے گوش گزار کر دیا۔ یہ بات یاد کر کے ہم اکثر خوب ہنستے تھے بلکہ رانا صاحب بھی کبھی فرمائش کر کے یہ قصہ مجھ سے سنتے۔

پھر تو رانا صاحب سے روزانہ کی بنیاد پر ملاقاتیں شروع ہو گئیں روزانہ کئی گھنٹے ان کی صحبت میں گزرتے، مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی۔ رانا صاحب واقعی علم کا سمندر تھے۔ ہر موضوع پر اتنی زیادہ معلومات رکھنے والا شخص میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ ان کی گفتگو اتنی زیادہ معلوماتی اور دلچسپ ہوتی کہ ان کی صحبت میں وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلتا۔ اکثر رانا صاحب صبح اٹھتے تو فو ن کر دیتے کہ خلیفہ صاحب فٹا فٹ آ جائیں ناشتہ اکھٹے کرتے ہیں۔ رانا صاحب کی عجیب عادت تھی کہ کھانے کی ٹیبل پر جب باجی دنیا جہان کی اچھے سے اچھی ڈشزلگا دیتی تو رانا صاحب ایک عدد انڈے کی فرمائش کر دیتے جس پر باجی کا ضبط جواب دے جاتا تو پھر وہ میری موجودگی کا بھی لحاظ نہ کرتیں۔ رانا صاحب اس موقع پر بالکل مسکین بنے تمام باتیں سنتے رہتے جب باجی بول بول کر تھک جاتیں تو نہایت عاجزی سے کہتے کہ کیا میں ایک انڈے کی بھی فرمائش نہیں کر سکتا تو میری اور باجی دونوں کی ہنسی نکل جاتی اور پھر باجی بڑ بڑاتے ہوئے انڈہ بنانے چلی جاتی۔

رانا صاحب روزانہ چائے کے آٹھ سے دس کپ پینے کے بھی عادی تھے اور میں ایک آدھ کپ بھی بمشکل پیتا۔ میری اس کارکردگی سے وہ بہت مایوس تھے فرماتے تھے اگر تم دانشور بننا چاہتے ہو تو روزانہ کم از کم آٹھ سے دس کپ چائے تو پینی پڑے گی اتنے سال ساتھ رہنے کے باوجود بھی میں رانا صاحب کے مزاج کو سمجھ نہ پایا ان کی شخصیت پیاز کی طرح پرت در پرت آشکار ہوتی مگر ہر پرت محبت شفقت اور خلوص کا مرکب ہوتی تھی۔ کبھی مجھے یہ لگتا کہ رانا صاحب جیسا صاحب علم، ذی شعور اور دانشمند انسان اس روئے زمین پر نہیں، کبھی مجھے لگتا ان جیسا سیدھا سادھا اور بھولا بھالا انسان کوئی اور نہیں۔ مزاج میں بچوں جیسا خلوص، محبت اور بھول پن تھا۔ کسی انسان پر شدید غصہ ہوتے تو گھنٹہ بعد ہی خود بخود مان جاتے۔ جب ریاض بھٹی صاحب رانا صاحب کی جگہ بہاول پور تعینات ہو گئے تو رانا صاحب کو ان پر شدید غصہ تھا۔ دراصل رانا صاحب بہاول پور سے کہیں اور جانا نہیں چاہتے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ ان کی بڑی بہن تھیں جو ان دنوں شدید علیل تھیں اور رانا صاحب کے خیال میں بہاول پور جیسی علاج معالجے کی سہولیات کہیں اور میسر نہ آئیں گی۔ بھٹی صاحب کی تعیناتی کا دوسرا یا تیسرا دن تھا میں نے اور رانا صاحب نے ناشتہ اکٹھے کیا اور خوب پلاننگ کی کہ ریاض بھٹی صاحب سے بدلہ کیسے لینا ہے مگر شام کو جب میں رانا صاحب سے ملنے گیا تو کہنے لگے یار میں خواہ مخواہ ریاض بھٹی پر ناراض تھا۔ اس بے چارے کی بھی اپنی مجبوریاں ہیں کس کا دل نہیں چاہتا کہ اپنے گھر میں نوکری کرے۔ اس کی ملازمت کا تو ویسے بھی آخری سال ہے۔ میں حیران تھا کہ یکایک یہ کایا کلپ کیسے ہوئی تو باجی نے بتایا آج دوپہر ریاض بھٹی صاحب تشریف لائے تھے اور کھانا بھی اکٹھے کھایا تو مجھے رانا صاحب کی سادگی پر بے اختیار ہنسی بھی آئی اور خوب پیار بھی آیا۔

رانا صاحب اور ان کی بیگم کے تعلقات بھی کچھ عجیب تھے سارا دن ایک دوسرے کے ساتھ نوک جھونک بھی جاری رہتی اور ایک دوسرے کے بغیر گزارہ بھی نہ ہوتا۔ رانا صاحب کے اکثر احباب یہ سمجھتے تھے کہ ان کی اپنی بیگم سے بالکل نہیں بنتی مگر درحقیقت ایسا نہیں تھا ایک دن میں نے پوچھا مرشد باجی کو اتنا زیادہ تنگ کیوں کرتے ہیں تو چند لمحوں کے لیے بالکل خاموش ہو گئے تھوڑے توقف کے بعد بولے ذیشان میں اس عورت سے بہت پیار کرتا ہوں۔ میں اس بات کا اظہار اس کے سامنے بھی کرنا چاہتا ہوں کہ خالدہ میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں۔ تم نے مجھ جیسے شخص کے ساتھ اتنے سال گزارا کیا، میں تمہارا بہت شکر گزار ہوں (اتنی دیر میں وہ اپنے اوپر اپنا مخصوص لاپرواہی اور بےفکری کا جعلی خول چڑھانے میں کامیاب ہو گئے) پھر ہنستے ہوئے کہنے لگے یار اسے اگر یہ بتا دیا وہ تو سر پر چڑھ جائے گی۔ میں نے کہا مرشد سیانے کہتے ہیں جب انسان کو اپنی بیوی سے محبت ہو جائے تو یہ بڑھاپے کی خاص نشانی ہوتی ہے میری بات سن کر خوب محظوظ ہوئے۔

باجی خالدہ کی بھی رانا صاحب سے محبت مثالی تھی۔ بیماری کے ایام میں جس طرح باجی نے رانا صاحب کی خدمت کی، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ جب ان کا کورونا رزلٹ پازیٹو آیا تو میں ان کے پاس کچھ دیر کے لیے جاتا تو بھی اندر سے خوف زدہ رہتا تھا مگر باجی خالدہ نے اپنی جان اور صحت کی پرواہ کیے بغیر دن رات ایک کردیا۔ رانا صاحب ایک دن مجھے کہنے لگے یار تیری باجی نے میرے لیے اپنی جان داﺅ پر لگا دی ہے۔ رانا صاحب جب سول ہسپتال میں داخل ہوئے تو ہم میں سے کسی کو بھی ملنے کی اجازت نہ تھی خالدہ باجی کی شدید خواہش تھی کہ وہ رانا صاحب کے ساتھ ہسپتال میں رہیں مگر یہ خواہش پوری ہونا ممکن نہ تھا جتنے دن رانا صاحب آئسولیشن میں رہے چند گھنٹے بھی باجی خالدہ سے رابطہ نہ ہوتا تو باجی مضطرب ہو جاتیں۔ رانا صاحب کا اپنے بہن بھائیوں سے پیار بھی مثالی تھا سب بھائیوں کے بچے انہیں بابا کہہ کر پکارتے تھے۔ جاوید بھائی نے بھی ان کا بیماری کے ایام میں ان کا بہت خیال رکھا، ناصر بھائی اور خالد بھائی دور ہونے کے باوجود پل پل کی خبر رکھتے۔

جن لوگوں کی رانا صاحب سے سرسری ملاقات ہوتی وہ سمجھتے کہ رانا صاحب کچھ بے فکرے اور من موجی سے بندے تھے مگر ان کے قریب رہنے والے جانتے ہیں کہ رانا صاحب جیسا حساس اور درد دل رکھنے والا بندہ کوئی نہ تھا۔ کسی کے چھوٹے سے دکھ یا تکلیف پر کئی کئی دن تک اداس رہتے، کسی کو جانے انجانے میں ان کی کسی بات سے اگر تکلیف پہنچ جاتی تو جب تک اس بندے سے معافی نہ مانگ لیتے تو چین نا آتا تھا۔ رانا صاحب کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ ان کا ہر تعلق، ہر رشتہ یہ دعویٰ کرتا تھا کہ رانا صاحب اس سے سب سے زیادہ محبت رکھتے ہیں۔ مجھے یاد ہے، میں ایک لوکل اخبار نکالا کرتا تھا رانا صاحب کو جب یہ پتہ چلا کہ ہر ماہ اس اخبار کی پبلشنگ میں کچھ رقم میری جیب سے جاتی ہے تو بہت ناراض ہو گئے اور حکم دیا کہ فوراً یہ اخبار نکالنا چھوڑ دو۔ رانا صاحب کی سفارش پر میں ایک انگریزی روزنامہ سے منسلک ہو گیا۔ میں روزانہ خبریں اکٹھی کر کے لاتا رانا صاحب مجھے انگلش میں ڈکٹیٹ کرواتے (راقم کی انگریزی اور پاکستانی معیشت کی حالت ایک جیسی ہی ہے) کئی ہفتوں تک یہ معمول رہا، رانا صاحب تو نہ تھکے مگر میں خود ہی اس روٹین سے گھبرا گیا اور ایک اردو قومی اخبار سے منسلک ہو گیا۔ جب میں اس اردو روزنامہ کے فائنل انٹرویو کے لیے لاہور گیا تو رانا صاحب ہر آدھے گھنٹہ بعد فون کر کے حال احوال پوچھتے اور حوصلہ بندھاتے رہے۔ جس دن ملازمت کا پروانہ ملا تو مجھ سے زیادہ خوشی ان کو تھی انہوں نے جنید نذیر بھائی کو بلایا اور ہمیں کیپٹن کے پائے بھی کھلائے۔ رانا صاحب ہوٹل کے کھانے زیادہ پسند نہیں کرتے تھے مگر کبھی کبھارمیں جنید بھائی اور رانا صاحب کیپٹن کے پائے اور پٹھان ہوٹل کی دال کھانے خاص طور پر جاتے۔

رانا صاحب کے اصرار پر ہی میں نے ادھوری تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا اور اسلامیہ یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات میں داخلہ لیا یونیورسٹی میں یونیفارم کی کوئی خاص پابندی نہ تھی مگر وہ اصرار کرتے کہ یار تم پینٹ کوٹ میں اچھے لگتے ہو میری فرمائش پر ہی سہی اسے ضرور پہنا کرو۔ رانا صاحب بہت مجلسی انسان تھے ان کا دستر خواں بھی بہت وسیع تھا مجھے نہیں یاد پڑتا انہوں نے کبھی دفتر کھانا کھایا ہو اور ان کے ساتھ پانچ سے چھ بندے موجود نہ ہوں میں اور جنید بھائی جب بھی ان سے ملنے جاتے کئی کئی گھنٹے طویل نشستیں ہوتی مگر جب بھی اٹھنے لگتے تو وہ کہتے یار پانچ منٹ اور رک جاﺅ۔ یہ ایک دم سے اٹھ کر جانے لگے ہو، بھلے یہ کیا بات ہوئی۔ مجھے کہتے میاں جب بھی جانا ہو دس منٹ پہلے بتایا کرو تا کہ میں خود کو ذہنی طور پر جدائی کے لیے تیار کر لیا کروں۔ آخری وقت تک یہی ملاقات کا اصول طے ہو گیا کہ اٹھنے سے دس منٹ پہلے میں ان کو بتا دیتا۔ رانا صاحب چند گھنٹے کی بھی تنہائی برداشت نہیں کر سکتے تھے جب باجی بچوں کو لے کر میکے جاتی تو بھی رات اکیلے نہ گزار سکتے کسی نہ کسی دوست کو بلا لیتے استاد محترم رانا شہزاد صاحب نے کیا خوبصورت بات کی کہ رانا اعجاز کی موت کی وجہ یہ وبا نہیں بلکہ وہ تنہائی ہے جو انہیں برداشت کرنی پڑی۔

رانا صاحب مجھے وہ تمام نصیحتیں کرتے جن پر انہوں نے ساری زندگی خود عمل نہیں کیا۔ جیسا کہ مجھے سمجھاتے کہ پیسہ دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے، اسے سنبھال کر خرچ کیا کرو۔ خود ان کا اپنا یہ حال تھا کہ بلا کے شاہ خرچ تھے۔ راقم کا کچھ فارمیسی وغیرہ کا بزنس ہے مگر میں ہفتوں، مہینوں فارمیسی پر نہ جاتا تھا تو رانا صاحب خوب ڈانٹتے بلکہ جب وجاہت مسعود صاحب بہاول پور تشریف لائے تو ان سے بھی کہا کہ اس بچے کو سمجھائیں، اس کا اچھا خاصا بزنس ہے جو توجہ نہ دینے کے باعث برباد ہوتا جا رہا ہے تو وجاہت مسعود صاحب نے پوچھا کہ کیوں میاں کیا مسئلہ ہے؟ میں نے عرض کی کہ حضرت کاروبار میں دل نہیں لگتا۔ میں ایک رائٹر بننا چاہتا ہوں۔ وجاہت مسعود صاحب نے کہا ذیشان ہمارے ملک کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں قلم روزی نہیں دیتا، انہوں اپنا والٹ مجھے دکھایا اور کہا کہ دیکھو میرے والٹ میں صرف چھ ہزار روپے ہیں۔ یہی میرا کل زاد راہ ہے، اس لیے تم صحافت کو صرف شوق کی حد تک محدود رکھو۔ بعد میں رانا اعجاز صاحب نے تاریخی الفاظ کہے، ذیشان تم جو زندگی جینا چاہتے ہو یہ زندگی میں اور وجاہت بھائی پچھلے تیس برس سے جی رہے ہیں۔ اس راستے میں بہت مشکلات ہیں، اس لیے تم انسان کے بچے بن جاﺅ اور اپنی فیملی اور بزنس پر بھی توجہ دو۔

دوسری نصیحت وہ مجھے اکثر کرتے کہ کچھ نہ کچھ لکھتے رہا کرو۔ لکھنے لکھانے کا سلسلہ تو کافی عرصہ سے جاری تھا مگر قلم کی طاقت، حقیقت، سچائی اور حرمت سے صحیح معنوں میں رانا صاحب نے روشناس کروایا، میں کچھ بھی لکھتا تو تصحیح کے لیے رانا صاحب کے پاس لے جاتا۔ پہلی دفعہ ان کے پاس اپنا کالم لے کر گیا تو اس میں میں نے ایک مراثی کی مثال بیان کی تھی انہوں نے لفظ مراثی کٹوا کر اس کی جگہ میر عالم لکھوا دیا اور کہا کہ مراثی تھوڑا  (LOW TASTE WORD)ہے۔ انہوں نے کہا کہ ذیشان یہ یاد رکھنا کہ جو کچھ تم لکھتے ہو، وہ تاریخ اور ریکارڈ کا حصہ بن جاتا ہے۔ ایک تو ہمیشہ سچ لکھنا اور دوسرا ہمیشہ میعاری الفاظ استعمال کرنا۔ ہنستے ہوئے کہتے تا کہ جب تم جنوبی ایشا کے بڑے کالم نگار بن جاﺅ تو تمہیں کوئی پچھتاوا نہ ہو۔

رانا صاحب کے پاس معلومات کا بے بہا ذخیرہ موجود تھا جس پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی تھی میرے اصرار پر وہ راضی ہو گئے تھے کہ وہ اپنی آٹو بائیو گرافی ضرور لکھیں گے مگر وقت نے انہیں مہلت نہ دی۔ گزشتہ عید پر جب وہ چوک اعظم گئے تو وہاں ان کی طبیعت خراب ہو گئی ڈاکٹر کے مشورہ پر جب ان کا ٹیسٹ کروایا تو وہ پازیٹو آیا طبیعت جب زیادہ خراب ہوئی تو انہیں بہاول پور لے آئے جس بندے کو کئی کئی گھنٹے نان سٹاپ بولنے کی عادت تھی اس سے چند جملے بھی ادا کرنے مشکل ہو رہے تھے یہ ایک مہینہ انہوں نے بہت تکلیف میں کاٹا مگر جس صبر کے ساتھ انہوں نے گزارا وہ میرے لیے حیران کن تھا ان کی حاضر جوابی اور بذلہ سنجی اس حالت میں بھی برقرار تھی جب بول نہ پاتے تو آنکھوں اور چہرے کے تاثرات سے اظہار کرتے۔ وفات سے چند دن قبل طبیعت کافی بہتر ہو گئی تو ڈاکٹر نے کہا کہ آپ انہیں گھر لے جائیں جاوید بھائی کا خیال تھا کہ ابھی انہیں گھر نہ لے جائیں۔ میری رائے یہ تھی کہ ڈاکٹر کے مشورے پر عمل کیا جائے۔ میں اور جاوید بھائی ایک سائیڈ پر کھڑے بحث کر رہے تھے رانا صاحب کو بھی ہماری بحث کا اندازہ ہو گیا تھا مجھ سے اشارہ کر کے پوچھا کہ کیا بات ہے تو میں نے بات بناتے ہوئے کہا کہ ہم دونوں آپ کی میڈیسن کے بارے میں ڈسکس کر رہے تھے تو وہ تھوڑا مسکرائے اور آنکھیں ایسے گول گول گھمائیں جیسے کہہ رہے ہوں “آئے وڈے پروفیسر”۔

جب انہیں گھر شفٹ کیا تو اگلے دن میں دوبارہ ملنے گیا جب واپس آنے لگا تو میں نے محبت سے ان کا ہاتھ دبایا تو مسکرائے اور کہنے لگے میں تو سمجھا تھا ہاتھ پر کچھ پیسے رکھنے لگے ہو۔ وفات سے دو دن قبل ان کی طبیعت دوبارہ خراب ہوئی تو انہیں دوبارہ ہسپتال لے گئے وہاں جو خامیاں ہمارے ہیلتھ سسٹم کی نظر آئیں وہ ایک الگ کہانی ہے۔ اگلے دن شام پانچ بجے کے قریب جاوید بھائی کا فون آیا کہ رانا صاحب اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں۔ میں اور جنید بھائی فوراً ہسپتال پہنچے، غم کی کیفیت بیان سے باہر ہے۔ جاوید بھائی بڑے حوصلے والے انسان ہیں، وہ الٹا مجھے دلاسہ دیتے رہے۔ جب ہم لوگ رانا صاحب کی میت کو لے کر ان کے گھر پہنچے تو سبھی گھر والے شدید غم کی کیفیت میں تھے۔ ان کی چھوٹی اور نہایت لاڈلی بیٹی میرو رانا صاحب کی فوٹو سینے سے لگائے سسکیا ں لے رہی تھی۔ میرا دل بے اختیار چاہا کہ اسے سینے سے لگا کر تسلی دوں لیکن نا جانے کیوں میرے بازو شل ہو گئے اور میں اپنی جگہ سے حرکت بھی نہ کر سکا۔ جنید بھائی نے میرو کے آنسو پونچھے اور کچھ تسلی دی۔ اس چھوٹی سی بچی نے جو الفاظ ادا کیے اور اس کے لہجے میں جو کرب تھا وہ شاید میں زندگی بھر بھلا نہ پاﺅں۔ اس نے کہا کہ انکل پلیز آپ اپنے بچوں کو ایسے اکیلا چھوڑ کر نہ جایئے گا۔

میں نے جب وجاہت مسعود صاحب کو رانا صاحب کی وفات کے بارے میں بتانے کے لیے فون کیا تو کہنے لگے یار ذیشان ہمارا بہاو ل پور تو لٹ گیا، مجھے سمجھ نہیں آرہی، میں تمھیں پرسہ دوں یا تم مجھے دو گے۔ وجاہت مسعود صاحب رانا صاحب کی علالت کا پورا عرصہ مجھے روزانہ فون کرتے، رانا صاحب کی خیریت دریافت کرتے اور ڈھیروں دعائیں اور تسلی دیتے۔ میں اپنے پروفیسر رانا شہزاد اور نصیر احمد ناصر صاحب، ریاض بلوچ صاحب اور اسلام ضمیر صاحب کا بطور خاص شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اس مشکل وقت میں ہمارا بھر پور ساتھ دیا۔ رانا اعجاز محمود جیسے لوگ اپنے عہد کا نشان ہوتے ہیں، اپنے زمانے کی گواہی ہوتے ہیں۔ تاریخ کی امانت ہوئے ہیں۔ یہ نشنان دھندلا گیا ہے، یہ گواہی خاموش ہو گئی ہے، یہ امانت واپس لے لی گئی ہے۔ قافلہ درد کا اب کیا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments