ماں کی بجائے ساس بن جائیے: بیٹی کے ایام سیدھے ہو جائیں گے!


 بیماری کا احوال بھی ہو چکا، ہارمونز اور الٹرا ساؤنڈ کے نتائج بھی سامنے میز پہ دھرے جا چکے اور اب مریضہ اور ان کی اماں کا ہم سے فکر آمیز سوال،

 ڈاکٹر صاحب، کیا ماہانہ ایام باقاعدہ ہو جائیں گے ہم تو مختلف ہسپتالوں کے چکر لگا لگا کے اور دوا کھا کھا کے تھک چکے

 ہم حساب لگا چکے ہیں کہ مریضہ محض پولی سسٹک اووریز کا شکار ہے، وہ بھی ابتدائی طور پر۔ پولی سسٹک اووریز ابھی تشویش ناک حالت تک نہیں پہنچیں اور ابھی سنڈروم والا قصہ بھی نہیں۔ ماحول کی سنجیدگی اور ماں بیٹی کا اضطراب کم کرنے کے لئے ہم مسکرا کے کہتے ہیں،

 بیٹی کے ساتھ ساتھ آپ کا بھی علاج ہو گا، کچھ مشکل ہو گی

 اماں کی آنکھیں باہر کو ابل پڑتی ہیں اور انتہائی حیرانی سے پوچھتی ہیں ” میرا علاج؟ مگر کیوں؟

 اس کے بنا بیٹی کا علاج ممکن نہیں ، بتائیے، کریں گی؟

 جی منظور

 ہم شرارت سے آنکھیں گھماتے ہوئے کہتے ہیں،

 آپ اپنی بیٹی کی ماں کی بجائے ساس بن جائیے

 کیا مطلب”، وہ کرسی سے اچھل پڑتی ہیں

 مطلب یہ کہ آج سے آپ کو دو کام کرنے ہیں۔

 پہلا یہ فریج کو تالا لگائیے، ہوٹلنگ بند کیجیے، پزا برگر پاسٹا آرڈر نہیں کرنا جوسز اور کولا ڈرنکس بالکل نہیں، تلی ہوئی چیزوں مثلا سموسے، پکوڑے، فرنچ فرائیز اور نگٹس پہ پابندی، کیک پیسٹری، دونٹس، لیمن ٹارٹس بند، ہر قسم کی کریم اور میانیز کا استعمال ممنوع، حلوے مانڈے، کھیر، فالودہ بس دور سے دیکھیے

 ہائے ہائے، ڈاکٹر صاحب، پھر یہ کھائے گی کیا؟ یہی تو چیزیں اسے پسند ہیں

آپ بتائیے، جب آپ چھوٹی تھیں کیا یہ چیزیں آپ کے کھانے میں شامل تھیں ؟

 جی نہیں، اس وقت تو گھر کی بنی سادہ روٹی، سالن اور سلاد کھایا کرتے تھے

 جدید دور نے زمانے کو جہاں اور بہت کچھ بخشا ہے وہاں شیلف فوڈ یا پروسسڈ فوڈ کا تحفہ بھی موجود ہے۔ مارکیٹس میں چلے جائیے، شیلف زبان کا چٹخارا بھری مصنوعی اشیا سے اٹے ہوئے اور خریدار بے شمار بلکہ یوں کہنا چاہیے، بیمار بے شمار۔

 یہ سب پروسسڈ اشیا حراروں یا کیلوریز سے بھرپور ہوتی ہیں اور جسم ان تمام حراروں کو خرچ نہیں کر سکتا۔ نتیجہ یہ کہ تمام چٹخارا حلق سے نیچے اتر کے استعمال ہونے کی بجائے چربی بن کے جسم کے مختلف حصوں میں جمع ہو جاتا ہے۔ اس چربی سے لیپٹن نامی ہارمون پیدا ہوتا ہے جس کا بنیادی مقصد تو بھوک کے احساس کو کم کرنا ہے تا کہ زیادہ کھانا نہ کھایا جا سکے مگر لذت کام و دہن کے متوالے اس ندا پہ کب کان دھرتے ہیں۔ لیپٹن کا ایک اور اثر ان ہارمونز پہ ہے جو ماہانہ ایام کو باقاعدگی سے چلاتے ہیں۔ زیادہ چربی سے نکلنے والا فالتو لیپٹن ان ہارمونز کے توازن کو درہم برہم کر دیتا ہے۔ پٹیوٹری گلینڈ سے نکلنے والے ہارمونز کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ بیضہ دانی میں بیضے نا مکمل حالت میں پڑے رہ جاتے ہیں کہ وہ بیضہ دانی کی دیوار میں شگاف ڈالنے سے قاصر ہیں۔ وہ ہارمون جس کا خروج بیضے کے خروج میں ڈھل کے باہر کی فضا میں رونما ہونا تھا، وہ بھی غائب۔

 لیجیے جناب، ایام کی بے قاعدگیاں شروع۔ کبھی ڈیڑھ ماہ بعد، کبھی دو اور کبھی تین ماہ بعد۔ کبھی ماہواری کا اخراج اتنا زیادہ کہ موسلا دھار بارش کی طرح تھمنے کا نام نہیں اور کبھی اتنا کم کہ چند بوندیں جیسے خشک سالی کا سماں ہو۔

 ماہواری نہیں آ رہی، جسم فربہ ہو رہا ہے اور سب کے پاس توجیہ وہی کہ ماہواری کے نظام کے بگڑنے سے جسم پھول گیا۔ ہم ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ اس وجہ کی ترتیب بدل دیجیے کہ جسم کی فربہی نے ماہانہ نظام کو تہ و بالا کر دیا۔

 کچھ اعتراض فورا اٹھیں گے کہ وہ ہماری گلی میں ایک خاتون ہم سے دو گنا حجم رکھتی ہیں انہیں تو ایسا کوئی مسئلہ نہیں۔ ایک بات جان لیجیے، یہ کھیل چربی اور مسلز کے تناسب کا ہے۔ جہاں چربی مسلز کے مقابلے میں آگے نکل گئی، لیپٹن میدان میں آ کودا، بیضہ دانی کی بیرونی پرت سخت ہوگئی اور ایام مشکل میں آ گئے۔ جہاں مسلز کا تناسب زیادہ رہا چہ جائیکہ جسم بھاری ہی کیوں نہ دکھتا ہو، نظام درست کام کرے گا کہ لیپٹن اور چربی فاضل نہیں۔

آج کل کے زائد وزن کو ہم “شاپنگ کیا ہوا موٹاپا” کہتے ہیں۔ جہاں رقم خرچ کر کے فیشن ایبل خوراک جسم میں انڈیل کے چربی جمع کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ہمیں تو جھٹ سے بچپن یاد آجاتا ہے۔ نہ نگٹس کھانے کو ملے اور نہ پاسٹا، نہ کیکس کی اتنی ورائٹی اور نہ ہی شیکس کی۔ سمودی کی تو آج تک سمجھ نہیں آتی۔ مختلف شیف کے بنائے ہوئے کریم، میونیز، چیز اور نہ جانے کتنے الم غلم میں بنائے گئے ڈیزائنر کھانے جسم کا کیا حشر کرتے ہیں یہ شاید حشر میں ہی پتہ چلے گا۔

 لیکن جو بات ابھی روز روشن کی طرح عیاں ہے وہ یہ کہ لوگ تیس پینتیس کے پیٹے میں بعد میں پہنچتے ہیں، شوگر اور بلڈ پریشر کا شکار پہلے ہو جاتے ہیں۔ کچھ برس نہیں گزرتے کہ دل کا دورہ ان کی جان لے کے چھوڑتا ہے۔

 ہم نے مریضہ اور ان کی اماں کو مخاطب کیا،

 دوسری بات، جو بیٹی کو کرنی ہے اور آپ کو کروانی ہے، وہ ہے جسمانی مشقت یا ورزش۔ کپڑے دھونا، کھانا پکانا اور برتن دھونا آپ کو تھکاتا ضرور ہے لیکن ورزش کے زمرے میں نہیں آتا۔

 ایک گھنٹہ پیدل چلیے، رسی ٹاپیے، لیپ ٹاپ پہ کوئی بھی ورزش کا پروگرام لگا کے کر لیجیے، یو ٹیوب پہ دسیوں وڈیوز موجود ہیں۔ تیراکی کے وسائل موجود ہیں تو وہ کر لیجیے۔ ورزش کو خوراک کی طرح زندگی کا حصہ بنائیے۔

 یاد رکھیے، پیٹ کے اردگرد جمع چربی ہی آپ کے سب مسائل کی جڑ ہے۔ اس سے چھٹکارا پائیے، بدن کو چھریرا کیجیے۔ پولی سیسٹک اووریز کا مسئلہ حل ہو جائے گا

 یہاں یہ بتاتے چلیں کہ کچھ لوگوں کو ان دونوں باتوں پہ عمل کرنا مشکل لگتا ہے اور وہ دواؤں کی مدد چاہتے ہیں۔ دوائیں موجود ہیں لیکن ان کا نمبر چربی گھٹا کے وزن کم کرنے اور جسمانی ورزش کے بعد آتا ہے۔

 کلیہ آسان سا ہے اگر بنیادی سبب کا علاج نہیں کریں گے تو جونہی دوائیں کھانا بند کریں گے، مرض دوبارہ عود کر آئے گا۔ اور یہ تو واضح ہے کہ کوئی بھی دوا لامحدود مدت کے لئے نہیں کھائی جا سکتی۔

 پولی سسٹک سنڈروم کی تشخیص کا بین الاقوامی طور پہ ایک پیمانہ ہے اور اس پیمانے کے مطابق بہت کم لوگ سنڈروم کا شکار ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے لوگ محض پولی سسٹک اووریز اور پولی سسٹک اوورین سنڈروم میں فرق نہیں کر پاتے اور یوں ہر دوسری بچی غیر ضروری طور پہ دواؤں کا شکار ہو جاتی ہے۔

 ہماری اٹینڈنٹ دو بار کمرے میں جھانک چکی ہے کہ اگلے مریض کی باری کب سے آ چکی تھی۔ اجازت چاہتے ہیں!

٭٭٭٭       ٭٭٭٭

ڈاکٹر صاحبہ، آپ نے ایک پیچیدہ طبی مشکل کو بہت آسان لفظوں میں سمجھا دیا۔ اس سے بہت سے پڑھنے والوں کو بہت اچھی رہنمائی ملے گی۔ ایک گڑبڑ البتہ آپ نے تیکھے عنوان کے شوق میں پیدا کر دی۔ یہ جو آپ نے ساس اور ماں کے کردار میں فرق بتایا ہے گویا بالواسطہ طور پر آپ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ ماں اور ساس کے رویے میں عموماً نظر آنے والا فرق کوئی قابل اعتراض سماجی رویہ نہیں بلکہ بدیہی طور پر قابل قبول اور ناگزیر بندوبست ہے۔ صاحب، جیسے آپ کو طبی امور پر عبور حاصل ہے، کچھ دوسرے احباب نے سماجیات سمجھنے میں ایسی ہی سر کھپائی کر رکھی ہے۔ اول تو عورت مرد کے دو فردی رشتے میں باقی اضافتیں محض خاندان نامی جھنجھٹ کا حصہ ہیں۔ شادی کا ادارہ نہ صرف یہ کہ بہت بدل چکا بلکہ آئندہ برسوں میں اتنا بدل جائے گا کہ میکہ اور سسرال تو ایک طرف رہے، عورت اور مرد کے رشتے کی موجودہ صورتیں بھی باقی نہیں رہیں گی۔ ناخواہی حمل ماضی کا حصہ بن چکا۔ بڑھتی ہوئی آبادی نے عورت اور مرد کے رشتے میں بچوں جیسا تیسرا زاویہ ضرورت کی بجائے باہم اتفاق رائے سے مشروط خواہش میں بدل ڈالا۔ جنسی فعل کو اب بقائے انسانی کی بیگار کے بجائے لطیف تر صورتیں اختیار کرنا ہیں۔ عورت اور مرد کے معاشی، سماجی اور سیاسی پہلو ہی نہیں، خالص نجی زاویے بھی نظر ثانی کے محتاج ہیں۔ تفصیل سے بات کا یہاں محل نہیں، آپ جیسی صنفی مساوات کی قائل خاتون سے توقع کی جاتی ہے کہ نادانستہ طور پر بھی مروجہ سماجی اقدار کو قائم بالذات بندوبست اور مسلمہ اقدار کے طور پر پیش کرنے سے گریز کرے۔ یہ محض ایک رائے ہے۔ آپ کو اپنی رائے کا اختیار ہے۔ مدیر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments