گورا رنگ



عظیم باکسر محمد علی کلے نے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ میں نے ایک دفعہ اپنی ماں سے پوچھا کہ ہر اچھی چیز سفید کیوں ہے۔ حضرت عیسی سنہری بالوں، نیلی آنکھوں والے سفید رنگ کے ہیں، فرشتے سفید رنگ کے ہیں، تصاویر میں کالی رنگت کے فرشتے کیوں نہیں دکھائے جاتے، اینجل کیک سفید رنگ کا ہوتا ہے جبکہ ڈیول کیک چآکلیٹ رنگت کا۔ یہاں تک امریکی صدر کی رہائش گاہ کو کاشانہ سفید White House کہتے ہیں۔ اگر میں کسی کو دھمکی دوں تو انگریزی زبان میں اسے blackmail کہتے ہیں۔ کیا گورے دھمکی نہیں دیتے۔ اگر دیتے ہیں تو اس کو whitemail لکھنا چاہیے، پر ایسا نہیں ہے۔

ہر بری چیز کو کالی رنگت سے جوڑ دیا گیا ہے۔ مثلاً یہ کہ نکمے اور بد دیانت شخص کو کالی بھیڑ کہا جاتا ہے، کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو اس کو نحس سمجھا جاتا ہے، اگر کسی کے اعمال ٹھیک نہ ہوں تو انہیں ”کالے کرتوت“ کہا جاتا ہے اور ناجائز ذرائع سے کمائی گئی دولت کو ”کالا دھن“ گردانا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جھوٹے اور حاسد کے منہ کو بھی ”کالا“ کہہ کر کالی رنگت کی تحقیر کی جاتی ہے۔ کسی معاملے میں شبہ ہو تو کہا جاتا ہے کہ ”دال میں کچھ کالا ہے“ ۔ جب ہم نے ہر بری چیز کو کالے رنگ سے تشبیہ دے دی ہے تو ہر کوئی سفید یا گورا بننا چاہتا ہے۔

چمڑی کے رنگ کو سفید کرتے کرتے بندے کے اپنے بال سفید ہو جاتے ہیں مگر چمڑی کا رنگ قریب قریب وہی رہتا ہے جو کہ حیاتیاتی طور پر آپ کے جینز genes میں ہے۔ ہمارے ملک کی اکثریت ایک خود ساختہ احساس کمتری لے کر پیدا ہوتی ہے کہ ہم گورے نہیں ہیں اس چیز کا شدت سے احساس اپنے اردگرد پٹھانوں کو اور tv پہ انگریزوں کو دیکھ کر ہوتا ہے۔

حالانکہ جلد کا رنگ موسم، سورج کی روشنی اور جلد میں Melanin pigment میلانن خلیے کی پیداوار کے تابع ہے۔ جن علاقوں میں دھوپ یا سورج کی روشنی کی شدت زیادہ ہے وہاں کے لوگوں کی جلد میں میلانن خلیے زیادہ بنیں گے اور وہاں کے لوگ گہری رنگت کے ہوں گے جیسا کہ افریقہ کی عوام، اور جن میں کم پیدا ہونگے وہ ہلکی یا گوری رنگت کے ہوں گے جیسا کہ یورپی اقوام۔ پاکستان میں بھی جو لوگ شمالی علاقہ جات میں رہتے ہیں وہاں کے لوگوں کے جلد کی رنگت ملک کے باقی حصوں کی نسبت گوری یا ہلکے رنگ کی ہے اس کا سبب بھی یہی ہے کہ ان کی جلد میں سورج کی روشنی کی کمی کے باعث میلانن خلیے کم بنتے ہیں۔

سابق کپتان سرفراز احمد نے جنوری 2019 میں ایک میچ کے دوران ساوتھ افریقی بیٹسمین Andile Phehlukawayo کو کالا کہہ کر پکارا جس پر ان پر نسل پرستی کا الزام ثابت ہوا اور ان پر چار میچوں کی پابندی لگ گئی۔ ظلم دیکھئے کہ ”کالا“ کہہ کون رہا ہے اگر شاہد آفریدی کہتا تو بات سمجھ میں بھی آتی۔ خیر یہ وہ رویہ کہ یہاں ہر کوئی خود کو گورا اور دوسرے کو کالا سمجھتا ہے۔ ۔ ہمارے ہاں کسی کو کالا کہنا ایک روایت بن چکا ہے اور آپ کو نسل پرست ہونے کا طعنہ بھی نہیں سننا پڑتا۔

اور جسٹن ٹروڈو (کینیڈا کے موجودہ وزیراعظم ) کا واقعہ بھی اس ضمن میں اہم ہے۔ جس کو ٹائم میگزین نے چھاپا۔ انہوں نے 2001 میں کالج کے زمانے میں الہ دین کا روپ دھارا اور اس میں مزید حقیقت کا رنگ بھرنے کے لئے انہوں نے اپنا رنگ کالا دکھانے کے لئے منہ پہ جلد کا رنگ گہرا کرنے والی کریم مل لی اور اس کے بعد اس معاملے میں خوب لے دے ہوئی اور انہیں معافی مانگنی پڑی۔ اور جسٹن ٹروڈو نے غلطی کا اعتراف کیا اور کہا کہ انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔

ایک پاکستانی myth متھ ہے کہ دودھ پینے سے رنگ سفید اور چائے پینے سے کالا ہوتا ہے۔ بچپن سے امی چائے نہیں پینے دیتی تھیں اور دودھ پینے پہ زور دیتی تھیں اور توجیہہ یہ پیش کرتی تھیں کہ اس سے رنگ گورا ہوتا ہے۔ لیکن جب اپنے باڑے میں بھینس کا دودھ پیتے ”کٹے“ کا رنگ دیکھتا تھا تو اس myth کی حقیقت کھل جاتی تھی۔ دوسری متھ یہاں یہ بھی ہے کہ پیپسی پینے سے رنگ کالا اور سیون اپ پینے سے رنگ کالا نہیں ہوتا۔ میں نے اکثر گہری رنگت والوں کو سیون اپ پیتے دیکھا ہے۔

اگر کوئی غیر ملکی ہمارے ملک میں آئے اور وہ اردو پڑھ سکتا ہو تو ہوٹل کے کمرے تک پہنچتے پہنچتے اسے دیواروں پہ لکھی ہوئی تحریروں سے اندازہ ہو جائے گا کہ اس ملک کے دو بنیادی مسائل ہیں۔ ایک رنگ گورا کرنا اور دوسرا وہی جو آپ سمجھے ہیں اور درست سمجھے ہیں۔ حالانکہ گورا رنگ بھی مردوں کی بیشتر کمزوریوں میں سے ایک کمزوری ہی ہے، بقول جنید جمشید مرحوم

سانولا سنولا رنگ کتنوں کو بھاتا ہے

جسے دیکھو گوریوں کے پیچھے چلا آتا ہے۔ لیکن جنید جمشید کا ہی ایک اور گانا ہے کہ ”سانولی سلونی سی محبوبہ“ جس میں آگے چل کر وہ یہ کہتے ہیں کہ ”امریکہ کے نہ جاپان کے، ہم تو ہیں دیوانے ملتان کے“ تو انہوں نے دونوں طرح کے لوگوں کو راضی کرنے کی کوشش کی۔

ہمارے ہاں ماؤں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنے بیٹے کے لئے دودھ جیسی رنگت والی لڑکی ڈھونڈیں چاہے لڑکے کی اپنی رنگت ڈارک براون چاکلیٹ جیسی ہی کیوں نہ ہو اور پھر ایسے جوڑوں سے Cadbury milkچاکلیٹ کی رنگت والے بچے پیدا ہوتے ہیں۔

بی بی سی اردو کے مطابق سنہ 2017 میں رنگ گورا کرنے والی مصنوعات کی عالمی مارکیٹ کی قدر کا تخمینہ چار ارب آٹھ کروڑ ڈالر لگایا گیا تھا اور اندازہ ہے کہ سنہ 2027 میں یہ دگنا ہو کر 8.9 ارب ڈالر تک جا پہنچے گی۔ ان مصنوعات کی طلب بنیادی طور پر ایشیا اور افریقہ کے متوسط طبقے کے صارفین سے آتی ہے۔ ان مصنوعات کے ذریعے جلد کا رنگ پیدا کرنے والے میلانن نامی خلیے کی پیداوار سست کی جا سکتی ہے اور یہ طریقہ انتہائی مقبول ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق افریقہ کی 10 میں سے چار خواتین رنگ گورا کرنے والی مصنوعات کا استعمال کرتی ہیں اور میرے خیال میں پاکستان 10 میں سے 20 مرد و خواتین ان چیزوں کا استعمال کرتے ہیں۔ نائجیریا کی 77 فیصد خواتین رنگ گورا کرنے والی مصنوعات کا استعمال کر کے افریقہ میں سر فہرست ہیں۔

گورا رنگ خوبصورتی کا معیار بن چکا ہے جبکہ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ سانولے اور گہرے رنگ کی اپنی خوبصورتی ہوتی ہے جس کی مثال فلمسٹار ریکھا، شبنم، مادھوری، دیپیکا پادوکون، رجنی کانت، نانا پاٹیکر، نوازالدین صدیقی، مدھاون، توقیر ناصر، عاشر عظیم، ڈینزل واشنگٹن، ول سمتھ، امریکی صدر براک اوباما، مارگن فری مین اور ان جیسے کئی لوگ شامل ہیں۔ یہاں سانولی رنگت والے دوسروں کو کالا کہتے اور سمجھتے ہیں، جو کہ ایک غلط روایت ہے۔ انسانی جلد کی رنگت کا تنوع، قوس قزح کے رنگوں کی مانند ہے۔ ہر رنگ کی اپنی خوبصورتی ہے اس لیے کسی کو بھی نشانہ تضحیک نہیں بنانا چاہیے اور ہر کسی کو اپنی جلد کے رنگ میں ہی فخر اور خود اعتمادی محسوس کرنی چاہیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments