رکن اسمبلی رخسانہ کوثر کی قرارداد اور زیبائشی داڑھی۔۔۔


آج کل سوشل میڈیا پر ایک نئی پھلجھڑی چھوڑی گئی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رکن پنجاب اسمبلی رخسانہ کوثر نے حال ہی میں ایک قرارداد جمع کروائی ہے جس میں ارکان اسمبلی سے تائید کی گذارش کی گئی ہے کہ مردوں کو نت نئے ڈیزائن کی داڑھیاں ترشوانے سے روکا جائے۔

اگر وہ اس درخواست میں یہ بھی کہہ دیتیں کہ ان فیشن ایبل داڑھیوں کی وجہ سےمعصوم بیبیوں کے ایمان متزلزل ہو جاتے ہیں تو مجھے ان کی اس بات پر پیار آ جاتا۔۔ آخر ایسا ہو بھی تو سکتا ہے۔۔اگر بےچارے مردوے عورت ذات کو دیکھ کر بے قابو ہو جاتے ہیں توعورتوں کا ان خوبصورت داڑھیوں والے مردانہ چہروں کو دیکھ کر دل کیوں نہیں دھڑک سکتا۔ ۔یہ قدرتی بات ہے۔۔ کسی بھی حسینہ کی کسی ریشمی، لہراتی، ہواوں سے الجھتی، سنسناہٹ بھری داڑھی پر نظر جا ٹکے تو وہاں سے ہٹنے کا نام ہی نہ لے ۔۔ میر جی چاہتا ہے کیا کیا کچھ۔۔۔ عورت کو بھی اس کے اندر کا جذباتی ہیجان بے اختیار کر سکتا ہے۔۔ گہرے اور ساکن سمندروں کی تہ میں طوفان کچھ ایسی اچنبھے کی بات تو نہیں۔۔۔ راکھ کے ڈھیر میں سلگتی چنگاری بھلے نظر سے پوشیدہ ہو، جوان جذبوں کا نشان دیتی داڑھی ہوا دے تو تپش رکھتی ہے، آنچ دے سکتی ہے، اور لالہ رخ کے شعلہ رو بننے میں کیا دیر لگتی ہے۔۔۔

رکن پنجاب اسمبلی رخسانہ کوثر نے اپنی قرارداد کی بنیاد سنت نبوی پر رکھی ہے۔ کاش انہوں نے یہ بھی کہا ہوتا … کہ سنّت کا تقاضا ہے کہ مرد اپنے سے بڑی عمر کی، مطلقہ، بیوہ یا کسی بے سہارا عورت سے شادی کریں اور کنواریوں کے پیچھے قیس بن کر خاک اڑاتے نہ پھریں۔ فرہاد بن کر بنجر زمینوں میں ہوا و ہوس کا تیشہ چلانے سے گریز کریں۔ پیارے نبی نے تو کسی بھی امیر یا غریب، کسی طبقے یا قبیلے کی خاتون کو شریک حیات بنانے میں عار نہیں سمجھا-

اگر نبی آخرالزماں کی پیروی ہی کرنی ہے تو یاد رہے کہ انہوں نے لمبی داڑھی والے کو نہیں بلکہ ہر اس انسان کو افضل قرار دیا جس کا اخلاق اچھا ہو- الله کے نزدیک پسندیدہ شخص وہ ہوتا ہے جس کے اعمال نیک ہوں، ایمانداری، شرافت، راست بازی، فرض شناسی اور خدا خوفی میں زندگی گزارتا ہو، کمزور انسانوں اور جانوروں سے رحمدلی سے پیش آتا ہو -انسان کی اچھائی برائی کا تعلق اس کے کردار سے ہوتا ہے- کسی کی داڑھی کی لمبائی اور شلوار کی اونچائی اس کی اخلاقی برتری کو ثابت نہیں کرتی-

یہ حقیقت تو ہم سب جانتے ہیں کہ مدرسوں میں اور ان سے باہر بچوں کا جنسی استحصال کرنے والوں میں داڑھی والے اور داڑھی منڈے میں کوئی امتیاز نہیں۔۔۔ ماسٹر ہو یا ملا، عبدالباری اور حسین قاری میں کوئی فرق نہیں۔ (وزیرستان میں نوعمر بچوں کو خود کش حملوں کی تربیت دینے والے بدنام زمانہ دہشت گرد کا نام قاری حسین تھا)۔ سانحہ پشاور میں بچوں کا قتل عام کرنے والے با ریش دہشت گرد کی مسکراتی ہوئی تصویر جب بھی دیکھتی ہوں، روح کانپ کے رہ جاتی ہے.

 جس طرح برقع یا نقاب کسی عورت کی راست بازی یا پاک دامنی کی دلیل نہیں ہوتا، اسی طرح داڑھی بھی کسی مرد کو نیک یا بد ثابت نہیں کرتی -اچھے اصول اور آدرش ہی آدمی کو انسان بناتے ہیں- معاشرے کو کسی ڈیزائن دار مردانہ داڑھی نے نہیں بلکہ بے اایمانی، مکاری، لوٹ کھسوٹ اور غیر ذمدارانہ رویوں نے نقصان پہنچایا ہے۔

ارکان اسمبلی پہلے تو اپنے گریبانوں میں جھانکیں، چوتھی کی دلہن جیسی سجی بنی خواتین اور تھتھلاتے جثوں والے اول جلول اسمبلی میں حاضر ہی نہیں ہوتے حالانکہ یہ ان کا فرض منصبی ہے اور وہ اس کی تگڑی تنخواہ اور ڈھیروں مراعات لیتے ہیں- اور اگر قدم رنجہ فرمانے کی زحمت کر لیں تو اونگھتے رہتے ہیں یا گپپں ہانک کر وقت گزاری کرتے ہیں، بات بات پر شور مچاتے ہیں، نمبر ٹانکنے کے لئے توتکار کی جاتی ہے، آخر ان کو فری پیٹرول والی گاڑیاں، نوکر چاکر اور خیرہ کن مراعات کس کھاتے میں دی جاتی ہیں- داڑھی کو ناپنا اور جانچنا چھوڑیں، قوم کے مسائل کی طرف توجہ دیں، اور اگر آپ کی پارسائی کو منطقہ ناف ہی تک رسائی پر اصرار ہے تو فہمیدہ ریاض کی یہ سطریں یاد کریں جہاں وہ کہتی ہیں۔۔۔۔

کولھوں میں بھنور جو ہیں تو کیا ہے

سر میں بھی ہے جستجو کا جوہر

تھا پارۂ دل بھی زیر پستاں

لیکن مرا مول ہے جو ان پر

گھبرا کے نہ یوں گریز پا ہو

پیمائش میری ختم ہو جب

اپنا بھی کوئی عضو ناپو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments