ہمارے ظرف کے تشنہ پیمانے


کتاب اور موسیقی کی طرح اچھی فلم بھی ذہن کی الجھی گرہیں کھول سکتی ہے اور کوئی افسانوی کردار بھی ہماری سوچ کے زاویے کو یکسر تبدیل کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ ایسا ہی ایک افسانوی کردار ایک میجک شو کا مشہور شعبدہ باز ہے جو ایک حاسد کے شر کی وجہ سے لائیو شو میں حادثے کا شکار ہو کر ہمیشہ کے لئے جسمانی طور پر مفلوج ہوجاتا ہے۔ وہ کردار جو اپنی جادوگری اور سحر سے شمع کی لو کو اشارہ ابرو پہ رقص کرواتا ہے پر اپنی معذوری کے بعد ناک پہ بیٹھی مکھی نہیں اڑا سکتا، برسات میں ٹپکتی چھت کے نیچے پڑے اپنے شل وجود کو جنبش نہیں دے سکتا۔

اپنی زندگی کے بارہ سال ریڈیو پروگرام کے توسط دوسروں میں جینے کا حوصلہ اور زندگی کی امنگ تو بیدار کر دیتا ہے پر خود سے جنگ لڑتے لڑتے حوصلہ ہار جاتا ہے اور عدالت میں مرسی کلنگ یا رحم کے نام پر زندگی ختم کرنے کی اپیل دائر کرتا ہے پر وکیل اس کے ریڈیو پروگرام کے مکالموں اور مذہبی حدود کی رو سے اس درخواست کو غلط قرار دیتا ہے اور نہایت تند و تلخ سوالوں کے نشتر چبھوتا ہے جس کے جواب میں ایک آخری جادوئی کرتب دکھانے کی درخواست کی جاتی ہے۔

ایک لکڑی کا صندوق منگوا کر وکیل کو کہا جاتا ہے کہ ایک منٹ کے لئے اس صندوق میں لیٹ جاؤ۔ وکیل جج کے کہنے پر اس پر عمل کرتا ہے اور صندوق کا ڈھکن بند کر دیا جاتا ہے پر چند لمحوں بعد ہی وکیل چلانا شروع کردیتا ہے کہ صندوق کھول کر باہر نکالا جائے۔ شعبدہ باز ایک منٹ مکمل ہونے پر ہی صندوق کھولتا ہے تو وکیل اس پر ٹوٹ پڑتا ہے کہ یہ ظلم تھا کہ اس قدر گھٹن بھرے ڈبے میں سے بند رہنا پڑا۔

جواب میں ایتھن نامی کردار نہایت اطمینان سے جواب دیتا ہے کہ آپ سے ایک منٹ نہیں گزارا گیا کیونکہ گھٹن تھی اس صندوق میں، میں اپنے شل وجود کے اندر بارہ سال سے ایسی ہی زندگی گزار رہا ہوں۔ کہانی کے انجام کی کچھ خبر نہ ہوئی پر اس وکیل کے تند و تیز سوال، اور طنزیہ نشتر دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ یہ لہجے تو ہمارے ہر طرف بکھرے پڑے ہیں ان کی تپش اور چبھن کئی بار محسوس کی ہے اور ایسے جملوں کی کاٹ سے ہم کتنی مسکراہٹوں کو چند لمحوں کے اندر لکڑی کے صندوق میں مقید کردیتے ہیں۔

کیا آپ نے اپنے اردگرد کبھی کوئی ایسا شادی شدہ جوڑا دیکھا ہے جن کی اولاد نہیں ہے تو ان سے محفل میں پہلا سوال یہ کیا جاتا ہے کہ اور بتاؤ خوشخبری کب سنا رہے ہو؟ ہم باشعور لوگ اس بات سے آگاہ ہیں کہ کئی معاملات میں ہم بہت بے بس ہیں اور اولاد کا ہونا نہ ہونا بھی ان میں سے ایک ہے اب جو لوگ پہلے ہی اس محرومی کے الاؤ میں جل رہے ہیں، ان سے ایسے سوال پوچھنا درست ہے؟

اولاد ہے پر بیٹیاں ہیں تو خاندان کے بزرگوں سے لے کر ٹریفک سگنل پہ کھڑے سائل تک بیٹیوں کی ذات کی نفی کرتے ہوئے ان کے سامنے منہ پر کہہ دیتے ہیں ہا ا ا ا ا ا۔ اتنی بیٹیاں، بیٹا کوئی نہیں چلو اللہ بیٹا بھی دے گا، وظیفے، ٹوٹکے اور معجونوں کے ازبر نسخے ایک سانس میں دہرا دیے جاتے ہیں کہ کسی طرح سامنے والے خاندان کو حقیقی وارث مل جائے، اب چاہے سننے والے کے دل میں ہزاروں جواب مچل رہے ہوں پر چونکہ آپ یہ احساس ”دعا“ کے ملمع میں مزین کر کے دے رہے ہیں تو وہ احتراماً چپ رہے گا۔

اب کسی خاندان کی تقریب میں کوئی پچیس سال سے زیادہ عمر کی کوئی لڑکی نظر آ جائے تو اس کی شادی نہ ہونے کا درد پوری دنیا کے دل میں سمایا ہوتا ہے اور جیسے جیسے وقت گزرتا ہے اس لڑکی کے لئے اشاروں کنایوں میں پوچھے گئے سوالوں سے بنا صندوق مزید تنگ اور تاریک کر دیا جاتا ہے اور اکثر اسی شدت کے سوال خاندان کے اس کفیل بیٹے سے بھی کیے جاتے ہیں جو خاندانی ذمہ داریوں اور مجبوریوں کی وجہ سے اپنی شادی کو معرض التوا میں ڈال دیتا ہے اور دنیا کو لگتا ہے کہ ماں باپ شادی نہیں کروانا چاہتے اور بیٹے کو صرف کمائی کے لئے رکھا ہوا ہے اگر لڑکا بیرون ملک رہتا ہے تو نشتر مزید گہرے ہو جاتے ہیں ہو سکتا ہے کچھ معاملات میں یہ بات درست بھی ہو پر ایسے سوال پوچھ کر آگے رشتوں کی طرف سے انسانوں کو تذبذب میں ڈالنا ایک نیچ حرکت ہے۔

کبھی شادی بیاہ کی تقریبات میں طلاق یافتہ اور بیوہ خواتین کو دلہن کو مہندی لگاتے دیکھا ہے یا رسموں خوشی سے شرکت کرتے کوئی منظر نظر کے سامنے آتے ہیں؟ نہیں ناں؟ کیونکہ اس طرح کے داغ کے بعد وہ ہماری سوچ کے مطابق ایسی بھرپور زندگی گزارنے کا حق نہیں رکھتیں، ان کی زندگی بے رنگ کینوس سی تو قبول ہے پر زندگی کی قوس قزح کا عکس مشرقی روایات کے لئے زہر قاتل سمجھا جاتا ہے۔ ایسی عورتوں کے ہار سنگھار یا لباس کی خوش رنگی دیکھ کر ہمارے اندر کی کالک کیسے ابھر کر سامنے آتی ہے اور ہم بلا جھجک یہ کہنے سے نہیں چوکتے کہ کس کردار کی عورت ہے کہ اب بھی توجہ حاصل کرنے کے لئے ایسے چونچلے کر رہی ہے اور اب بھی اس کو اتنی اخیر آئی ہوئی ہے۔

کوئی بچہ اگر چہرے کے نقوش یا رنگ روپ کے حوالے سے اپنے خاندان سے مختلف ہے یا آپ کو کم خوبصورت لگتا ہے تو نادانستگی میں کتنے آرام سے کہہ دیتے ہیں کہ ارے ے ے ے یہ بچہ کس پہ چلا گیا ہے، تمہارا تو لگتا ہی نہیں ہے۔

کسی بذلہ سنج بزرگ کو قہقہہ مارتے یا بھرپور طریقے سے زندگی جیتے دیکھیں تو فوراً اس کو احساس دلا دیتے ہیں کہ بابا جی آپ کے پیر قبر میں لٹکے ہوئے ہیں، پچپن ساٹھ سال کی عمر کے بعد آپ کا موسیقی سننے، گنگنانے یا زندگی سے جڑی کسی بھی ایسی سرگرمی میں شامل ہونے کا حق نہیں جس سے خوشی یا زندگی کا اظہار ہو اور ہم جیتے جی انسان کو لفظوں سے سنگسار کر کے زندہ درگور کردیتے ہیں۔

کسی شوخ، کھلنڈرے اور نوجوان قہقہے کا گلہ پڑھائی میں نالائقی کے طعنے کے ذریعے گھونٹ دیتے ہیں کوئی جسمانی یا ذہنی تکلیف بیان کرے تو فوراً سے پہلے کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو میرے ساتھ بھی ہوا تھا، مطلب تم اپنا دکھ نہ بتاؤ میں تم سے زیادہ دکھی ہوں۔ ہم سب کے پاس سننے کو وقت ہی نہیں، ہم سنتے بھی صرف جواب دینے کی غرض سے ہیں، یہ سمجھنے کی غرض سے نہیں سنتے کہ سامنے والا کیا محسوس کر رہا ہے اور اگر ہم پہ بھروسا کر کے عزت دے رہا ہے تو سن کر اس کو مان دیں پر ہم سارے لفظ گھونٹ کے ایسی آوازوں کو دیواروں میں چن دیتے ہیں اور پھر یہ بھی نہیں مانتے کہ ہمارے اردگرد ذہنی امراض کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور مینٹل ہیلتھ یا ذہنی سکون معنی رکھتا ہے۔

جب پانی کا بہاؤ روک دیا جائے تو وہ بھی بند توڑ کر بہہ نکلتا ہے، ڈپریشن، منفی رویے اور خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم زندہ قبرستانوں کے مکین ہیں۔ ہمارے اردگرد چلتے پھرتے وہ انسان موجود ہیں جو اس اجتماعی بے حسی کا شکار ہیں جہاں نہ کوئی سننے کا روادار ہے نہ سمجھنے کا ظرف رکھتا ہے۔ ہمارے ظرف کے پیمانے خالی ہیں جو دوسروں سے تو ہمدردی، دردمندی عزت اور احترام چاہتے ہیں پر دوسروں کی دلجوئی کے معاملے میں اخلاقی بانجھ پن کا شکار ہیں۔ جب کسی سے کوئی ایسا سوال پوچھیں یا جاننا چاہیں تو ایک بار پہلے خود کو اس لکڑی کے صندوق میں مقید ضرور تصور کریں شاید آداب گفتگو میں کچھ بہتری آ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments