رانی باجی


’’رانی باجی، کیا نام ہے واہ واہ ۔۔۔اور شکل دیکھو ذرا۔۔۔ یہ نام اماں اور ابا میں سے کس نے رکھاہو گا۔ “ُبھتنی باجی‘‘ کتنا موزوں نام ہے۔ نہ شکل نہ صورت، نہ آنکھ جگہ پر نہ دانت اور اس پر ناک ایسی جیسے سانس کی نلکی، گنتی کے چند بال سر پر تیل سے چپکائے ہوئے۔ بغیر دوپٹے کے تو بالکل آٹے کی بوری لگتیں۔ تھل تھل کرتا گوشت، چیختا چلاتا ہوا پھٹے ڈھول کی طرح بجے جاتا۔
صبح سے لے کر رات گئے تک کام میں جُتے رہنا رانی جی کا معمول تھا۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اتنا سارا کام کس طرح اکٹھا کر کے سمیٹ لیتی تھیں۔ کپڑے دھونے، کپڑوں کی استری، کھانے کو دیر نہ ہو جائے، اسکول والے بچوں کا کھانا اس وقت، بس والے بچوں کا کھانا اس وقت، ابا کو گرم گرم روٹی تیار چاہیے، ہر کام مستعدی و تن دہی سے ہوتا رہتا۔ اماں کی گولیوں کا وقت یاد۔۔۔ چاند کی ساری تاریخیں رٹی ہوئیں۔ کس پر حلوہ بنانا ہے اور کس پر چنے۔۔۔ کس پر سویاں بنانی ہیں، سب یاد۔
سب بہن بھائی ایک دوسرے سے لڑے مرے جاتے۔ کام نہ کاج، کتابوں، پنسلوں، چونیوں اور کپڑوں کے پیچھے، ایک دوسرے کی گردن مارنے پر تیارہو جاتے۔ بات بے بات آٹھ بہن بھائیوں کی فوج ایک دوسرے پر حملہ آور ہو جاتی اور۔۔۔ان سب کا آخری مشترکہ غصہ رانی باجی پر اُترتا۔
’’بس سات بجے آتی ہے ابھی تک استری بھی نہیں ہوئی کپڑوں پر۔‘‘
میری ڈریس پھٹ گئی ہے۔ اسے سلائی کر کے دو۔‘‘
’’رانی باجی کھانا۔‘‘
’’رانی باجی بستہ‘‘
’’رانی باجی جوتے۔‘‘
’’رانی باجی یہ، رانی باجی وہ۔۔۔‘‘
رانی باجی، رانی باجی گھر میں جیسے یہ بازگشت باسی نہ ہوتی۔ ہر دم پکارتی رہتی اور رانی باجی کا حال ملاحظہ فرمایئے۔ دوپٹے کا گولہ منہ میں دبائے ہنستی چلی جاتیں۔ سب بگڑتے چلے جاتے اور رانی باجی جھکی جھکی آنکھوں سے چاروں ہاتھوں پاؤں سے الگ الگ کام لینے کی کوشش میں ُجتی جاتیں ۔
ابا کی کڑکڑاتی آواز پہ سب کی بولتیاں دھیمی پڑ جاتیں اور رانی باجی کے ہاتھ پاؤں کپکپانے لگ جاتے۔ چائے، پانی، گرم، ٹھنڈا، پکوڑے، فروٹ، گولی، دودھ سب آوازوں کا مطلب رانی باجی فوراً سمجھ جاتیں اور بغیر کہے مطلوبہ چیز لے کر لپک کے پہنچ جاتیں۔
روبوٹ بنانے والوں نے اگر رانی باجی کو نہیں دیکھا تھا تو انہیں روبوٹ بنانے کا خیال کیوں کر سوجھا؟
ادھر نمو نے آواز لگائی۔۔۔ ’’رانی باجی‘‘
اور رانی باجی نے اس کے استری شدہ کپڑے اس کے سامنے پھیلا دیئے۔
نثارنے آواز لگائی۔’’رانی باجی‘‘
اور گرم پانی کا دیگچہ باتھ روم میں رکھی بالٹی میں اُلٹا دیا گیا۔ اختر کی منمناتی آواز پر اس کے سامنے پالش زدہ جوتے رکھ دیئے گئے۔ اماں کی نظر ٹک ٹک کرتی گھڑی کی طرف بعد میں اُٹھتی، رانی باجی پہلے ہی پانی کا گلاس ان کے سرہانے لے کر کھڑی ہو جاتیں اور ابا کے اوقات تو شاید گہری نیند میں بھی ان کے دماغ میں چلتے پھرتے ہوں گے۔ زور سے کھانسی کی آواز ہی ان کا اشارہ تھا۔ جن بھی کیا چراغ رگڑنے سے پہلے حاضر ہوتا ہو گا۔ ابھی بلغم کو حلق میں پہنچنے میں بھی چند ثانیے ہوتے کہ رانی باجی ابا کی پائنتی آن موجود ہوتیں۔۔۔ اور کیا لے کر!کس وقت! سب کچھ معلوم ہوتا۔ شاید، ہی کبھی ابا کی کھانسی کا مطلب رانی باجی کی سمجھ میں نہ آیا ہو۔آٹھ بہن بھائیوں کی رانی باجی، مظلومیت کا اشتہار لگنے کے بجائے مضحکہ خیز کارٹون لگتیں۔
چار چھوٹے بہن بھائی سرکاری اسکولوں کی رونق کو فروزاں کر رہے تھے۔ باقی چار بڑے ہونے کے ناطے ابا کی غذا کو تقویت پہنچا رہے تھے۔ پھر ابا پورے ماہرنفسیات تھے۔ چاروں کماؤ پوتوں کا سواگت سالے، نکمّے، بدھو، حرام کی اولاد سے کرتے۔۔۔ شاید انہیں یقین تھا کہ بچوں کی پیدائش سے لے کر آج تک جو خوف کی میخیں انہوں نے ان کے سروں میں گاڑ رکھی تھیں، انہیں نکالنے والا کوئی مائی کا لال پیدا نہ ہو سکتا تھا۔ لہٰذا اب وہ مزے سے کلو سے برفی، نثار سے فروٹ، سلیم سے پیسے اور جمیل سے سینما کے ٹکٹ منگوایا کرتے۔ دونوں چھوٹے اسکول جاتے اور ان سے بڑی دو بہنیں سرمہ، کاجل آنکھوں میں بھرے چٹک مٹک کرنے کی پوری کوشش کرتیں۔ اِترا اِترا کر چلتیں۔ اماں کو خاطر میں نہ لاتیں کہ ابا ان کی آڑ میں کئی بار اماں کو دُھنک چکے تھے۔ جب ابا کا موڈ کچھ درست ہوتا تو انہیں ’’مس صاحب‘‘ بلایا کرتے۔ شاید یہ ابا کے احساسِ محرومی کا نتیجہ تھا۔
گھر کے تمام افراد اپنی اپنی محرومیوں کی کسررانی باجی کو تنگ کر کے نکالا کرتے۔ منجھلی اسکول کی بس میں پورا روپیہ دے آئی بارہ آنے کی جگہ۔ اماں جو چونی کی منتظر بیٹھی تھیں اُبل پڑیں۔’’کم بخت نوابوں کے خاندان سے ہیں۔ کیا کرنے جاتی ہیں یہ اسکول۔ نخرے اور فیشن سیکھ کے آتی ہیں نت نئے۔ اسکول میں پڑھنے کا تو نام ہے۔ کام تو دوسرے ہی ہوتے ہیں، اسکول کے بہانے سے۔‘‘
ابا دوسرے کمرے ہی میں تو تھے۔ کب نکلے اور کب ان کے جوتے نے اماں کی پیشانی کا نشانہ باندھا۔ اماں دونوں ہاتھوں سے سرتھام کر دُہری ہو گئیں۔ رانی باجی پُھرتی سے آگے بڑھیں اور ابا کے پے در پے حملوں کی زد میں آ گئیں۔ دونوں بہنیں تماشہ دیکھتی رہیں۔ اماں بڑھاپے کی کھائی میں گرتی جا رہی تھیں اور ابا بپھریل سانڈ بن رہے تھے۔
گرمیوں کے دن آتے ہی ابا کی عید شروع ہو جاتی تھی۔ لنگوٹ کسے نیم کے درخت کے نیچے آم چوستے جاتے۔ مٹکے کی سی توند آم سے ٹپکنے والے رس سے زرد دھاریاں بناتی رہتی۔ پکے پکے آموں سے بھرا پورا تھال چٹ کر کے ایک لمبی سی ڈکار سے ڈکرا اُٹھتے۔ چھوٹے بچے تھوڑے تھوڑے فاصلے سے دیکھتے اور رال ٹپکاتے رہتے اور اگر ابا کی نظر کسی بچے کی حریص نگاہ پر پڑ جاتی تو فوراً چوسے ہوئے آموں کے اطراف سے گالیوں کا بھنڈار نکل پڑتا۔
“ابے بدبخت کھانے پہ نظر لگائے بیٹھے ہیں نامراد۔ مجال ہے جو کوئی چیز ہضم ہونے دیں۔ پتہ نہیں کہاں سے یہ اتنے سارے پِلّے میرے گھر میں جمع ہو گئے ہیں، آٹے کے دشمن۔”
اماں بچوں کو اپنے وجود میں چھپا لینے کی کوشش ناکام ہوتے دیکھ کر انہیں گھر کے چھوٹے موٹے کاموں کی طرف دوڑادیتیں اور پھر باقی آم اماں کے شجرہٴ نسب کا قصیدہ پڑھتے ہوئے اُجاڑے جاتے۔
گٹھلیوں کا ڈھیر جمع ہوتے ہی کوڑے دان ایسی رانی باجی آناً فاناً وارد ہو جاتیں۔ پھسکڑا مار کے سارے چھلکے اور گٹھلیاں اپنے دامن میں سمیٹ کر یہ جا وہ جا۔ بے حساب پھرتی اور توانائی کا بے زبان ذخیرہ رانی باجی!
یہ گھر اللہ میاں کی سوچی سمجھی اسکیم کا ایک شاہکار تھا۔ سب سے پہلے رانی باجی کو اُتارا۔ پھر آٹھ ننگے، گندے، کلبلاتے، بدتمیز، ماردھاڑ سے لبریز فنکار بنائے۔ اگر۔۔۔ رانی باجی نہ ہوتیں تو یہ گرہستی کا سلسلہ کیسے چلتا؟ اماں کو تو بچے جننے کے علاوہ کوئی کام نہیں آتا تھا۔ یقینا ابا کو کبھی پتہ نہیں چلتا ہو گا کہ کب اماں اگلا جنمانے کی تیاری میں مشغول ہو جاتی ہوں گی اور کب گھر میں ایک نئے کیڑے کا اضافہ ہو جاتا ہو گا۔ نہ جانے کب سے اپنا بھاری بھرکم وجود سمیٹے، دوا کے ٹائم کی منتظر رہتی تھیں۔ ان آٹھوں کی ماں تو رانی باجی ہی لگتی تھی۔ ویسے شکل شباہت میں مختلف تھیں مگر ڈیل ڈول اماں والا ہی پایا تھا۔ اماں کی شکل قدرے بہتر تھی۔
جمیل جو سینما پر چپس بیچا کرتا تھا، ایک دن ابا کو غیرموجود سمجھے ہوئے فلمی اسٹائل میں کہانیاں سنا رہا تھا۔ “اماں، اماں وہ صبیحہ خانم کی شکل بالکل تمہارے جیسی لگتی ہے۔”
’’کون صبیحہ خانم وہ فلموں والی۔‘‘ ابا دھوتی کستے کمرے سے باہر آدھمکے۔
’’ماں کو چکلے میں بٹھا آ۔ بہت مل جائیں گے صبیحہ خانم کے یار۔‘‘
’’ابا، ابا۔ میں تو بتا رہا تھا۔‘‘ جمیل کی سٹی گم ہو گئی۔
’’بڑے کا گوشت بھی لوگ کانٹ چھانٹ کے خریدتے ہیں۔ اس بیمار کو تو کوئی ٹکے سیر بھی نہ خریدے اور بھاؤ لگا رہا ہے اس کے۔۔۔ اور یہ فلمیں اپنی سب باہر رکھا کر۔ گھر میں انسانوں کی طرح آیا کر۔ سمجھا۔‘‘
’’اب گھر میں فلمیں بنائے گا ماں کو ہیروئن لے کر، سؤر کی اولاد۔‘‘
آج جمیل مار سے بچ گیا۔ یہ کرشمہ شاید اماں کی آیتوں کا تھا جو وہ کب سے منہ ہی منہ میں ڈگڈگی کی طرح بجا رہی تھیں۔
ابا جن بنتے جا رہے تھے اور اماں ہر روز پہلے سے زیادہ ناکارہ اور فضول پُرزہ دکھائی دیتیں۔ ہر روز کسی نہ کسی کی ڈیوٹی لگتی مالش کے لیے اور ابا کی گالیاں تواتر سے جاری رہتیں۔ ’’دم نہیں ہے کم بختو۔۔۔ ساری زندگی کما کما کر کھلایا۔ سارا بہا دیا حرام خوروں نے، زور نہیں ہے بدن میں یا مکر سے کام لیتے ہیں۔‘‘
مالش شروع کرنے سے پہلے آس پاس سے جوتیاں ہٹا دی جاتیں۔ پھر بھی مالش کرنے والے کو بار بار زدوکوب کرنے کا سلسلہ جاری رہتا۔ ابا کی موٹی چمڑی استخوانی ہاتھوں کی گرفت میں نہ آتی تھی اور ابا۔۔۔ نامراد، کمبخت اور نکھٹو کا وِرد کرتے رہتے تھے۔
آئے دن ابا کے چہیتے مہمان آ دھمکتے۔۔۔ سب ان ہی جیسے ہوتے، ایک ہی قماش کے لوگ۔ پانچ پانچ جماعتوں تک تعلیم دلوا کر بچوں کو کسی ٹھیلے، دکان، مِل یا اسٹور پر لگوا دیتے اورخود۔۔۔ حقہ، پان، چائے اورسگریٹوں پہ گزارا کرتے۔ بچوں سے جوتیاں سیدھی کرواتے۔ لڑکیاں گھر کے کام کرتیں اور بیویاں خدمت۔ ابا مہمانوں کی آمد والے دن بہت خوش دکھائی دیتے۔ خود بازار جاتے۔ پورے بازار میں پھر پھر کر چیزیں خریدتے۔۔۔ اور پھر گھر آ کر۔۔۔ ایک ایک چیز گن گن کر رانی باجی کو سونپی جاتی۔
بوٹیاں تک گن کر دی جاتیں، گھی، مرچ، مسالحہ، چینی، چائے کی پتی۔۔۔ ہر چیز کا حساب رکھا جاتا۔ چائے کی پتی اتنے چمچے، گھی اتنا۔۔۔ان تمام چیزوں کے باہمی اشتراک سے بننے والی ڈشیں صرف اور صرف رانی باجی ہی تیار کر سکتی تھیں کیونکہ ایک بار جو مل جاتا دوبارہ طلب نہ کیا جاسکتا تھا۔ ڈش تیار ہونے کے بعد شوربے میں ڈوبی ہوئی بوٹیاں ایک ایک کر کے گنی جاتیں۔ چاول نظروں سے ناپے تولے جاتے۔ تمام دیگچیاں اچھی طرح چیک کی جاتیں اور آخر میں تمام بچوں کو کونوں کھدروں سے نکال کر باہر بھگا دیا جاتا۔
یہ الگ بات کہ برتنوں کے واپس پلٹتے ہی۔۔۔ جھوٹے برتنوں پہ سب ندیدوں کی طرح ٹوٹ پڑتے اور ایسے میں اگر ابا کی نظر پڑ جاتی تو چاروں چھوٹوں سے کتوں سے بدتر سلوک کیا جاتا۔ ابا ظالم و جابر ڈکٹیٹر کی طرح کڑکے جاتے اور آناً فاناً میدان مار لیتے۔ سارے بچے لمحوں میں کہیں رفوچکر ہو جاتے۔
اس سلسلہٴ روزوشب میں کوئی اسٹاپ، وقفہ یا نشیب و فراز نہ تھے۔ صبح و شام ایک ہی طرح سے آتی۔ کوئی بھی کنکر ارتعاش پیدا کرنے کے قابل نہیں لگتا تھا۔ اس کے لیے تو کسی ببانگ صور کی ضرورت تھی جو کہ ناممکن ہی محسوس ہوتا تھا مگر ناممکن یوں ممکن ہوا کہ ایک دن صبح ہی صبح پورے گھر میں زلزلہ آ گیا۔ آٹھوں آج گھر میں موجود تھے۔ ناشتے کے توس، چائے کے برتن ایک طرف اَدھ مرے سے پڑے تھے۔ چولہے میں آگ کی جگہ دھواں تھا۔
کچھ سمجھتے، کچھ نہ سمجھتے ہوئے۔۔۔ ان بہن بھائیوں کو سنجیدہ، خوف میں مبتلا، ان گرتے ڈوبتے درودیوار نے پہلی مرتبہ دیکھا۔ اماں کی آنکھوں، ہاتھوں اور زبان میں کبھی اتنی طاقت آ سکتی ہے سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔
دوچار دن سے رانی باجی گھبرائی گھبرائی لگ رہی تھیں۔ ناک کی سڑسڑ اور چھینکیں اعتدال میں آ کے ہی نہیں دے رہی تھیں۔ کھانا پکاتے پکاتے اس زور سے اُبکائی لیتیں کہ آدھے گھر تک آواز جھنجھناتی۔ اماں تکیوں کے سہارے کمر تک اُٹھ اُٹھ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں رانی باجی کا الٹراساؤنڈ کر رہی تھیں۔ مگر آج صبح ہی صبح۔۔۔ لپک کر رانی باجی پر جا گریں۔۔۔ چولہے میں لکڑیاں سلگتی رہ گئیں۔ توس بکھرگئے۔۔۔ چائے کا برتن بھونچکا رہ گیا۔
رانی باجی اور اماں کمرے میں بند ہو گئیں۔ اُٹھا پٹخ کی آوازیں باآواز بلند آنے لگیں۔ بہن بھائی سرکتے سرکتے قریب ہو گئے۔ سب کی آنکھوں میں وحشت نظر آنے لگی۔اماں کی زبان قینچی کی طرح چل رہی تھی۔ اندازہ ہو رہا تھا کہ کوئی نیا نمونہ اس گھر میں وارد ہونے والا ہے مگر اس کے ذریعہ تکمیلیت پر شدید اعتراض تھا۔ رانی باجی کٹتے ہوئے بکرے کی طرح ڈکرا رہی تھی۔
کلو نے بڑے ہونے کے فرائض نبھائے اور دھڑام سے دروازہ کھول دیا۔
رانی باجی کے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹ چکے تھے۔ماتھے سے خون کی لکیر بہہ رہی تھی اور ہونٹوں سے کف۔
’’کلموہی، بدذات، بدچلن۔۔۔ تیرے باپ کو پتہ چلا تو وہ تیری بوٹیاں اُڑا کر رکھ دے گا یہ کس کی کالک تھوپ آئی منہ پر۔ کیسے تجھے بچا بچا کے رکھا تھا نصیبوں پھوٹی۔‘‘
’’تو ٹھہر جا اماں۔۔۔ میں پوچھتا ہوں اس چھنال سے۔‘‘
کلو لپک کر گیا اور سامنے ہی دھلے برتنوں میں رکھی چھری نکال لایا۔ رانی باجی تھرتھر کانپتی ہوئی ہاتھ جوڑ کر زمین پر لیٹ گئیں۔۔۔ “اس کی چوٹی اور ناک دونوں ہی کاٹ ڈالوں گا اور روڈ پر بھیک منگواؤں گا کُتیا سے۔ دو ٹکے کی عزت کر دی رنڈی نے۔ کیا بولیں گے سب لوگ۔ کنجری نے سب کا منہ کالا کروا دیا۔‘‘
کلورانی باجی کو دبوچ کر اس کی چھاتی پر چڑھ بیٹھا۔
’’بول۔۔۔ بک۔۔۔ بتا۔۔۔ ورنہ پہلے ناک کاٹوں گا تیری۔‘‘
کلو کی غیرت اس کے ہاتھوں میں پھڑک رہی تھی۔
چھری کو قریب اور بھائی کو قصائی کے روپ میں دیکھ کر رانی باجی کی آنکھیں اُبل پڑی تھیں۔ ’’کس کا ہے کلموہی بتا کیوں نہیں دیتی۔‘‘ اماں نے اپنے سینے پر دو ہتڑ مارے۔
’’ایسے نہیں بتائے گی یہ۔‘‘ کلو نے چھری سے اس کی ناک پر گہری لکیر کھینچی۔ لال لال خون ایک دم اُبل پڑا۔
’’بتاتی ہوں۔۔۔‘‘ رانی باجی کی دلدوز چیخ نے دل دہلا دیئے۔
کلو چھاتی سے اُتر بیٹھا اور بالوں سے کھینچ کر رانی باجی کو بٹھا دیا۔ سر اور ناک سے بہتے خون نے رانی باجی کو ہیبت ناک حد تک ڈراؤنا بنا دیا تھا۔۔۔ “بتا کس کا پاپ پیٹ میں لے کر بیٹھی ہے۔” کلو گرجا۔
رانی باجی کچھ کہنے ہی والی تھیں کہ ابا دندناتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے۔
’’یہ کیا شور ہو رہا ہے۔ یہ گھر ہے یا مچھلی بازار۔‘‘ اور پھر کلو کے ہاتھ میں چھری دیکھ کر بولے ’’اس چھری سے کیا کرنے جا رہا تھا۔‘‘
’’اس کی بوٹیاں کاٹنے‘‘ کلو نے رانی باجی کی جانب اشارہ کیا۔
’’کیوں؟ کیا کیا اس نے؟‘‘ سب خاموش تھے۔ اماں کی آنکھوں سے آنسو لگاتار بہہ رہے تھے۔ ’’اس نے خاندان کی عزت خاک میں ملا دی ابا۔ سنو گے تو تم خود اسے قتل کر دو گے۔‘‘ کلو نے غصہ بھری آواز میں کہا۔ پھر اس کی آواز بھرّا گئی اور بڑی مشکل سے زبان سے ادا ہوا۔
’’اس کے پیٹ میں کسی کا ناجائز خون پل رہا ہے۔‘‘
ابا نے آگے بڑھ کر چھری کلو کے ہاتھ سے چھین لی۔ ایسا محسوس ہوا کہ وہ خود رانی باجی کو قتل کر دیں گے مگر انہوں نے ہر ایک کی طرف غور سے دیکھا اور بولے۔
’’تمہیں کیسے معلوم؟ میں کسی دائی کو بلاتا ہوں۔ وہ بتائے گی کہ اس کے پیٹ میں بچہ ہے یا کوئی اور بیماری۔‘‘
یہ کہہ کر ابا نے ہاتھ کے سہارے سے رانی باجی کو اُٹھانا چاہا۔ رانی باجی نے ابا کا ہاتھ جھٹک دیا۔ زور سے قے کی تو ابا کے صاف ستھرے اُجلے کپڑوں پر گندگی بکھر گئی۔ قے کے ذرّات اُڑ کر ان کے منہ پر بے شمار دھبے چھوڑ گئے جو شاید کسی بھی طرح صاف نہیں ہو سکتے تھے۔
ابا غصے سے لال پیلے ہو رہے تھے۔ سب سہمے کھڑے تھے کہ کب وہ چھری سے رانی باجی کا پیٹ چاک کرتے ہیں۔ مگر چند ہی سیکنڈ میں ابا بالکل پیلے پڑ گئے، کسی انجانے خوف سے۔ اپنے کپڑوں پر پڑی گندگی اور دھبوں کے ساتھ وہ گھر سے باہر چلے گئے۔ پھر کسی نے ابا کو نہیں دیکھا۔ پولیس کے رِیکارڈ میں ان کے نام کے آگے مفقودالخبر لکھا ہوا ہے۔

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments