علم و دانش کی ناکہ بندی


گزشتہ کچھ عرصے میں مختلف قومی جامعات سے انتہائی قابل، تجربہ کار اور ذہین اساتذہ کو عجیب و غریب، بوگس، بلاجواز اور بھونڈے الزامات کی بنیاد پر ملازمت سے فارغ کیا گیا ہے۔ ان میں پروفیسر ڈاکٹر پرویز ہودبھائی، ڈاکٹر عامر اقبال، ڈاکٹر عمر سیف، ڈاکٹر عمار علی جان اور محمد حنیف شامل ہیں۔ سب ہی اپنے مضامین کے ماہر اور بیرونی ممالک کی بہترین جامعات سے اعلی ڈگریوں کے حامل ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد اہل علم پر توہین مذہب کے الزامات لگ چکے ہیں اور چند سال پہلے ایک طالب علم کو یونیورسٹی کیمپس کے احاطے میں انتہائی ظالمانہ انداز میں پتھر مار مار کر قتل بھی کیا جا چکا ہے۔

پروفیسر ہودبھائی نے ایک انٹرویو میں اپنی ملازمت کے خاتمہ کے سلسلے میں خلائی مخلوق کے بجائے جامعہ کی نا اہل انتظامیہ اور نالائق اساتذہ کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ مجلس تعلیمی معیارات (Academic Standards Committee) کے ذریعے پروفیسر ہودبھائی کو فارغ کرنا بذات خود ایک لطیفہ ہے جو ہر صاحب عقل کو ہنسنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ پروفیسر مذکور نے دنیا کی چوٹی کی یونیورسٹی ایم آئی ٹی سے انتہائی دقیق مضمون یعنی ہائی انرجی فزکس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور وہاں پڑھاتے بھی رہے۔

طبعیات کے اعلی ترین تحقیقی جرائد جیسے فزیکل ریو لیٹرز (Physical Review Letters) اور فزیکل ریو ڈی (Physical Review D) میں ان کے مقالات تسلسل سے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ کسی کے سائنسی قد و قامت کی پیمائش تحقیقی مقالات کی تعداد اور ان کے حوالہ جات (citations) سے ہوتی ہے جو کہ بالترتیب 106 اور 1317 ہیں۔ پروفیسر ہودبھائی کو عبدالسلام پرائز کے علاوہ اور بھی بہت سے اعزازات مل چکے ہیں اور شاید وہ حکومت کی طرف سے دیا گیا ستارۂ امتیاز وصول کرنے سے انکار کر چکے ہیں۔

اس کے علاوہ پاکستان کی صف اول کی جامعہ یعنی قائداعظم یونیورسٹی میں 30 سال سے زیادہ پڑھانے کا تجربہ رکھتے ہیں اور اس طرح کئی نسلوں کی عمدہ سائنسی تربیت اور آبیاری آپ کے کریڈٹ پر ہے۔ لیکن اب بونوں کے ایک گروہ نے اپنی قامت کو معیار قرار دے کر ایک دیو اپنی صفوں سے نکال باہر پھینکا ہے۔ کچھ ایسا ہی کیس ڈاکٹر عامر اقبال کا بھی ہے۔ ڈاکٹر عامر نوبل انعام یافتہ طبعیات دانوں اور فیلڈ میڈل کے حامل ماہرین ریاضی کے ساتھ مل کر تحقیقی کام تو کر سکتا ہے لیکن ہمارے گلے سڑے تعلیمی ڈھانچے میں اس کی ذہانت کو جذب کرنے یا اس کی تحسین کی صلاحیت اب موجود نہیں ہے۔

کیا کہوں اب کے جنوں میں گھر کا بھی رہنا گیا
کام جو مجھ سے ہوا سو عقل سے باہر ہوا

ایسا کیوں ہے؟ جامعات جنہیں علم و فن کا گہورا اور عقل و خرد کا استعارہ ہونا چائیے وہ کیسے اور کیونکر ایک تنگ نظر، کوتاہ نگاہ، بنیاد پرستانہ سوچ اور مدارس کے طرز فکر کی آماج گاہ بن گئی ہیں؟ تعلیمی ادارے کس طرح اور کیونکر ڈگری یافتہ جہلا سے بھر گئے اور کیسے ان نام نہاد اساتذہ نے علم و دانش کی کامیاب ناکہ بندی کر لی ہے؟ یہ وہ سوال ہیں جنہیں گہرائی اور گھیرائی میں دیکھنا از حد ضروری ہے کیونکہ اس کا درست تجزیہ ہی اب اس قوم کو شاہ دولہ کے چوہوں والے مستقبل سے بچا سکتا ہے۔

اگر برصغیر میں مسلم تہذیب کے ارتقا کو دیکھا جائے تو بصد افسوس یہ اقرار کرنا پڑتا ہے کی چند بزرگوں کو چھوڑ کر ہمارے اہل علم کی اکثریت عقل دشمن رہی ہے اور اس میں علامہ اقبال کا نام گرامی بھی لیا جا سکتا ہے۔

عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ

دراصل ایک خود کفیل سماج جس میں بھوک سے مرنے کی نوبت نہ آئی ہو، جیسا کہ ہندوستانی معاشرہ تھا، وہاں پدرم سلطان بود کا راگ با آسانی گایا جا سکتا تھا اور شمشیر و سناں کی اولیت کی توصیف بھی شاید اتنی بری نہ لگتی ہو۔ لیکن عشق و جنون کو عقل و خرد پر فوقیت دیتے دیتے اب بھوک اور افلاس ہمارے دروازوں پر دستک دے رہی ہے۔ اب ہمیں سوچنا ہو گا یا پھر مرنا ہو گا۔ مزید آنکھیں بند کر کے جیتے رہنا اب ممکن نہیں رہا۔ تاریخی تجزیہ کریں تو حالات کو پہلے سے بد تر پائیں گے۔ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی خرد دشمنی کسی نہ کسی حجت پر کھڑی تھی خواہ وہ حجت درست تھی یا غلط۔ اکبر الہ آبادی کا مشہور قطعہ ہے ؛

ڈارون نے کہا بوزنا ہوں میں
بولا منصور کہ خدا ہوں میں
سن کے کہنے لگے میرے اک دوست
فکر ہر کس بقدر ہمت اوست

یہاں انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کو سائنس اور نظریۂ ارتقا کے خلاف منطقی جواز کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ مغرب میں ہیوم اور کانٹ نے انسانی عقل کی فلسفیانہ حدود کا تعین کیا اور اہل سائنس بشمول لاپلاس نے یزدانیت اور خدائی صفات کو منطقی دلائل کے طور پر استعمال کی ممانعت کر دی۔ حیران کن امر یہ ہے کہ جب مغرب میں منطقی اثباتیت (Logical Positivism) کی تحریک چل رہی تھی اور سائنسی فکر و فلسفہ کو مابعدالطبیعاتی اثرات سے پاک کرنے کی سعی جاری تھی عین اس وقت اقبال عشق اور جنون کے فکری ابہام پر مشتمل ایک عقل دشمن اور غیر سائنسی منہاج کی تشکیل میں مگن تھے۔

اقبال اور دیگر مسلم اہل نظر کی تعلیمات، غلط یا صحیح، کسی نہ کسی فلسفیانہ یا سماجی جواز پر کھڑی تھیں اور ان پر بحث کی جا سکتی تھی لیکن ان کی کوکھ سے نکلنے والے موجودہ حالات تو ہر قسم کے دلائل اور علمی مباحث سے مبرا ہو چکے ہیں۔ اب جہالت بذات خود ایک جواز ہے اور اس معیار پر پورے نہ اترنے والے ناقابل معافی مجرم جن کے لئے اس ملک میں اب کوئی جگہ نہیں۔ آئیے اس مظہر کو ذرا تفصیل سے دیکھتے ہیں۔ دراصل سماجی ارتقا کسی نہ کسی حد تک حیاتیاتی ارتقا سے مماثل ہوتا ہے اور یہ لازم نہیں کہ ارتقا ہمیشہ مثبت ہی ہو۔

ارتقا کی واحد شرط اردگرد کے معاشرتی یا حیاتیاتی حالات اور ماحول سے ہم آہنگی ہے۔ مثال کے طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جب آنکھوں والی مچھلیاں سمندر کی ایسی گہرائی میں رہائش پذیر ہو گئیں جو سورج کی روشنی کے دائرہ اثر سے باہر تھی تو پھر کچھ نسلوں کے بعد یہ مچھلیاں آنکھوں سے محروم ہو گئیں کیونکہ آنکھیں اب ان کی ضرورت ہی نہ تھیں۔ سماجی ارتقا میں بھی جب کسی معاشرے کو ذہنی اور فکری سطح پر بند کر دیا جائے تو ایسے ہی واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔

شمالی کوریا کی مثال لے لیں جہاں کم ال جونگ کو اس دور میں بھی خدا کا اوتار مانا اور سمجھا جاتا ہے۔ کوریا میں یہ مظاہر تین چار نسلوں پر محیط وسیع سماجی انجینئرنگ کا شاخسانہ ہے جس کے دوران کوریا میں تعلیمی نصاب، سرکاری میڈیا (غیر سرکاری میڈیا کی اجازت ہی نہیں ) اور اخبار و رسائل کو استعمال کیا گیا اور بیرونی دنیا سے تمام تر عوامی، ثقافتی، فکری اور ادبی روابط منقطع کر دیے گئے۔ 1960 کے بعد ہمارے ہاں بھی اسی طرز پر لیکن ذرا آہستہ اور دھیمے انداز میں یہی کام جاری ہے۔ نصاب حسب ضرورت تبدیل کر دیا گیا، میڈیا اور اخبارات محاصرے میں ہیں، تمام عقلی اور تجربی علوم پر مذہبی گرفت سخت کر دی گئی ہے، دماغ اور دلائل کے بجائے گولی کی زبان کو فروغ بخشا گیا اور عقلیت کو عسکریت کے تابع فرمان کر دیا گیا ہے۔ چونکہ نصاب قومی ذہن کی بنت اور تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے لہذا اس کے ساتھ سب سے زیادہ کھلواڑ کی گئی ہے۔ تاریخی شعور کو مسخ کرنے کے لئے وادیٔ سندھ کی تہذیب، موریہ سلطنت اور قدیم ہندوستان کے بجائے پاکستانی تاریخ کا نقطۂ آغاز محمد بن قاسم کا سندھ پر حملہ قرار پایا۔

پھر محمود غزنوی سے لے کر احمد شاہ ابدالی تک تمام حملہ آوروں کی مدح سرائی کی گئی اور ہندو کو ہمارے ازلی دشمن کا روپ دے دیا گیا۔ قائد اعظم کے سیکولرخیالات اور ان کی 11 اگست کی مشہور تقریر کو مکمل گم کر دیا گیا۔ تفصیلات کے لئے اے۔ کے۔ عزیز کی کتاب تاریخ کا قتل (Murder of History) ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ مشہور مصنف جارج ارویل کہتا ہے ؛

۔ لوگوں کو تباہ کرنے کا سب سے پر اثر طریقہ ان کی حقیقی تاریخ تک رسائی کو ناممکن بنانا اور ان کے تاریخی شعور اور سوجھ بوجھ کو برباد کرنا ہے۔

ہمارے ہاں بھی اس نسخے پر عمدگی سے عمل کیا گیا اور اصل تہذیبی اورثقافتی جڑیں کاٹ کر قوم کو وقت کے ساتھ ساتھ ایک ریوڑ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ دوسری طرف سائنسی علوم کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک روا رکھا گیا۔ تفصیلات ڈاکٹر اے ایچ نیئر اور احمد سلیم کی شائع کردہ رپورٹ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ تمام سائنسی علوم کی کتب کا آغاز مذہبی اقتباسات اور حوالہ جات سے ہوتا ہے۔ جب کہ سائنس اور تحقیقی علوم کے لئے آزاد خیالی از حد ضروری ہے۔

ہے راہ کی تلاش تو کر گمرہی طلب
عاقل وہی ہے عقل میں جس کی فتور ہے

ہمارے ہاں گمنام اور نام نہاد سائنس دانوں کی لکھی ہوئی یہ کتابیں بے ربط، منتشراور بیزارکن ہیں جو تجسس اور کھوج کے بجائے طلبا کو رٹے پر مائل اور مجبور کرتی ہیں۔ جب ہر مادی مظہر مابعد طبعیات کے تابع قرار پائے تو پھر تجسس، تشکیک اور سوالات کلمۂ کفر ہی ٹھہرتے ہیں۔ یوں تجسس، تشکیک اور سوالات کا گلہ گھونٹ کر ایک ایسا قومی ذہن تیار کیا گیا جو دو جمع دو چار کو تو ماننے پر تیار نہیں لیکن پانی سے گاڑی چلا سکتا ہے۔ ان خاص حالات اورسماجی انجینئرنگ کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے : ایک ایسی نسل کی پرورش جو عقلی اور فکری منتشر خیالی کا شکار ہو، نظری سطح پر شدید مذہبی لیکن عملی طور پر سخت مفاد پرست ہو، اپنی جہالت سے اگر کسی حد تک آگاہ بھی ہو پھر بھی عقل کل کی دعویدار ہو۔

یہ نسل جو ذہنی لحاظ سے شاہ دولہ کے چوہوں جیسی ہے، بڑے سپیشل طور پر تیار کی گئی ہے اور آج کل تمام سائنسی اداروں اور جامعات کی اونچی کرسیوں پر بیٹھی قوم کی راہنمائی کا کٹھن فریضہ ادا کر رہی ہے۔ جس طرح مچھلیوں نے حالات کے جبر کے تحت اپنی آنکھوں سے چھٹکارا پا لیا اسی طرح یہ نسل اپنی عقل و خرد، اپنے دماغ سے دست برداری پر تیار ہے۔ لہذا موجودہ صورت حال میں جامعات کیا پورے معاشرے میں سائنس اور عقل کی بات کرنے والے اس بے دماغ، تنگ نظر اور بنیاد پرست انبوۂ عظیم کے مقابلے میں ایک اجنبی نسل ہیں جو ان کے نا اہل، نالائق اور کھوکھلے اقتدار کے لئے خطرہ ہیں جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا ہے۔

اس سارے منفی ارتقا میں ان تمام مقتدر حلقوں کا بنیادی کردار ہے جن کا ذکر کرنا پروفیسر ہودبھائی نے اپنے انٹرویو میں مناسب نہیں سمجھا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ایک معاشرہ جو بے دماغ یا بد دماغ اکثریت پر مشتمل ہو کیسے زندہ رہ سکتا ہے اور چل سکتا ہے؟ ایسا سماج جو غیر تخلیقی ہواور کچھ پیدا کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو وہ صرف ایک صارف یا کھاؤ پیؤ معاشرہ ہوتا ہے۔ ایسا معاشرہ صرف منگتے اور بھکاری کے طور پر ہی زندہ رہ سکتا ہے۔

ہمارا بھکاری پن بین الاقوامی سطح پر مشہور ہے لیکن کیا ایسا انتظام دیر پا اور قابل اعتماد ہو سکتا ہے اور اگر نہیں تو پھر اس کا حل کیا ہے؟ یہ تو واضح ہے کہ بھکاریوں کی روزی روٹی کا ذمہ کوئی مستقل تو اٹھانے سے رہا لہذا ہمیں ہی اپنے آپ کو بدلنا ہو گا مگر کیسے؟ اس سوال کو کھلا چھوڑ دیں تو قومی سطح پر آپ کو درجنوں عالمانہ جوابات موصول ہوں گے: تعلیم پر زیادہ خرچ کریں، میرٹ لے کر آئیں، مذہب کی اصل روح پر عمل کریں، اساتذہ کا احترام کریں، طلبا میں حصول علم کا شوق پیدا کریں وغیرہ وغیرہ۔

یہ اور اس جیسے دیگر سارے جوابات ہمارے قومی تذبذب، مخمصوں، ذہنی الجھاؤ اور فکری انتشار کو ظاہر کرتے ہیں اور اصل مسئلے کا حل نہیں ہیں۔ بات یہ ہے کہ کوئی بھی معاشرہ اور اس میں بسنے والے کبھی بھی اپنا برا نہیں چاہتے اور ہر سماج میں ترقی کی جانے والے اشارے اور رستے موجود ہوتے ہیں۔ سعی و خطا کو دیکھنے والی عوامی نظریں مرکوز ہوتی ہیں۔ سعی و خطا ہی کوئی بھی انسانی مسئلہ حل کرنے یا درست حل تک رسائی کا واحد طریق کارہے جس کے ذریعے غلطیوں کو بحث و مباحثہ کے ذریعے رد کر کے درست حل تک پہنچا جا سکتا ہے۔

اس کے لئے آزاد جمہوری ادارے اشد ضروری ہیں۔ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوامی رائے کو بنیادی اہمیت دی جائے اور جمہوریت پر لگائی جانے والی قدغن ہٹا دی جائیں۔ اگر حقیقی جمہوری اداروں کے ذریعے عوامی احتساب کی سہولت موجود ہو، سوال اٹھانے کو کفر نہ سمجھا جائے، عدلیہ اور صحافت کا گلا دبانا بند کر دیا جائے تو پھر میرٹ کی واپسی بھی ممکن ہے اور ذہانت کی دادرسی بھی۔ بصورت دیگر مقتدر حلقے حسب معمول اقربا پروری اور سفارش کے ذریعے دانش گاہوں، جامعات اور سائنسی اداروں کو گدھوں اور گھوڑوں کے اصطبل سمجھ کر جہلا سے بھرتے رہیں گے۔

پھر آپ تعلیم پر کتنا بھی خرچ کر لیں، سب کچھ ان نالائقوں کی جیب میں جائے گا۔ جنرل مشرف کے دور میں کیے گئے وسیع تعلیمی اخراجات اس کی ایک مثال ہیں۔ ڈاکٹر عامر اقبال نے بھی حال ہی میں ایسے ہی ایک مالی سکینڈل کا پردہ چاک کیا تھا اور اسی کی پاداش میں انہیں نوکری سے برخواست کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر عامر نے تو مشہور امریکی یونیورسٹی ہارورڈ میں پڑھانا شروع کر دیا لیکن پاکستانی طلبا کو ایک ذہین استاد سے محروم کر دیا گیا اور ملکی سائنس کو ایک بڑی زک پہنچ گئی۔ انتظار حسین اپنے ایک افسانے میں لکھتے ہیں ؛

گدھوں اور دانش وروں کی ایک مثال ہے۔ جہاں سب گدھے ہوں وہاں کوئی گدھا نہیں ہوتا اور جہاں سب دانش ور ہوں وہاں کوئی بھی دانش ور نہیں ہوتا۔

اب اسے بھی ایک مثال ہی سمجھئے کہ جہاں سب گدھے اور جاہل ہوں وہاں کسی دانش مند کی گنجائش نہیں رہتی۔ جاہل اور نالائق ہمیشہ اپنے سے زیادہ نکمے اور نالائق کو ہی پسند کرتا ہے کیونکہ وہی اس کی خوشامد کر کے اسے بقراط ثابت کر سکتا ہے۔ یہ معاشرتی مظہر ایک زنجیری تعامل

(Chain Reaction) ہے جو جہالت اور تاریکی کی انتہا تک جاتا ہے۔ ہمارے علمی اور سائنسی ادارے آج کل اسی المیئے کا شکار ہیں۔ قصہ مختصر مقتدر قوتیں اگر راستہ چھوڑ دیں، سماجی انجینئرنگ بند کردیں اور عوامی احتساب بذریعہ حقیقی جمہوریت چلنے دیں تو حالات جلد ہی مثبت رخ اختیار کر لیں گے۔ بنگلہ دیش کی مثال ہمارے سامنے ہے جو ایشین ٹائیگر بن چکا ہے اور ہم شاید دنیا کی بڑی بھکاری ریاست۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments